صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
توحید (تھرڈ میڈیٹیشن)
نامعلوم
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
اب میں اپنی آنکھیں بند کرتا ہوں، اپنے کان بند کرتا ہوں اور اپنی تمام حسیات سے قطع تعلق کرتا ہوں۔ میں اپنے تمام جسم کے متعلق ذہنی خیالات کو خالی، غلط اور بیکار تصور کرتا ہوں۔ میں خود سے گفتگو کروں گا۔ خود کو گہرائی میں جج کرتے ہوئے اور اسی طرح خود کو جاننے کی بہتر انداز میں کوشش کروں گا۔ میں سوچنے والی چیز ہوں، مثلاً ایسے شکوک، اقرار، انکار، کچھ چیزوں کو سمجھنا، بہت ساری چیزوں کی جہالت ہے۔ ارادے اور انکار یہ چیزیں نہ صرف یہ کہ تصور کی جاتی ہیں، بلکہ حسی ادراک بھی رکھتی ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا حتیٰ کہ حسی تجربات اور تصورات کے اجسام اگر مجھ سے باہر اپنا وجود نہیں رکھتے، تب بھی حسی ادراک اور تصورات بجائے خود دماغی واقعات و حادثات سمجھے جائیں گے۔جیسا کہ خاص طور پر میرے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ ہر چیز کو ترتیب دیتا ہے جو میں سچائی کے ساتھ جانتا ہوں، یا کم از کم ہر وہ چیز جس کو اب تک میں یہ سمجھتا ہوں کہ میں جانتا ہوں۔ اب مکمل احتیاط کے ساتھ میں یہ دیکھنے کی کوشش کروں گا کہ میں نے اپنے متعلق دوسرے ضروری امور اور حقائق کا جائزہ لیا ہے یا نہیں۔ میں یہ بات پورے یقین کے ساتھ جانتا ہوں کہ میں غور و فکر کرنے والا ہوں۔ کیا یہ مجھے نہیں بتاتا کہ مجھے کسی بھی چیز کے متعلق کیسا ہونا چاہیے۔ علم کے اس پہلے نقطے میں وہاں ایک واضح اور قابل شناخت ادراک کہ میں کس چیز کو سچ جانتا ہوں، یہ مجھے اس سے روکنے کے لیے ہرگز کافی نہیں ہو گی، اس سچ کے متعلق کہ اگر میں نے کبھی کسی چیز کو سچ سمجھا تھا اور وہ غلط نکلی۔ تو اب یہاں میں عمومی قانون بیان کرنا چاہوں گا کہ "ہر وہ چیز سچ ہے جس کو میں نے واضح اور قابل شناخت طریقے سے جانا"۔ میں نے پہلے کچھ چیزوں کو مکمل تضیع کے ساتھ جانا لیکن وہ شک آمیز تھیں جیسا کہ زمین، آسمان، ستارے اور بہت سی دوسری چیزیں جن کو میں نے اپنی حسوں سے جانا اور پہچانا۔ لیکن اس صورتحال میں جو کچھ میں نے جانا وہ سب خیالات تھے، جو ان چیزوں کے متعلق میرے ذہن میں آئے۔ میں ابھی بھی اس بات سے انکار نہیں کر رہا ہوں کہ وہ خیالات میرے اندر موجود تھے۔ لیکن میرا اس بات پر بھی یقین ہے کہ میرے خیالات جو ان چیزوں کے متعلق میرے ذہن میں تھے، وہ ان چیزوں کی وجہ سے میرے ذہن میں آئے جو میرے ذہن سے باہر اپنا وجود رکھتی تھیں، اور وہ خیالات اُن چیزوں سے بعینہ مماثلت رکھتے تھے۔
درحقیقت میں یقین رکھتا تھا اسی بات سے بہت لمبے عرصے تک کہ میں جس چیز کو جانتا ہوں اُس کو بالکل صحیح اور واضح طور پر جانتا ہوں۔ درحقیقت یہ غلط تھا۔ اور اگر کسی وجہ سے سچ بھی تھا تب بھی یہ میرے ادراک کی طاقت ہرگز نہ تھی۔
لیکن اس صورت میں کیا، جب میں فرض کر رہا تھا کہ کوئی چیز، جومیڑی اور حساب میں، سادہ اور واضح، مثال کے طور پر دو اور تین مل کر پانچ بناتے ہیں۔ کیا میں نے ان چیزوں کو اتنا واضح نہیں پایا تھا کہ میں ان کو سچ مان لیتا۔
درحقیقت صرف ایک وجہ جو شک کرنے کے لیے مجھے ملی، وہ تھی، کہ شاید کچھ خدا نے مجھے بنایا ہے، کہ میں دھوکا کھاؤں۔ حتیٰ کے ان معاملات میں بھی جو بالکل واضح تھے اور شک سے مبرا تھے۔ جب کبھی میں اپنے ذہن میں اپنے پُرانے عقائد کو لایا جو خدا کے مطلق قوت کے متعلق تھے، مجھے یہ تسلیم کرنا پڑا کہ خدا یہ کر سکتا ہے، اگر وہ یہ کرنا چاہے۔وہ آسانی سے مجھے ان چیزوں کے متعلق بھی گمراہ کر سکتا ہے جن کو میں سمجھتا ہوں کہ میں واضح طور پر جانتا ہوں۔ لیکن جب میں نے اپنے خیالات کو چیزوں کی وجودیت پر مرکوز کیا تب ایک مرتبہ میرے ذہن میں خیال آیا، کہ میں واضح طور پر چیزوں کو جانتا ہوں۔ میں نے اُن کو اتنا واضح اور متاثر کن پایا کہ میں ایک دم چلا اُٹھا کہ خدا کو مجھے گمراہ کرنے اور دھوکا دینے کے لیے اپنی بہترین کوشش کر لینے دو۔ وہ کبھی بھی مجھے باور نہیں کرا سکے گا کہ میں کچھ نہیں ہوں، جبکہ میں سوچتا ہوں کہ کچھ ہوں یا یہ کہ یہ چیز مستقبل میں سچ ہوتی کہ میں کبھی موجود ہی نہیں تھا۔ جبکہ میں اس لمحہ موجود میں اپنا وجود رکھتا ہوں۔ یا اُسے یہ کرنے دو کہ دو جمع تین پانچ سے زیادہ ہیں یا پانچ سے کم، یا ایسی ہی کوئی چیز یا اس جیسی جس میں مجھے واضع طور پر تفاوت نظر آئے۔ اور یہ بھی کہ ابھی تک میرے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے کہ کہیں کوئی دھوکا دینے والا خدا موجود ہے۔ اور حتیٰ کہ میں یہ بھی نہیں جانتا، مکمل یقین کے ساتھ نہیں جانتا آیا کہ خدا ہے بھی یا نہیں۔شک کی وجہ یہ ہے کہ اس فرضیت کی کلی وجہ اس چیز پر منحصر ہے کہ خدا جو کہ مجھے دھوکا دینا چاہتا ہے، تھوڑا سا زبانی کلامی طور پر حسابی ہے۔ تاہم میں اس معمولی سی وجہ کو بھی ختم کرنا چاہوں گا جو شک پیدا کرتی ہے۔ تا کہ جب مجھے موقع ملے میں یہ تجزیہ کر سکوں کہ کوئی خدا ہے اور اگر ہے وہ دھوکا دے سکتا ہے، اور اگر میں اس چیز کے ساتھ نبرد آزما نہیں ہو سکتا تب دیکھنا یہ ہے کہ میں کیا کسی چیز کے متعلق کبھی بھی پُر یقین انداز میں کچھ کہہ سکوں گا۔ پہلے اگر میں ترتیب کے ساتھ چلوں تب میں اپنے خیالات کو ترتیب دوں کچھ خاص اقسام کے لحاظ سے اور تب یہ جانوں گا کہ کوئی اقسام ٹھیک طور سے اسی ہیں جن کو صحیح یا غلط کہا جا سکتا ہے۔
میرے کچھ خیالات جیسے بولنا، تصویروں کے متعلق، تصورات کے متعلق اور چیزوں کے متعلق ایسے ہیں جن کو ایک مثال کی مدد سے بیان کرتا ہوں۔ جب میں ایک آدمی کے متعلق سوچتا ہوں، یا ایک کیمرے کے متعلق سوچتا ہوں یا آسمان کے متعلق سوچتا ہوں یا فرشتے اور خدا کے متعلق سوچتا ہوں، میں واضح طور پر کہتا ہوں، کہ یہ خیالات ایسے ہیں جن کو تصورات کہنا چاہیے۔ اور کچھ دوسرے خیالات ان کے علاوہ ہیں۔ مثال کے طور پر اگر میں کسی چیز سے خوفزدہ ہوں تب میرے خیالات کسی خاص چیز کو ظاہر کریں گے۔ لیکن اس میں کچھ ایسی چیزیں بھی شامل ہوں گی جو اُن چیزوں کی موزونیت کے علاوہ ہوں گی۔ اس فہرست میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کو جذبات یا خواہشات کہا جا سکتا ہے، جن کو فیصلے یا تجربے کا نام دیا جا سکتا ہے۔
جب خیالات کو واحد اور یکتا فرض کیا جاتا ہے اور ان کو کسی دوسری چیز کے ساتھ جوڑا نہیں جاتا، وہ غلط نہیں ہو سکتے۔ جیسا کہ اگر ایک بکری ہے، جس کو فرض کریں، یا ایک کمرہ ہے، یہ ہر طرح سے ٹھیک ہے ، جب میں ان کو تصور میں لاتا ہوں۔ اور اسی طرح ارادے اور جذبات میں کوئی غلطی نہیں ہو سکتی، یہاں تک کہ جن چیزوں کو میں تصور میں لاتا ہوں، اپنا وجود نہیں رکھتیں۔ یہاں تک بھی ٹھیک ہے کہ میں اُن کو چاہتا ہوں۔ اُن سب کے علاوہ خیال کی ایک اور قسم جس میں موجود غلطیوں پر مجھے لازماً غور کرنا ہو گا، تجربات ہیں۔ اور اس صورتحال میں عام طور پر جو غلطی ہوتی ہے کہ میرے خیالات اُس چیز سے ملتے ہیں یا نہیں، جس کے متعلق میں سوچتا ہوں، اور میرے وجود سے باہر اپنا وجود رکھتی ہیں۔ بے شک اگر میں خیالات کو سادہ طور پر اپنی سوچ کا عکس سمجھوں اور ان کو سی دوسری چیز کے ساتھ نہ جوڑوں، تب غلطی کا امکان کم سے کم ہوتا جائے گا۔
میرے کچھ خیالات پیدائشی ہیں، کچھ باہر سے (مستعار) لیے گئے ہیں، اور باقی میں نے خود پیدا کیے ہیں۔ جیسا کہ کسی چیز کے متعلق اپنی سمجھ سے دیکھتا ہوں کہ سچ کیا ہے اور خیال کیا ہے، میری اپنی ذات سے جنم لیتے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ پیدائشی ہیں، میرا اواز کا سننا، سورج کا دیکھنا اور آگ کو محسوس کرنا، اُن چیزوں سے ہے جو مجھ سے باہر ہیں ، اور اوازیں اور دوسری چیزیں میری ایجاد ہیں۔ لیکن شاید تمام میرے خیالات باہر سے وارد ہوتے ہیں، یا سب پیدائشی ہیں یا سب بنائے گے ہیں، لیکن میں ان خیالات کا صحیح مخزن نہیں جانتا کہ یہ کہاں سے آتے ہیں۔
لیکن میرا اصل سوال اس بات سے متعلق ہے کہ ایسے خیالات جو باہری چیزوں کی وجہ سے میرے اندر آتے ہیں، میں ایسا کیوں سمجھتا ہوں اُن کے متعلق کہ وہ ان چیزوں سے مشابہت رکھتے ہیں۔ فطرت ظاہری طور پر مجھے بتاتی ہے کہ وہ واقع ان چیزوں جیسے ہیں، لیکن اپنے تجربے سے میں یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ خیالات میری خواہش کے پابند نہیں ہیں۔ چنانچہ ان خیالات کا انحصار مجھ پر نہیں ہے۔ یہ عام طور پر میری خواہش کے بغیر میرے ذہن میں آتے ہیں جیسا کہ ابھی مثال کے طور پر مجھے حرارت محسوس ہو رہی ہے۔ اب حرارت کا یہ احساس اس بات پر منحصر نہیں ہے کہ میں حرارت محسوس کرنا چاہتا ہوں یا نہیں۔ اور یہی بات مجھے یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ حرارت کا یہ احساس کسی ایسی چیز کی وجہ سے ہے، جو مجھ سے باہر موجو د ہے۔ اگر میں واضع طور پر کہوں تو یہ آگ کی حرارت ہے جس کے سامنے میں بیٹھا ہوا ہوں اور ایسا فرض کرنا بالکل فطری ہو گا کہ بیرونی چیزوں کی وجہ سے جو احساس پیدا ہوتا ہے وہ ان بیرونی چیزوں کی فطرت سے ملتا جلتا ہوتا ہے نہ کے ان کے مخالف۔ آئیے اب دیکھتے ہیں یہ میرے دلائل اور باتیں کس قدر مضبوط ہیں، جب میں کہتا ہوں کہ فطرت نے مجھے بتایا ہے کہ کس طرح سوچا جائے، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ خود بخود طریقے سے مجھے اس کو ماننا پڑے گا نہ یہ کہ میں یہ دکھا رہا ہوں کہ یہ کسی فطری روشنی کا سچ ہے۔ ان دونوں کے درمیان بہت زیادہ فرق ہے۔ چیزیں جو کہ الہامی روشنی کی وجہ سے پہچانی جاتی ہیں، مثال کے طور پر اگر میں یہ کہوں کہ مجھے شک ہے کہ میں موجود ہوں کہ نہیں، تب اس بات کو پرکھنے کے لیے ایک الہامی روشنی کے علاوہ کوئی ذریعہ نہیں جس سے اس بات کے سچ یا جھوٹ ہونے کا پتہ چلے۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ میرے یہ فطری توجہات مجھے غلط راستے کی طرف دھکیلتے ہیں اور مجھے کوئی ایسی وجہ نہیں ملتی کہ میں اُن پر بھروسہ کروں۔ تب ایک مرتبہ پھر اگر یہ خیالات میری مرضی یا خواہش پر منحصر نہیں ہیں، تب یہ بھی ضروری نہیں ہیں کہ یہ ایسی چیزوں کی وجہ سے میرے ذہن میں آئیں جو مجھ سے باہر موجود ہیں۔ شاید یہ میری کسی ایسی چیز کی وجہ سے میرے ذہن میں آتے ہیں جو میری مرضی کے علاوہ ہیں۔ اور میں مکمل طور پر نہں جانتا کہیہ آصل میں کیا چیز ہیں۔ اور یہ بیرونی چیزوں کی مدد کے بغیر خیالات کو پیدا کرتی ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کے بارے میں آخرکار مجھے کہنا پڑتا ہے کہ جس کے بارے میں میں ہمیشہ سے سوچتا رہا ہوں کہ حالت خواب میں، خیالات کس طرح سے میرے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح سے یہ فطری نبضیں جن کے بارے میں میں بات کر چکا ہوں اگرچہ یہ ظاہری طور پر میری خواہش اور ارادے کے مخالف دکھائی دیتے ہیں میرے اندر ہی سے پیدا ہوتے ہں۔ اور یہ اس بات کا کافی ثبوت مہیا کرتے یہں کہ یہ ایسی بہت سی چیزوں کے مجھ سے سرذد ہونے کی وجہ ہو سکتے ہیں جو میں نیہں چاہتا اور نہ ہی یہ چیزیں میرے ارادے کی وجہ سے وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ آخر کار حتیٰ کے اگر یہ خیالات ایسی چیزوں کی وجہ سے تشکیل پاتے ہیں جو مجھ سے باہر موجود ہوں تب یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ خیالات ان چیزوں سے ملتا جلتے ہوں۔
حقیقت میں میں سمجھتا ہوں کہ میں نے اکثر چیزوں کو اپنےخیالات سے بہت مختلف پایا ہے جیسا کہ میں اُن کے بارے میں سوچتا تھا، مثال کے طور پر سورج کے بارے میں میرے ذہن میں دو خیالات تھے، ایک خیال کو ہم حسی یا ادراکی کہہ سکتے ہیں، یہ کسی بھی تصور کی بہترین مثال ہے کہ میں نے سوچا کہ میرے پاس ایسا بیرونی ذریعہ ہونا چاہیے، جس کی وجہ سے سورج کو بہت چھوٹے وجود میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ اور دوسرا خیال جو سورج کے متعلق میرے ذہن میں تھا یہ علم ہیئت کے تعقلات کی وجہ سے تھا۔ اور یہ اس لیے تھے کہ ایسے خیالات پیدائشی طور پر میرے اندر موجود تھے یا وقت کے ساتھ ساتھ خود میں نے اپنے ذہن میں تشکیل دے دیے تھے۔ اور ان خیالات کے مطابق سورج زمین سے کئی گنا بڑا تھا۔ اگرچہ بیوقت یہ دونوں خیالات سورج سے مماثلت نہیں رکھ سکتے، اور میرے ادراک نے مجھے بتایا کہ وہ تصور جو براہ راست سورج سے منسلک ہے سورج سے زیادہ مطابقت نہیں رکھتا۔ یہ خیالات اور تصورات یہ دکھاتے ہیں کہ نتائج زیادہ قابل اعتماد اور پائیدار نہیں ہوتے لیکن ایک انجانے وجدان نے میری رہنمائی کی کہ بیرونی چیزیں اپنے سے ملتا جلتا عکس میرے ادراک اور حسیات کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے میرے ذہن میں بنا دیتی ہیں ۔ شاید کہ اگرچہ جانچ پرکھ کا ایک اور طریقہ بھی ہے، کہ کچھ چیزوں کے بارے میں میں جو خیالات رکھتا ہوں کیا وہ چیزیں مجھ سے باہر بھی موجود ہیں یا نہیں۔ کچھ ایسی چیزیں ہیں جن کے بارے میں میرا خیال ہے کہ وہ واقع مجھ سے باہر اپنا وجود رکھتی ہیں، سادہ ذہنی افعال کے بارے میں فرض کیجیے۔ میرے تمام خیالات بالکل ایک جیسے اور ایک ہی جیسی بنیادوں پر ہیں ، یہ تمام کے تمام میرے اندر سے کسی نہ کسی ذریعے سے تشکیل پاتے ہیں اور اب فرض کیجیے کچھ ایسی تصویروں کے بارے میں جو چیزوں کو پیش کرتی ہیں اور ایسے طریقے سے پیش کرتی ہیں جیسا کہ وہ چیزیں نہیں ہیں۔ سادہ الفاظ میں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ تصویریں اپنے اصل چیزوں سے بہت مختلف ہوتی ہیں، بلا شک و شبہ جو خیالات چیزوں کو پیش کرتے ہیں وہ شمار اور مقدار میں کچھ زیادہ اپنا وجود رکھتے ہیں۔وہ چیزوں سے زیادہ حقیقت کے عکاس ہوتے ہیں۔ اور اب کچھ ایسے خیالات کے بارے میں بحث کرتے ہیں جو چیزوں کی مقدار کو نہیں بلکہ چیزوں کی اصلیت کو جانچنے کی کوشش کرتے ہیں اور چیزوں کی اصلیت کو پیش کرتے ہیں۔ ایک بار پھر اپنی اصل بحث کی طرف پلٹے ہیں، وہ خیال جو ایک خدائے بزرگ و برتر کے متعلق میرے ذہن میں تشکیل پاتا ہے، جو کہ اندرونی ہے، لامحدود ہے ، کبھی نہ بدلنے والا ہے ۔ جو کہ ہر چیز کا خالق ہے اور یہ خیال دوسرے ایسے تمام خیالات سے منفرد ہے جو محدود چیزوں کے بارے میں میرے ذہن میں ہیں۔ اب یہ بات واضح اور یقینی ہے کہ فطری وجدان کی وجہ سے ہر چیز میں اس قدر حقیقت ضرور ہونی چاہیے جتنا وہ اثر انداز ہوتی ہے۔ یہ چیزیں اثر انداز ہونے کی صلاحیت کہاں سے حاصل کرتی ہیں اور یہ حقائق کہاں سے پاتی ہیں اور یہ تمام وجوہات کس طرح سے اثرات کو حقیقت عطا کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ تمام وجوہات پہلے سے خود اپنے اندر حقیقت کا پہلو رکھتی ہیں۔ دو چیزیں اس زمن میں ہم بیان کر سکتے ہیں۔ کہ چیزیں کسی نہ کسی دوسری چیز سے وجود پاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اب کون سی چیز زیادہ مکمل ہے۔ پہلے سے موجود چیز یا دوسری چیز جو اس کی وجہ سے وجود میں آئیں اور یہ بات حقیقی اور بنیادی سچائی کے لیے ضروری ہے جیسا کہ فلاسفر کہتے ہیں، بلکہ یہ خیالات کی سچائی کے لیے بھی ضروری ہے۔ یہ وہی حقیقت ہے جس کو صرف ایک خیال پیش کر سکتا ہے، مثال کے طور پر ایک پتھر صرف اسی صورت میں موجود ہو سکتا ہے جب کسی نے اس کو بنایا ہو۔
اسی طرح سے یہ کلیہ ہم تمام چیزوں پر لاگو کر سکتے ہیں کہ چیزیں صرف اسی صورت میں موجود ہو سکتی ہیں جب کسی نے اُن کو بنایا ہو۔ چنانچہ مثال کے طور پر ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کوئی چیز صرف اسی صورت میں گرم ہو سکتی ہے کہ جب وہ اپنے اندر حرارت رکھتی ہو۔ یا وہ بیرونی حرارت کی وجہ سے حرارت کو جذب کرے اور گرم ہو جائے ۔ یہ اکملیت کی ایک بہترین مثال ہے کہ وہ خود آگ نہیں ہیں لیکن بیرونی آگ کی حرارت کو جذب کر کے اپنے اندر ایک تبدیلی پیدا کرتی ہیں۔ چنانچہ مثال کے طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدا خود گرم نہیں ہے لیکن وہ کسی چیز کو گرم کر سکتا ہے۔ کیونکہ حرارت اس کے قبضہ اخیتار میں ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ حرارت اور پتھر کا نظریہ میرے اندر میرے اپنے خیالات کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ اور یہ خیالات آگ اور پتھر کی فطرت سے مطابقت رکھتے تھے اور ان پر مزید بحث کی جا سکتی ہے ۔ اگرچہ ان وجوہات نے میرے ذہن میں کوئی ایسا بنیادی اور حقیقی سچائی کا فرق پیدا نہیں کیا لیکن پھر بھی ان کی حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کسی بھی خیال کو کسی بھی بنیادی سچائی یا حقیقت کی ضرورت نہیں ہوتی ماسواء یہ کہ میں نے اپنے خیالات سے اخذ کیا ہے اور یہ چیزوں کی مقدار کے بارے میں ہے یا ان کی اصل ماہیت کے بارے میں۔ لیکن ایک ایسا خیال جو کہ حقیقت کا مظہر ہو، وہ کم از کم کسی ایسے اثر کی وجہ سے اپنے اندر حقائق ضرور پوشیدہ رکھتا ہو گا۔ جس قدر وہ خیال اپنے اندر حقائق کو پوشیدہ رکھتا ہے اور یہ بھی کچھ کم حقیقی نہیں ہے۔
اگر ہم فرض کرتے ہیں کہ ایک خیال اپنے اندر کچھ ایسی سچائی رکھتا ہے جو اس کی وجوہات میں موجو د نہیں ہیں، تب یہ اس کے اندر کسی ایسی چیز کی وجہ سے موجود ہے جو لا چیز ہے۔ اگرچہ حقیقت کی وہ قسم جو کسی چیز کی حقیقت کو بیان کرتی ہے، ذہن میں ایک خیال کی صورت میں اگرچہ یہ مکمل نہیں ہو سکتی، لیکن پھر بھی ہم اس کو لا چیز نہیں کہ سکتے اور نہ ہی یہ کسی لا چیز سے وجود میں آتی ہے۔ یہ سوچا جا سکتا ہے کہ جس حقیقت کا ذکر میں اپنے خیالات کے زمن میں کر رہا ہوں یہ خیالات کی تقریباً مظہر ہو سکتی ہے۔ یہ کسی حد تک اپنے اندر سچائی کو اپنے اندر چھپائے ہوئے ہے اگرچہ مکمل طور نہیں۔ قصہ مختصر وجہ خود اپنے آپ میں ایک خیال ہے کیونکہ صرف خیالات ہی حقیقت کو پیش کر سکتے ہیں لیکن غلطی کا امکان بہر طور موجود ہے۔ اگرچہ ایک خیال کا ماخذ دوسرا خیال ہو سکتا ہے۔
یہ بات بھی درست ہے کہ ایسے خیالات کہ لامحدود واپسی کا کوئی امکان نہیں ہے، درحقیقت ہر کسی کو اسی خیال پر واپس آنا پڑتا ہے جہاں پر وہ اس وجہ کو تلاش کر سکے جہاں پر وجہ بغیر خیال کے متمکن ہو ۔ اور یہی اصلی اور پہلی وجہ ہو گی اور دوسری تمام وجوہات اسی پہلی وجہ کی تصویریں ہیں، اور یہی پہلی وجہ اپنے اندر ازلی اور ابدی سچائی کو سموئے ہوئے ہے اور اس کے اندر اکملیت اپنے اعلی اور ارفع درجے پر موجود ہے اور خیالات اسی سچائی اوراکملیت کا عکس پیش کرتے ہیں۔ پس فطری روشنی جسے ہم وجدانی رہنمائی بھی کہہ سکتے ہیں، میرے اوپر یہ بات واضع کرتی ہے کہ خیالات تصویروں اور عکس کی طرح ہیں، جو اصل چیزوں کو پیش کرتے ہیں۔ یہ اپنے اندر ان چیزوں کی کچھ نہ کچھ سچائی سموئے ہوئے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ خیالات اور عکس ان چیزوں کے اپنے اندر موجود سچائی سے بڑھ کر کسی سچائی کو مکمل طور پر پیش نہیں کر سکتے۔ ایک طویل عرصے تک میں نے احتیاط سے تجزیہ کیا کہ یہ تمام خیالات اپنے اندر جو سچائی رکھتے ہیں، میں اُن کے سچ اور حقیقت کو اچھی طرح پہچان لیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ، کیا یہ اپنے اندر کچھ نتائج بھی رکھتے ہیں۔ اور کیا میں کسی حتمی نتیجے پر پہنچ سکتا ہوں۔ کوئی خیال جو کہ میرا ہے اس کے اندر حقیقت اس قدر موجود ہوتی ہے کہ مجھے یقین ہے کہ اس قدر حقیقت مجھے اندر موجو د نہیں ہے اور اگر میں مزید واضع طور پر کہوں تو یہ حقیقت کہ وہ اعلی ترین شکل ہے کہ کوئی بھی خیال میری اپنی وجہ سے وجود میں نہیں آتا ۔ تب چونکہ ہر بات کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے، تب ہم غور کریں گے کہ اس خیال کہ وجہ کیا ہے جو میرے اندر موجود ہے۔ میں دنیا میں اکیلا نہیں ہوں، یہاں کچھ دوسری چیزیں بھی موجود ہیں جن کی وجہ سے وہ خیال میرے ذہن میں تشکیل پایا اور اگر ایسا کوئی خیال میرے ذہن میں موجود نہیں ہے تب میرے پاس ایسا دعویٰ کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ کچھ چیزیں مجھ سے باہر بھی اپنا وجود رکھتی ہیں۔ چنانچہ اسی لیے ایک بہت احتیاط سے اور وسیع پیمانے پر کی گئی تحقیق سے ہمیں صرف یہ پتا چلتا ہے کہ میرے پاس ابھی تک صرف ایک بات ہے جو میں کہہ سکتا ہوں۔
اپنے خیالات کے درمیان اس چیز سے الگ جو مجھے یا میرے اندر کو پیش کرتی ہے اور جس کو اس زمن میں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ۔ یہ صرف خیالات ہیں، جو مختلف انداز میں خدا کو پیش کرتے ہیں، غیر مری اجسام کو ، فرشتوں کو ، جانوروں کو اور اسی طرح آخر میں مجھے بھی۔ جہاں تک دوسرے انسانوں، جانوروں ، اور فرشتوں کے متعلق میرے خیالات کا تعلق ہے ، میں آسانی سے سجھ سکتا ہوں کہ ان کو میرے اپنے خیالات کی وجہ سے خدا کے وجود سے الگ رکھ سکتا ہوں۔ حتیٰ کے اگر دنیا میں میرے علاوہ کوئی بھی جسم، کوئی بھی جانور، کوئی بھی فرشتہ موجود نہ ہو۔ جہاں تک اجسام کے متعلق میرا خیال ہے جیسا کہ میں دیکھ سکتا ہوں کہ ان کے اندر کوئی ایسی چیز موجود نہیں ہے جو بہت عظیم اور شاندار ہو مثال کے طور پر اگر میں اُن کا تفصیل سے تجزیہ کروں ایک ایک کر کے۔ جیسا کہ میں نے گزشتہ روز موم کے ٹکڑے کا کیا تھا۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ مندرجہ زیل نتائج میں نے تقریباً ہر ایک کے اندر پائے۔
حجم ، یا لمبائی میں اضافہ ، گہرائی اور انچائی وغیرہ،
شکل ، جو کہ اس جسم کے بیرونی حدوں کو ظاہر کرتی ہے۔
نشست جو کہ اس شکل کی مختلف اجزاء کے درمیان تعلق اور ان کی شکل کو ظاہر کرتی ہے۔
حرکت، یا جگہ میں تبدیلی ۔
******