صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


تصورِ شیخ

عزیز احمد

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

اقتباس

جاڑوں کے دن تھے۔ میاں واجد نے کرتے کے دامن سے اپنی سڑ سڑ بہتی ہوئی ناک پونچھی۔صدری کا بیچ کا بٹن ٹوٹ گیا تھا۔ ایک ہاتھ اپنی صدری کے اندر ڈال کے جسم کھجانے لگے۔ دوسرے ہاتھ سے خشخشی بالوں سے بھرا ہوا، کالا کیسرو سر کھجایا۔ میاں واجد کی عمر اب کوئی چودہ سال کی ہو گی، مگر ان کے کالے چیچک زدہ چہرے پر جوانی کی بہار صرف کالے بدنما رونگٹوں کی شکل میں نمودار ہوسکی تھی۔


آمنہ باجی ان کی بڑی پھوپھی زاد بہن کی آواز باورچی خانے سے آئی۔ ’’واجد ذرا منہ ہاتھ تو دھو۔ آدمی بنو۔ تمہارے بھائی درگاہ شریف سے آتے ہوں گے.... ارے سکینہ او سکینہ چل بیٹا جلدی سے دسترخوان بچھا۔‘‘


میاں واجد نے پھر آنکھیں ملیں .... صبح اٹھنے اور حوائج ضروری سے فارغ ہونے کے بعد سے اب تک وہ برابر کھجانے اور آنکھیں ملنے میں مصروف تھے۔ پھر باورچی خانے جا کے انہوں نے آمنہ باجی سے گرم پانی مانگا۔ اس نے اپنے ملگجے بادامی دوپٹے سے کیتلی پکڑ کے تھوڑا سا پانی ان کے لوٹے میں ڈال دیا۔ یہ باورچی خانے کے آگے ہی موری کے کنارے پیڑھی بچھا کے دانت مانجھنے لگے اور کوئلے کی سیاہی سے تھوڑی ہی دیر میں ان کے دانتوں کی رنگت بھی ان کے چہرے کی سی ہو گئی۔


یہ موری گھر کے اندرونی آنگن میں بڑی خصوصیت رکھتی تھی۔ باورچی خانے، غسل خانے، پاخانے سب کی غلاظت اسی سے ہوتی ہوئی بہتی تھی اور اس کا رنگ بدلتا جاتا تھا۔ گرمیو ں میں تو خیر اس کی بدبو نا قابل برداشت ہوتی لیکن جاڑوں میں بھی سوائے اس گھرکے رہنے والوں ، مکھیوں اور کلبلاتے ہوئے کیڑوں کے، کوئی اس موری کو نظر بھر کے دیکھ نہیں سکتا تھا۔ غزل کے پہلے اور دوسرے مصرعوں کی درمیانی خالی جگہ کی طرح یہ آنگن کے بیچوں بیچ بہتی تھی اور گرمیوں میں جب پلنگ باہر ڈالے جاتے تو کبھی یہ کسی کے سرہانے بہتی کبھی کسی کے پاس پائنتانے۔ اس گھر کے رہنے والوں کو اس سے مفر نہیں تھا۔ جس طرح شاعر کو قافیے اور ردیف سے نجات نہیں۔


گھر کی ساخت وہی تھی جو وسط یورپی کے دیہاتوں میں عام ہے۔ سڑک کے کنارے دو کمرے تھے۔ جن پر چونا پڑا تھا۔ دونوں صاف تھے۔ دونوں میں تخت بچھے تھے اور تختوں پر گاؤ تکیہ اور چاندنی کا فرش تھا۔ ان میں سے ایک دیوان خانہ تھا، دوسرا مہمان خانہ، دونوں میں ایک بڑا سا دروازہ تھا اور اندر آنے کی گلیاری۔ ان کمروں کے بعد مردانہ صحن آتا تھا، جس میں ایک چبوترہ تھا۔ جس پر گرمیوں میں گرم گرم خاک رہتی اور برسات میں لانبی لانبی گھانس اور طرح طرح کے کیڑے اور کبھی کبھی ایک آدھ گرگٹ۔ سیدھے ہاتھ پر ایک بڑا سا کمرہ تھا۔ اس کے بعد ایک گلیاری جس پر ٹاٹ کا پرانا پھٹا ہوا پردہ پڑا رہتا۔ اس پردے کے بعد زنانہ آنگن تھا، جس میں یہ مشہور و معروف موری بہتی تھی۔ زنانے صحن میں تین طرف دالان تھے اور دالان کے ساتھ دو دو کوٹھڑیاں اور ایک طرف جدھر ٹاٹ کا پردہ تھا، ادھر باورچی خانہ غسل خانہ وغیرہ۔ اسی گھر میں چودہ سال پہلے میاں واجد نے آنکھیں کھولی تھیں۔  ان کی زچگی ایک ان پڑھ گنوار سی دایہ نے کی تھی۔ کسی نے ان کی آنکھوں میں سلور نائٹ ریٹ نہیں ڈالا۔ ان کی ماں اسی زچگی میں سپئی سیمیا ہو کے ختم ہو گئیں۔  گھر بھر کی عورتوں کا عقیدہ تھا کہ ادھر باہر کے آنگن میں جو سوکھا، مردار سا انار کا درخت ہے۔ یہ اس پر رہنے والی پریوں کی کارستانی تھی۔ واجد کے چچا زاد سید بسم اللہ شاہ، معروف پریوں سے زیادہ مشیئت ایزدی کو اپنی بیوی کی ممانی کی اس بے وقت موت کا ذمہ دار قرار دیتے تھے۔ اس گھر میں یا خدا پر عقیدہ تھا یا پریوں ، بھوتوں اور جناتوں پر۔ ابھی تک کوئی انسان سے واقف نہ ہونے پایا تھا۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول