صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
مصحف اقبال توصیفی
مختلف ادباء
گوشہ، جریدہ ’شعر و حکمت‘ مدیران: شہریار، مغنئ تبسم
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
دور کنارا۔ دور سے ایک جھلک
شفیق فاطمہ شعریٰ
ایک بندوق کے نشانے پر
میں پہاڑوں پہ میں ڈھلانوں میں
اجتماعی زندگی میں یہ ’میں ‘ یہ ’انا‘ سیاسی جبر و استحصال اور عسکری قبضہ گیری کا شکار کوئی ملک بھی ہو سکتا ہے، کسی قوم کی آزادی بھی ہو سکتی ہے …… انفرادی زندگی میں یہ ’ انا‘ خارجی مسائل کے انتشار میں تحلیل ہوتی ہوئی انسانی شناخت ہے یہ گھر گھرانے سے انسان کی وابستگی ہے۔ اس شناخت کی باقیات اگر کہیں دستیاب ہو سکتی ہیں تو کبھی کبھار جدید شعر و ادب ہیں :
یہ مری خاموشیوں کے زخم ہیں
یہ مری آواز کے چہرے نہیں
توصیفی صاحب کی غزلوں میں ہم ایک نرم ٹھہرے ہوئے نفیس لب و لہجہ کے شاعر سے روشناس ہوتے ہیں۔ یہاں وارداتِ قلب ریشم کے پر لگا کر دور دراز فضاؤں میں اپنی پرواز کی جھلک دکھاتی ہیں۔ شاید یہ بھی حسن آفرینی کا ایک انداز ہے:
آپ ہم کو لاکھ اکسائیں جناب
آپ بیتی تو سنانی ہی نہیں
۔۔۔
میں نے اس کے دھیان کی چادر
وقت نے اوڑھیں چار دشائیں
۔۔۔
غزل کے شاعر کو ایک ایسا رہ نوردِ شوق مانا گیا ہے جسے کسی موڑ پر بھی منزل قبول نہیں۔ لیکن اس بن باس سے حقیقت کی سر زمین کی طرف واپس لوٹنے پر پابندی بھی نہیں لگائی جا سکتی:
ماں نے کہا، تو میرا ہے
وہ بولی، شوہر میرا
اس شعر میں ایک دائمی رزمیہ کا حوالہ ملتا ہے جو ہمیشہ بزم آرائی پر ختم ہوتا آیا ہے …… تغزل کی روایات سے ایک انحراف سہی ، لیکن کتنا خوش آئند انحراف ہے۔
ویسے تغزل اور معاملہ بندی کی روایات کو اپنی غزلوں میں جادو جگانے کی اجازت شاعر نے دے رکھی ہے، ایک نئے مانوس اور شائستہ انداز میں :
کیا کیا نہ ہمارے جی میں آئی
کچھ تم کو دیا جواب ہم نے
۔۔۔۔
وہ نہ چھوڑے گا ساتھ اوروں کا
مل گیا اب اسے نہ جانے کون؟
۔۔۔۔
مصحف اُس کا دل دکھا کر کیا ملا
آپ سچ بولیں مگر سوچا کریں
۔۔۔۔
بے وفا ہے وہ تو اُس در پر نہ جائیں
آپ اِدھر آئیں یہاں بیٹھا کریں
۔۔۔۔
ہم سے تو بے کار ہی نالاں رہتا تھا
غیر سے مل کے اب کیسے پچھتایا ہے
۔۔۔۔
آپ کہیں تو شاید سن لے
آپ ہی اب اُس کو سمجھائیں
۔۔۔۔
شاعری اگر انسان کے باہمی رشتوں اور ان کی متنوع کیفیات کی آئینہ دار نہ ہو تو محض جدت طرازی بن کر رہ جائے گی:
ایسے کہ سنو تو ہنس پڑو تم
دیکھے ہیں عجیب خواب ہم نے
یہ ہنر مندانہ پیرایۂ اظہار اور شعریت سے بھر پور سادہ فطری اسلوب نگارش مصحف اقبال توصیفی کے کلام کی نمایاں پہچان ہے:
اک بے نام سفر ہے نوری سالوں کا
کسی نے تجھ کو دیکھا، کس نے پایا ہے
جس طرح بات سے بات چلتی ہے اس طرح اس شعر کو پڑھتے ہوئے یادداشت کے اندھیرے میں ایک دوسرے شعر کی روشنی پھیلی :
ہزارو پار جواب تو گفتہ ام ’لبیک‘
بداں امید کہ یک بار گوئی ام ’یارب‘
(سخن درِ اجمیر)
یہ شعر تفسیر ہے، مفسر حضرت معین الدین چشتیؒ۔ متن ایک آیت روشن: ’’ہم اُس سے اُس کی رگ جاں سے بھی نزدیک تر ہیں ‘‘۔ ( القرآن)
اپنی نظموں میں توصیفی صاحب قاری کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ لاشعوری رفاقت کے سہارے، نہ کہ وضاحتی بیانیہ کے جبر سے۔ ان کی بیش تر نظموں پر، قاری اساس، مفروضے کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔
ایک فن کار کی تخلیق فن کار کا اپنا عمل ہے۔ قاری اگر تعبیر متن فن کار کے حسب منشا کرتا ہے تو اس کو شریک عمل مان لینے میں کوئی مضائقہ نہیں …… لیکن ایجاد بندہ ، قسم کے تنقیدی رجحانات قاری پر تعبیر متن کی ایسی ذمہ داری عائد کرنے پر تلے ہوئے ہیں جن سے عہدہ برآ ہونا اس کے لیے مشکل ہے۔ وہ سر زمین شعر سے عنقا صفت پرواز کے لیے پر تول رہا ہے۔ ہم تو اس دنیا میں قاری کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ترس ترس گئے۔ اخبارات کے صفحات کھیل کے میدان کی طرف اشارہ کرتے ہیں جہاں ابھی تک تماشائی اساس، کھیل کا آغاز نہیں ہوا ہے۔ شاید ادب کا قاری وہاں اپنی نشست پر براجمان۔ بہت مزے میں ، دریافت کیا جا سکتا ہے۔
کھیل ختم ہوتے ہی میدان سے دھول اڑتی ہوئی۔ اس دھول میں کھلاڑیوں کے نام اور چہرے سب کچھ غائب۔
اس کے برعکس شعر و ادب کی قدر و قیمت کے پیمانے ہیں جن پر خارجی عوامل اثر انداز نہیں ہو سکتے۔
خزاں میں ابھی تک ہے رنگ بہار
یہ صحرائے جاں اک چمن بھی تو ہے
۔۔۔۔
سر سبز چمن میرا اے باد صبا رکھنا
ہر پھول کھلا رکھنا ہر پات ہرا رکھنا
٭٭٭