صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


توبۃ النصوح

ڈپٹی نذیر احمد

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

اقتباس

کچہری کا خیال نصوح کو حوالات کی طرف لے گیا، تو دیکھا ہر شخص ایک علیحدہ جگہ میں نظر بند ہے۔   جیسا مجرم ہے اس  کے مناسب حالت اس کو حوالات میں سختی یا سہولت  کے ساتھ رکھا گیا ہے۔   حوالات  کے برابر جیل خانہ ہے، مگر بہت ہی بُرا ٹھکانا ہے۔   محنت کڑی، مشقت سخت، جو اس میں گرفتار ہیں، سولی  کے متمنی اور پھانسی  کے خواستگار ہیں۔   نصوح یہ مقامِ ہولناک دیکھتے ہی الٹے پاؤں پھرا۔  باہر آیا تو پھر حوالاتیوں اور زیر تجویزوں میں تھا۔  ان لوگوں میں ہزار ہا آدمی تو اجنبی تھے لیکن جا بجا شہر اور محلے  کے آدمی بھی نظر آتے تھے، مگر وہ جو مر چکے تھے۔   نصوح کو یہی سب سامان دیکھ  کر اسی خواب کی حالت میں ایک حیرت تھی کہ الٰہی یہ کون سا شہر ہے؟ کس کی کچہری ہے؟ یہ اتنے مجرم کہاں سے پکڑے ہوئے آئے ہیں؟ اور یہ میرے ہم وطنوں نے کیا جرم کیا کہ ماخوذ ہیں؟ اور یہ کیسے مرے تھے کہ میں ان کو یہاں جواب دہی میں دیکھتا ہوں؟ اسی حیرت میں لوگوں کو دیکھتا بھالتا چلا جاتا تھا کہ دور سے اسکو اپنے والد بزرگوار انہی حوالاتیوں میں بیٹھے ہوئے نظر آئے۔   پہلے تو سمجھا کہ نظر غلطی  کرتی ہے۔   مگر غور کیا تو پہچانا کہ نہیں، واقع میں وہی ہیں۔   دوڑ  کر قدموں پر گر پڑا اور کہنے لگا کہ حضرت ہم آپ کی مفارقت میں تباہ ہیں۔   آپ یہاں کہاں؟

باپ: “میں اپنے گناہوں کی جواب دہی میں ماخوذ ہوں۔   یہ مقام جو تم دیکھتے ہو دارالجزا ہے۔   خداوند جلّ و علیٰ شانہ اس محکمے کا حاکم ہے۔  “

بیٹا: “ یا حضرت آپ بڑے متقی، پرہیزگار، خدا پرست، نیکو کار تھے۔   آپ پر، اور گناہوں کا الزام؟“

باپ: “گناہ بھی ایک دو نہیں، سینکڑوں ہزاروں۔   دیکھو میرا نامہ اعمال کیسی رسوائی اور فضیحت سے بھرا ہوا ہے اور میں ‌اس کو دیکھ دیکھ  کر سخت پریشان ہوں کہ کیا جواب دوں گا اور کون سی اپنی برات کی پیش  کروں گا۔ “

یہ وہ کاغذ تھا جو نصوح نے ہر شخص  کے ہاتھ میں دیکھا تھا اور اس کو دنیا  کے خیالات  کے مطابق فردِ قراردادِ جرم سمجھا تھا۔  باپ کا نامہ اعمال دیکھ  کر تو تھرّا اُٹھا۔  شرک اور کفر اور نافرمانی، نا شکری اور بغاوت اور بے ایمانی، کبر و نخوت، دروغ و غیبت، طمع و حسد، مردم آزادی، نفاق دریا، حسبِ دنیا، کوئی الزام نہ تھا کہ اس میں نہ ہو۔  چوں کہ نصوح  کے دماغ میں خیالاتِ دینوی گونج رہے تھے، لگا باپ  کے نامہ اعمال میں تعزیرات ہند  کے، قرآن کی صور توں اور آیتوں کا حوالہ تھا۔  متعجب ہو  کر باپ سے پوچھا کہ حضرت پھر کیا آپ ان تمام جرموں  کے مرتکب ہوئے ہیں؟

باپ: “سب کا۔ “

بیٹا: “کیا آپ حضور حاکم اقرار  کر چکے ہیں؟“

باپ: “ انکار کی گنجائش ہی نہیں۔   میری مخالفت میں گواہی اتنی وافر ہے کہ اگر میں انکار بھی  کروں تو پذیرا نہیں ہو سکتا۔ “

بیٹا:‌ اول تو دو شخص  کرام کاتبین اس بلا  کے ہیں کہ میرا کوئی فعل ان سے مخفی نہیں۔   باتیں کہتے ہیں پتے کی اور کہتے کیا ہیں، میرا روزنامچہ عمری لکھتے گئے ہیں۔   اب جو میں اس کو دیکھتا ہوں، حرف بہ حرف صحیح اور درست پاتا ہوں۔   دوسرے، میرے اعضا: ہاتھ پاؤں، آنکھ، کان، کوئی میرے کہنے کا نہیں۔   سب  کے سب مجھ سے منحرف، سب  کے سب مجھ سے برگشتہ، میری مخالفت پر آمادہ، میری تذلیل پر کمر بستہ ہو رہے ہیں۔  “

بیٹا:‌ آخر آپ کچھ اس کی وجہ بھی سمجھتے ہیں؟

باپ: میں ان کو غلطی سے اعوان و انصار، بھیدی اور راز دار سمجھتا تھا، مگر واقع میں ‌یہ سب جاسوسِ ایزدی تھے۔   انہوں نے وہ وہ سلوک میرے ساتھ کیے کہ تسمہ لگا نہیں رکھا۔

بیٹا: پھر آپ کا کیا حال ہے۔ 

باپ: جب سے دنیا کو چھوڑا، قبر کی حوالات میں ہوں۔   تنہائی سے جی گھبراتا ہے۔   انجام کار معلوم نہیں۔   شبانہ روز اسی اندیشے میں پڑا گھلتا ہوں۔   حوالات میں مجھ کو اس قدر ایذا ہے کہ بیان نہیں  کر سکتا۔  مگر صبح و شام، ہر روز آتے جاتے جیل خانے  کے پاس ہو کر گزرنا ہوتا ہے۔   دوزخ وہی ہے۔   وہاں کی تکلیفات دیکھ  کر اور بھی ہوش اُڑ جاتے ہیں اور غنیمت معلوم ہوتا ہے کہ اے کاش ہمیشہ  کے واسطے اسی حوالات میں رہنے کا حکم ہو جاتا۔

بیٹا: پھر ہنوز آپ کا مقدمہ پیش نہیں ہوا۔

باپ: خدا نہ  کرے کہ پیش ہو۔  جو دن حوالات میں ‌گزر جاتا بہت غنیمت ہے۔   اول اول جب میں ‌حوالات آیا تو اعمال نامہ مجھ کو حوالے  کر دیا گیا۔  بس اسی کو دیکھا  کرتا ہوں اور انجامِ کار سے ڈرا  کرتا ہوں۔   نجات کی کوئی تدبیر نظر نہیں آتی۔

بیٹا:‌ بھلا کسی طرح ہم لوگ آپ کی اس مصیبت میں ‌کام آ سکتے ہیں؟

باپ: اگر میرے لئے عاجزی اور خلوص  کے ساتھ دعا  کرو تو کیا عجب کہ مفید ہو۔  ابھی میرے ہمسائے میں ایک شخص کی رہائی ہوئی ہے۔   اس پر بھی بہت سے الزام تھے۔   مگر جہاں ‌اللہ تعالیٰ میں کامل انصاف ہے، رحم بھی پر لے ہی سرے کا ہے۔

اس شخص کے پس ماندوں نے اس کے واسطے بہت زار نالی کی، تو پرسوں یا اترسوں اس کو بلا کر ارشاد فرمایا کہ تیرے افعال جیسے تھے، وہ اب تجھ پر مخفی نہیں رہے۔ مگر ہمارے کئی بندے تیری معافی کے واسطے ہمارے حضور گڑگڑاتے ہیں اور وہ تیرے ہی زن و فرزند ہیں۔ ہم کو تیری یہی ایک بات بھلی معلوم ہوتی ہے کہ تو نے اپنی خاندان میں نیکی اور دین داری کا بیج بویا۔ جا، ہم نے تیری خطا معاف کی۔ بیٹا! سچ کہنا کہ تم لوگوں نے بھی کبھی میرے حق میں دعائے خیر کی ہے؟

***


ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول