صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


تصویر خانہ

ممتاز رفیق

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                             ٹیکسٹ فائل

        بچہ جگت باز ... عبید اللہ علیم

    ہمارا بچّہ جگت باز اب ایک ایسے پرندے کی طرح ہے جو اپنی بساط سے اونچی اڑان کے شوق میں  رہی سہی قوتِ پرواز بھی کھو بیٹھا ہے اور اب کسی چھوٹی سی پہاڑی پر ڈیرہ جمائے، بلند آواز میں  اپنے معصوم ہم جنسوں  پر کامیاب پرواز کا رعب گانٹھ رہا ہے۔ یہ عبید اللہ علیم کی زندگی کے اس دور کا تذکرہ ہے جب اُس کی نام آوری کا سورج تقریباً ڈوب چکا تھا اور وہ ’’چاند چہرا ستارہ آنکھیں‘‘ کے لیے دیکھے گئے خواب فراموش کر کے ’’سرائے کا دیا‘‘ کی بجھتی ہوئی لَو پر نظریں  جمائے، اپنے اندر کے تلاطم پر بند باندھنے کے جتن کر رہا تھا۔ اُن دنوں  عبید اللہ علیم کو دیکھ کے مجھے بے طرح اُس کمہار کی یاد آتی، جس نے اپنی مہارت کے زعم میں  چاک اٹھا پھینکا تھا اور پھر اپنی اس بھول کی تلافی کے لیے اُسے اپنی انگلیاں  قلم کرنی پڑی تھیں۔ علیم بھی اسی سے ملتی جلتی بپتا سے دوچار ہوا اور ہم سب کو ایک بھرپور شخصیت کے بکھرنے کے المناک تجربے سے گزرنا پڑا۔

    ہوا کچھ یوں  کہ ابھی علیم کے کام اور نام کا پھریرا لہرایا ہی تھا کہ سلیم احمد ایک مضمون میں  اِس بانکے شاعر کے امکانات پر کلام کر بیٹھے اور خوش گمانی کے آزار نے ہمارے ممدوح کو جیسے اپنی لپیٹ میں  لے لیا۔ ہم نے دیکھا کہ ہمارا بچّہ جگت باز اپنے اوسان کھو بیٹھا ہے۔ ہر گذرتے لمحے کے ساتھ بگاڑ تھا کہ بڑھتا جاتا تھا، آواز تھی کہ بلند سے بلند تر ہوتی جاتی تھی، چال تھی کہ جیسے کوئی رقاصہ ابھی ابھی اپنی بے حد کامیاب پرفارمنس کے بعد اسٹیج سے اتری ہو یا جیسے کوئی اپنے ظرف سے زیادہ پی گیا ہو اور اب اُس سے اپنے قدم سنبھالے نہ سنبھل رہے ہوں  اور مسکراہٹ تھی جیسے کوئی دانا، کم فہموں  میں  آ بیٹھا ہو اور اب اُن کی ناسمجھی سہاررہا ہو اور آنکھیں  سُو اُن کا کیا کہنا... اپنے اردگرد بکھرے ’’بونوں‘‘ کے لیے اُن میں  رعونت، فخر اور غرور کے رنگ جیسے آپس میں  گھلے ہوئے ہوں۔ خود پسندی آدمی کو آئینے کے سچ سے محروم کر دیتی ہے اور وہ آخری سانس تک اپنے بگڑے ہوئے خد و خال سے بھلا رہتا ہے۔ عبید اللہ علیم کے وجود سے نشر ہوتے ہوئے ناگوار سگنلز، علیم کے آس پاس کی فضا کو مسموم کر رہے تھے۔ علیم ایک عالمِ بدمستی میں  اپنے اردگرد کی ہر مددگار اور خیر خواہ آواز کو بری طرح نظر انداز کر رہا تھا،  آہستہ آہستہ ہر طرف اُس کے لیے ایک عام ناپسندیدگی جڑیں  پکڑ رہی تھی۔

    اُس کی شریکِ زندگی سانولی سلونی انوپا (صفیہ حیدر) جسے اُس نے بڑی چاہ سے اپنایا تھا۔ اُس کے غیر متوازن رویئے سے اوّل بد دل اور پھر متنفر ہو چکی تھی اور پھر ہم نے سنا یہ تعلق کچّا گھروندا ثابت ہوا۔ حیران کن امر یہ تھا کہ علیم کے دوست اب بھی اُس کے حوالے سے بے حد خوش امید تھے اور اُن میں  وہ کسی محبوب کی طرح مقبول تھا۔ وہ سخن ساز نصیر ترابی ہوں  یا شاعر دلنواز اطہر نفیس، جون ایلیا ہوں  یا جمال احسانی، فراست رضوی ہوں  یا شاہد حمید، شاعر زرخیز ثروت حسین ہوں  یا فسانہ طراز صغیر ملال، سب ہی علیم کی جگت بازی، خوش مزاجی اور مصرعے کی کاٹ کے معترف تھے۔اِس میں  بھی کوئی شک نہیں  کہ علیم دوستوں  کے لیے ریشم اور دشمنوں  کے لیے تیر، تلوار کی طرح تھا۔

    یہ عبید اللہ علیم کی ’’بلند قامتی‘‘ کا درمیانی دور تھا۔ جب مجھے اُس سے شرف ملاقات حاصل ہوا۔ میں  ایک بے روزگار، گمنام سا شاعر اور خاکہ نگار، جس کا اعتماد بوجوہ متزلزل تھا اور علیم ٹیلی وژن کا سینئر پروڈیوسر اور معروف شاعر،  میں  نے اُس کے مزاج کے تلون اور تیزی کے حوالے سے بھی بہت کچھ سن رکھا تھا۔ مجھے اعتراف ہے کہ اِس کے بڑے سے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے میرے قدم لڑکھڑا رہے تھے۔ اب مجھے یاد نہیں  کہ اس ملاقات کی بنیاد کس نے ڈالی تھی اور میں  کس کا دامن تھام کر اس جادو نگری تک چلا آیا تھا؟ اس کمرے میں  شاید اور لوگ بھی تھے لیکن مجھے تو بس ایک شخص ہی یاد ہے، جو لگتا تھا پورے منظر پر چھایا ہوا تھا ... یہ تھا عبید اللہ علیم ... لمبا چوڑا قد، زردی مائل اجلی رنگت، لانبے لانبے سیاہ بال اور چوڑا سا روشن ما تھا، جس سے اُس کی ظفر مندی عیاں  تھی اور بڑی بڑی چکرمکر کرتیں  الق بلق آنکھیں،  جن سے ذہانت اور محبت چھلکی پڑتی تھی اور داہنے گال کی ابھری ہوئی ہڈی کے قریب ایک بڑا سا سیاہ مسّا اور بھرے بھرے ہونٹ اور دانت زردی مائل سفید، جن کی دیدہ زیبی کو کثرت سگریٹ نوشی نے گہنا دیا تھا اور مضبوط ٹھوڑی جو اُس میں  ٹھاٹھے مارتے اعتماد پر دلیل تھی اور تیز تلوار سے زیادہ گہرا گھاؤ لگانے پر قادر ایک بے لگام زبان، کہ جو ایک بار اُس کی زد میں  آیا تو پھر تمام عمر اپنے زخم چاٹتا پھرا اور لمبی گردن اور چوڑے کاندھے اور داڑھی اور بالوں  کی طوالت کو میں  نے کسی کم زور عقیدے کی طرح گھٹتا بڑھتا نظارہ کیا اور کسی گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا مزاج، اور شاعری علیم کا عشق اور جگت بازی وجہِ افتخار ٹھہری ... وہ ناپسندیدہ افراد کو جملوں  کی مار، مار کے عجب طرح کا حظ اٹھایا کرتا تھا اور پھر کتنے ہی دن تک اُس کا کمرا ان جملوں  کی باز گشت سے گونجتا رہتا۔

    عبید اللہ علیم، جگت بازی کے بہاؤ میں  بہہ کر اکثر وہاں  تک جا پہنچتا جہاں  لطیف اور کثیف کا فرق مٹ جایا کرتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ بے دھڑک جملے چسپاں  کرنے کے شوق نے ہمارے جگت باز کو خاصا گھاٹے میں  رکھا۔ خواجہ مرحوم کے حوالے سے کہے اُس کے ایک جملے نے بہت شہرت پائی۔ مجھے تعجب ہے کہ اِس واقعے کے تین دہائیاں  گزر جانے کے باوجود وہ جملہ آج تک لوگوں  کے دلوں  میں  ترازو ہے۔ حالاں کہ اب نہ جملہ کسنے والا رہا اور نا ہی وہ جس پریہ جملہ کسا گیا۔ اور مجھے باور آیا کے کبھی کبھی آپ کا کہا ہوا لفظ آپ کے سائے میں  گھل مل جاتا ہے، بلکہ یہاں  تک کہ کبھی کبھی وہ آپ کی قبر کا کتبہ تک بن جایا کرتا ہے۔ میں  سمجھتا ہوں  کہ علیم کے اچانک پس منظر میں  چلے جانے اور اُس کی شہرت غارت کر دینے میں  اُس کے اس جملے نے ایک نہایت اہم کردار ادا کیا۔ دائرہ ادب میں  شامل ہمارے وہ بزرگ جو صاحبِ حیثیت اور شہرت کے مالک ہیں،  اُنھوں  نے ایک مضبوط لابی تشکیل دے کر اپنی قوّت کو دوچند کر رکھا ہے اور کیوں  کہ یہ لوگ ادب میں  سیاہ سفید کے مالک بنے ہوئے ہیں  اِس لیے مارے تنک مزاجی کے وہ ناک پہ مکھی نہیں  بیٹھنے دیتے، جب کبھی اِن میں  سے کسی ایک پر حملہ کرنے کی جسارت کی جاتی ہے تو ان سبھی کو اپنا اقتدار خطرے میں  پڑا محسوس ہونے لگتا ہے اور یہ سب یکجا ہوکے ’’باغی‘‘ کے خلاف کمر کس لیتے ہیں۔ عبید اللہ علیم جیسے لوگ حملہ کرنے میں  تو شدّت دکھا سکتے ہیں  مگر اپنی بے نیازی اور بے پرواہی کے سبب اپنے دفاع سے غافل ہو جاتے ہیں  اور نتیجہ؟ عبید اللہ علیم کی مٹّی میں  ملتی شہرت کی صورت میں  ظاہر ہوتا ہے۔ یہ گروہ کس قدر کینہ پرور ہے اِس کا اندازہ مجھے اُس دن ہوا جب ایک تقریب میں  اسی قبیل کے ایک بزرگ اور معروف بزرگ شاعر اور اردو کے جاں  نثار اور خواجہ مرحوم کے یارِ غار نے راز داری کے انداز میں  مجھ سے فرمایا کہ اگر علیم کی مخالفت میں  کسی نے کچھ کہا ہے تو کیا ہوا، اُس نے کس کی پگڑی نہیں  اچھالی؟ اب غالباً اس تفصیل میں  جانے کی ضرورت نہیں  رہی کہ علیم نے جگت بازی کے ولولے میں  اپنے گرد کتنی دیواریں  کھڑی کیں  ... جی تو تذکرہ ہو رہا تھا علیم سے میری پہلی ملاقات کا ...

    یہاں  گمان تو یہی ہو رہا ہو گا کہ میں  اپنے قصّے لیے بیٹھا ہوں  لیکن یقین جانیے ایسا ہے نہیں  ... میں  یہ بتانا چاہتا ہوں  کہ وہ نادرِ روزگار شخص، غیر اہم اور گمنام دوستوں  سے بھی کس درجے فراخ دلی سے پیش آیا کرتا تھا۔ ہم کئی دوست علیم کے ساتھ کھانا کھانے نکلے تھے، اچانک میں  نے سنا کہ کوئی میری تازہ غزل کا تذکرہ علیم سے کر رہا ہے،  میری وہ غزل سننے کے لیے علیم کا اشتیاق اور للک حیران کن تھی، اور پھر اشعار کی سماعت کے دوران اُس کا تقریباً دیوانگی کے عالم میں  اظہارِ پسندیدگی اور پھر مصرعوں  کو بار بار دہرانا ... یقین کیجیے وہ غزل سنادینے کے بعد گویا مجھ میں  ایک نئی زندگی دوڑ گئی۔ہم کھانا کھا کے علیم کے کمرے میں پلٹے ہی تھے کہ میں  نے دیکھا، علیم فون پر افتخار عارف سے میرا تذکرہ کچھ اس انداز میں  کر رہا ہے جیسے اُس نے کوئی بڑا شاعر دریافت کر لیا ہو۔ علیم عجیب باغ و بہار شخصیت کا مالک تھا، کھانا کھانے کے لیے ہوٹل جاتے ہوئے لوگوں  اور ارد گرد کی چیزوں  پر اُس کے دل چسپ تبصرے اور آموں  کا ایک نسوانی حصہ سے مماثلت کا حوالہ ...یہ دن میری زندگی کا دل چسپ ترین دن تھا۔۔۔۔ اقتباس

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں  

   ورڈ فائل                                             ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں  مشکل؟؟؟

یہاں  تشریف لائیں ۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں  میں  استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں  ہے۔

صفحہ اول