صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
تصوّرات
ڈاکٹر عتیق اللہ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
متن اور قاری کی کش مکش
مابعدِ
جدیدیت کے شور میں نیو کرٹسزم پر کسی بھی قسم کی گفتگو ہم میں سے بہتوں کو
غیر متعلق معلوم ہوگی۔ یقینا نیوکرٹسزم ایک گھسا پٹا موضوع اور مسئلہ ہے،
وقت بہت آگے نکل چکا ہے۔ پتے کئی بار جھڑ چکے ہیں۔ پھر بھی کبھی کبھی ماضی
قریب کو حال کے محسوس ترین لمحوں کی کسوٹی پر کس کر دیکھنے کو جی چاہتا ہے
کہ اس میں کتنا کچھ بے معنی یا بامعنی ہے۔ کتنا باقی رہ گیا ہے۔ اور کتنا
محض نئے شور میں پرانا یا کھوٹا لگتا ہے۔ ہم نے کتنا فریب دیا اور کتنا
فریب کھایا ہے۔ کبھی کبھی جانتے بوجھتے بھی فریب کھانے میں بڑا مزہ آتا
ہے۔ کسی بھی نئے رجحان کے ساتھ ساتھ چند نئی حیرتیں بھی اپنی جگہ بناتی
چلی جاتی ہیں ا ور حیرت کی اپنی جمالیات ہے ۔ دراصل نئے پن میں چمچماہٹ ہی
کچھ ایسی ہوتی ہے۔ ہم پر نئے کا اثر اس قدر محیط ہوجاتا ہے کہ دھیرے دھیرے
وہ خود ایک نشہ بن جاتا ہے۔ اچھی بھلی سچائیاں منہ چڑاتی ہوئی نظر آنے
لگتی ہیں۔ ایسے حالات میں سچ اورجھوٹ کی پرکھ اتنی آسان نہیں رہ جاتی۔
کل یعنی جدیدیت اور نیو کرٹسزم کے ساتھ بھی یہی صورت تھی، اس سے قبل ترقی پسندی کے آغاز و ارتقاء کے زمانوں میں بھی یہی ہوا۔ اوراب یعنی مابعدِ جدیدیت کے دور میں جب ہم داخل ہورہے ہیں تو بھی اسی قسم کی صورت کا ہمیں سامنا ہے۔
سب سے پہلی صورت تو یہی ہے کہ جونہی ساختیات و پسِ ساختیات کی گفتگو شروع ہوئی ہمارے ناقدین یک لخت بوکھلا گئے، جیسے کوئی بھونچال آگیا ہو۔ جس نظر سے اختر تلہری اور رشید احمد صدیقی وغیرہ نے ترقی پسندی کو دیکھا تھا اور اپنے دعاوی پر اٹل تھے۔ اسی طرح جدیدیت کے آغاز کے ساتھ ہی اس کے خلاف پورا ایک محاذ قائم ہوگیا تھا، بس فرق اتنا ہے کہ ترقی پسندوں کے خلاف زیادہ تر وہ حضرات تھے جو روایت پرست بلکہ قدامت پرست تھے۔ بعدازاں جدیدیت کے دعویداروں نے زیادہ مستحکم استدلال کے ساتھ ان کی جگہ لے لی۔ اسی طرح جدیدیت کے خلاف زیادہ تر ترقی پسند تھے۔ کیوں کہ جدیدیت تک پہنچتے پہنچتے روایت پرستوں کے لیے ترقی پسندی کوئی مسئلہ نہیں رہ گیا تھا۔ اب انہیں اس میں پہلے کی طرح مذموم اورفحش عناصر کم ہی دکھائی دیتے تھے۔ قدریں بہت بدل چکی تھیں مگر جدیدیت کے خلاف ترقی پسند انہی معنوں میں روایتی معلوم پڑتے تھے جن معنی میں اختر تلہری روایتی تھے۔ ترقی پسندی کو بھی مغرب کی دین قرار دیا گیا اور اسی طرح جدیدیت کو بھی مغرب سے درآمد کیا ہوا رجحان یا رجحانات کا مجموعہ کہا گیا۔ اپنے زمانے میں یعنی پچیس تیس برس قبل جو لوگ باغی کہلاتے تھے اور بہ یک وقت کئی سطحوں پر روایت شکنی کے دعوے دار تھے وہی ان نئے رجحانات کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو کم از کم ان معنوں میں تو ہماری توجہ کے مستحق ہیں کہ وہ نئے ہیں اور نئے کی قبولیت میں تھوڑا وقت لگتا ہے۔ فوری طور پر اسے انگیز کرنا اور اس کے صحیح اور غلط عناصر کو سمجھنا یا انہیں اپنی فہم کا حصہ بنا لینا قدرے مشکل کام ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ تنازعات صرف قیادت کے مسئلے کے باعث پیدا ہوتے ہیں۔ جن کے پاس اقتدار ہے، پریس کی سہولتیں ہیں، جو برسوں سے قیادت کے نشے میں بدمست رہے ہیں۔ ان کے ہاتھوں سے عَلَم اب چھنتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ اگر مسئلہ یہی ہے تو اردو ادب کے قارئین کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔
اس وقت میرے مخاطب ادب کے وہ قارئین ہیں جو ادب کو اس لیے پڑھتے ہیں کہ ادب جس طور پر ہمارے وجدان اور ہماری بصیرتوں کی تربیت کرتا ہے اور جس طریقے سے انہیں نئے سرے سے مرتب کرتا ہے۔ دوسرے علوم اس قسم کی صلاحیت سے بڑی حدتک عاری ہوتے ہیں۔ ادب ہمارے خالی لمحوں کو نور سے بھردیتا ہے۔ وہ ہمیں اطمینان بھی بخشتا ہے اور بے چین بھی کرتا ہے۔ کسی ادب پارے کو پڑھنے سے پہلے ہم جیسے تھے شاید پڑھنے کے بعد ہم وہ نہیں رہتے۔ محسوس و غیر محسوس طور پر بہت کچھ بدل چکے ہوتے ہیں اور اسی طرح متن بھی بہت کچھ بدل چکا ہوتا ہے۔
نئی تنقید (نیوکرٹسزم) کی سب سے بڑی عطا میرے نزدیک قرأت بغور یعنی کلوز ریڈنگ کی طرف متوجہ کرنا تھا۔ ان نقادوں نے فن کو قطعی معروضی قرار دیا تھا۔ اسی لیے ان کا اصرار ہئیت سے متعلقہ فنی امور پر زیادہ تھا۔ ان کی نظر میں فن پارہ اس وحدت یا روبہ نمو وحدت کا نام ہے جو باطنی معنی اور خارجی ہئیت سے مل کر قائم ہوتی ہے۔ اس طرح بافت یعنی ٹکسچر اور ساخت یعنی اسٹرکچر کا اشتراک نظم کے معنی کو مکمل کرتا ہے۔ اس اشتراک کو جان کراؤرین سم نے نظم کی وجودیات (انٹولوجی) کانام دیا ہے۔ اور یہی وہ صفت ہے جو شاعرانہ اور غیر شاعرانہ مخاطبے کے درمیان امتیاز قائم کرتی ہے۔ نئی تنقید نے مجموعی ہئیت کے تصور کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کی سعی کی کہ کوئی بھی تخلیق اپنی خودکارانہ خصوصیات کے باوجود ایک تخلیق سے زیادہ ایک فن پارہ ہوتی ہے کیوں کہ شاعری کے علاوہ دیگر غیر شاعرانہ یا غیر جمالیاتی عناصر پر اصرار بہت سے جذباتیمغالطوں کو راہ دے سکتا ہے۔ نظم محض ایک معروض ہے۔ ایلیٹ کے لفظوں میں اساساً شاعری، شاعری کے سوا کچھ نہیں اور یہی تنقید کا پہلا قانون ہے۔
نئی تنقید میں قرأت بہ غورکے معنی کسی بھی متن کے مفصل، دقیق اور نکتہ سنجانہ تجزیہ و تشریح کے ہیں۔ کوئی بھی فن پارہ پیچیدہ باہمی رشتوں اور معنی کی کئی جہتوں سے مرکب ہوتا ہے۔ کثرت معنی کے باعث ہے اس میں ابہام بھی پایا جاتا ہے۔ ادب کی ایک خاص قسم کی زبان ہوتی ہے۔ یہ زبان منطقی مخاطبات اور سائنس کی زبان سے مختلف، پیچیدہ اور تخلیقی ہوتی ہے، نئی تنقید کی ترجیح معانی کی گرہوں کو کھولنے اور لفظوں کے باہمی عمل اور ان کی بدیعیاتی اور علامتی نوعیتوں کو اجاگر کرنے میں زیادہ ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس کا سارا زور ساخت کی نامیاتی وحدت اور معانی کے تفاعل پر ہے۔ تمام اجزاء اپنے آخری شمار میں معانی کی ساخت ہی کی طرف راجع ہوتے ہیں۔ تنقید کا منصب تجزیہ ہے اور نئی تنقید بڑی سختی اور بے دردی کے ساتھ فن پارے کے محض ان اجزائے مشتملات پر اپنی نگاہ مرکوز رکھتی ہے۔ جن سے اس کی ہئیت تکمیل پاتی ہے۔ نظم کی ساخت، تکنیک، اس کے نظام آہنگ، قافیہ بندی اور اس کی اس بافت سے نظم کی مجموعی ہئیت تشکیل پاتی ہے جس کا مدار تلفیظ پر ہوتا ہے اور تلفیظ نام ہے محاورہ بندی، استعارہ، پیکر، وضعی اور تعبیری معنی جیسے اجزا کے باہمی اشتراک کا۔ ایک لحاظ سے رومن باختن کے تصور ادبیت (لٹرری نیس) سے ہئیت کا یہ تصور بہت قریب ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ادبی سائنس کا موضوع ادب نہیں بلکہ ادبیت ہے۔
ادبیت ہی وہ جوہر ہے جو کسی فن پارے کو کسی دوسری عام تحریر سے علیحٰدہ کرتا ہے۔ ادبیت کے اس تصور کو دوسرے ماہرِ ساختیات (روسی ہئیت پسند ) وکٹرشکلووِسکی کے نامانوس کاری کے تصور (ڈی فیمی لیرائزیشن) میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ عام تحریراپنے نفس استدلال سے پہچانی جاتی ہے۔ اس کی بھی اپنی ہئیت ہوتی ہے مگر ایک میکانکی قسم کی ہئیت۔ جب کہ ادبی تخلیق کی ہئیت میں جو میکانکیت ہوتی ہے وہ اپنی نوعیت میں نامیاتی ہوتی ہے۔ انہیں بنیادوں پرایک تخلیق کا انفراد دوسری تخلیق کے انفراد سے مختلف ہوتا ہے۔ وکٹرشکلووسکی کے ostranenie (نامانوس کاری) کے تصور میں بھی تخصیص کے انہی پہلوؤں کو بنیاد بنایا گیا ہے کہ کس طرح ایک عمومی یا عام تحریر کسی دوسری خصوصی ادبی تحریر سے مختلف اور ممتاز ہوجاتی ہے۔ ایک عنصر تو وہ ہے جسے ادبیت کا نام دیا گیا ہے دوسرا عنصر نامانوس کاری سے تعلق رکھتا ہے۔ ادبی تخلیق میں جو تازگی، جدت اور نامانوسیت پائی جاتی ہے وہ اسے مختلف بنانے کی کوشش کا نتیجہ ہوتی ہے اور مختلف بنانے کی کوشش کے معنی اجنبیا نے کے عمل کے ہیں۔ تخلیق میں اجنبیا نے کا عنصر قاری کی عادات میں رچی بسی توقعات اورادراک کی یکساں روی پر ضرب لگاتا ہے اور دوسرے معنی میں متن کی فنی بافت کی طرف ہماری توجہ کو منعطف بھی کرتا ہے۔ متن کار نے کس حقیقت کو پیش کیا ہے یا وہ پیش کرنا چاہتا تھا؟ یا آخری شمار میں اس کی کیا صورت ہوگئی؟ جیسے سوالات کی اتنی اہمیت نہیں رہ جاتی۔ اہمیت صرف اس تحریر کی ہوتی ہے جو ادبی تخلیق کے طور پر اپنی ایک خاص ہئیت رکھتی اور اپنے فنی خصائص اور ادبی زبان کی وجہ سے تابہ دیر ہمیں اپنی طرف متوجہ رکھتی ہے۔ شکلو وسکی نے حقیقت یا اشیاء کے ضمن میں لکھا ہے کہ فن میں اشیاء کو ان کی معلوم (جانی پہچانی) حیثیت میں نہیں اخذ کیاجاتا (یعنی انہیں من و عن پیش کرنے کا نام فن نہیں ہے) بلکہ جس طرح ہم ان کا ادراک یا انہیں محسوس کرتے ہیں اس تجربے کی اہمیت زیادہ ہے۔ فن میں کسی شۓ کی فنّیت کے تجربے کا ایک طریقہ ہے، اس معنی میں شے کی فنیت کے مقابلے پر شۓ کی اپنی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
اب اگر غور کریں تو نئی تنقید کا ہئیتی تصور میخائل باختن کے ادبیت کے تصور اور شکلو وسکی کے نامانوس کاری کے تصور سے بہت زیادہ مختلف بھی نہیں ہے۔ چیک ماہرِ لسانیات جین مکارووسکی نے اپنے ایک مضمون standard language and poetic language میں جو پیش منظری: foregrounding کا تصور پیش کیا ہے اس میں بھی فنی تدابیر اور لسانی تکنیکوں کی خاص اہمیت ہے جو دوسرے لفظوں میں زبان کا جوہر کہلاتی ہیں۔ فن کا مقصد زبان کے اس جوہر کی طرف ہماری توجہ کو منعطف کرنا ہوتا ہے۔ یہاں مکارووسکی کے یہاں شعری زبان کو پیش منظر میں لانے کے معنی شعری زبان کو زیادہ سے زیادہ نمایاں کرکے پیش کرنے اور ظاہر کرنے کے ہیں۔ زبان کے اس جوہر کو فن میں آزمانے سے فن میں قاری کی شمولیت بہت دیر اور دور تک برقرار رہتی ہے۔ یہاں بھی اہمیت اس بات کی ہے کہ حقیقت کی نمائندگی کس زبان اور کن فنی تدابیر کے ذریعے کی گئی ہے۔
رولاں بارتھ نے ۱۹۶۰ء میں لکھنے والوں کی دو شقیں بتائی تھیں۔ ایک کو وہ ecrivains کہتا ہے اور دوسرے کو ecrivants اول الذکر کے تحت لکھنے والوں کو وہ authors کہتا ہے، کسی مناسب ترجمے کی عدم موجودگی میں ہم موخرٔ الذکر کے لیے مؤلف کا لفظ استعمال کرسکتے ہیں۔ یعنی وہ لکھنے والا جس کی تحریر ادب کے علاوہ کسی بھی دوسرے زمرے میں آسانی سے رکھی جاسکتی ہے۔ وہ حساب کی تفصیلات سے لے کر مقدماتی دستاویزات میں سے کوئی تحریر بھی ہوسکتی ہے۔ اس نوعیت کی تحریر اپنے رسمی مناصب سے پہچانی جاتی ہے یعنی جس میں پیشہ ورانہ قسم کی کارگزاری صاف جھلکتی ہے۔ اول الذکر کے تحت لکھنے والوں کو وہ مصنف:writer کہتا ہے۔ مؤلف اپنے معمول سے پہچانا جاتا ہے تو مصنف اپنے عمل سے۔بارتھ پہلے کو عبوری:transitive کہتا ہے اور دوسرے کو لازم:intransitive ۔عبوری وہ ہے جو اشیاء کے بارے میں لکھتا ہے اور اس حقیقت کو پکڑنے کی سعی کرتا ہے جو تحریر ! تصنیف سے پرے یا بالا ہے نیزجس کے یہاں زبا ن محض ایک ذریعہ کاکردار ادا کرتی ہے جب کہ لازم یعنی مصنف اپنے قاری کی توجہ کو اپنی تصنیف!تحریر کی طرف برقرار رکھتا اور قاری اس کی تحریر کے عمل میں شامل رہتا ہے۔ اس طرح کی تحریر یا ادب اپنا جواز آپ ہوتا ہے۔ کسی پیغام کی ترسیل اس کے قصد کا حصہ نہیں ہوتی۔ بارتھ کی وضع کردہ اصطلاحات lisible اور scriptible یعنی readerly :قاریانہ اورwriterly :مصنّفانہ کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اوّل الذکر مؤلف کی تحریر اپنی نوعیت میں قاریانہ صفات کی حامل ہوتی ہے تو ثانی الذکر مصنف کی تحریرمصنّفانہ نوعیت رکھتی ہے۔ رولاں بارتھ کہتا ہے کہ متن دو طرح کا ہوتا ہے۔ قاریانہ یا مصنّفانہ۔اس کے نزدیک قاریانہ متن جو کہ عام قسم کا متن ہوتا ہے عین قاری کی توقعات پر پورا اترتا ہے۔ وہ ایک ایسی دنیا، اور ایسے واقعات و کردار ہمیں مہیا کرتا ہے جنہیں ہم بہ آسانی پہچان لیتے ہیں، ہمارے لیے اس میں تجسس اور حیرت کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی کیوں کہ قاری پر ہر شئے واضح اور ہر معنی کھلے ہوئے باب کی طرح ہوتا ہے۔ جب کہ مصنّفانہ متن ایک خاص قسم کا متن ہوتا ہے جو معنی سے خالی ہوتا ہے یعنی کسی بھی مطلق معنی کی جس میں گنجائش نہیں ہوتی۔ دوسرے لفظوں میں ہم جسے معنیٔ مسلسل کے غیر متوقع انکشاف اور لفظوں کے نئے فن کارانہ تفاعل کا نام دے سکتے ہیں۔ قاری کو اپنی ذہانت اور وجدان کے زور پر معنی کو کھولنا پڑتا ہے۔ دیکھا جائے تو یہاں بھی بنیادی طور پر زبان کے مختلف ، منفرد اور غیر متوقع استعمال پر اصرار ہے جو قاری کو نئی متن کاری پر اکساتا ہے۔ اس طرح قاری بھی اپنی تخلیقی حسیت کو بروئے کار لاکر مصنف کا درجہ پالیتا ہے۔
نئی تنقید نے قاری کے بجائے سارا زور متن اور اس کے بغور مطالعے پر دیا تھا مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ قاری کی متن کاری بھی قرأت بہ غور کے بغیر کیسے ممکن ہے۔ آپ بات اس طرح کریں یا اُس طرح ، آخری شمار میں متن کی حرکیات پر تان ٹوٹتی ہے۔ متن ہی بودا یا پُھسپُھسا ہے یا لفظوں کے تال میل میں صناعی سے صرفِ نظر کی گئی ہے، یا استعمالاتِ زبان میں نامانوس کاری کا عنصر یا ادبیت کا عنصر مفقود ہے اور فن پارہ اپنی تکمیل میں جمالیاتی وحدت کا تاثر فراہم نہیں کررہا ہے تو ان ساری کمیوں کو قاری تو نہیں پر کر سکتا۔ قاری وہیں خالی جگہوں اور وقفوں کو اپنی ذہانت اور وجدان سے بھرسکتا ہے جہاں فن پارہ اپنی کارکردگی میں خود اس توجہ کا مستحق ہوتا ہے۔ اس معنی میں متن کی قدروقیمت کسی بھی طرح کم نہیں ہوتی۔ جہاں متن فعال ہے وہاں قاری بھی مجہول نہیں رہ سکتا۔ قاری وہیں مجہول ہوگا جہاں متن ہی مجہول ہے ۔ قاری کی شرکت وہاں زیادہ سے زیادہ تخلیقی نوعیت کی ہوگی جہاں متن ایک مناسب معروضی تلازمے کے طور پر قاری کے ذہن کو تابہ دیر حرکت میں رکھتا ہے۔ کوئی بھی متن اگر اپنی کارکردگی میں جوڑ جوڑ سے گٹھا ہوا، جامع اور پرکار متن ہے تو آہستہ آہستہ ایک ایک کرکے اپنی خوبیاں قاری پر منکشف کرتا ہے۔ اس طرح بہت سے تاثرات، بالآخر ایک وسیع الذیل تاثر میں ضم ہوجاتے ہیں۔ جب جب ہم اس قسم کے گھنے اور پیچیدہ متن سے دوچار ہوتے ہیں وہ ہمیں کوئی نہ کوئی نیا تاثر ضرور فراہم کرتا ہے۔ آپ اسے قاری کا متن بھی کہہ سکتے ہیں۔ قاری کی تخلیقی شمولیت اور ایک سے زیادہ قرأتوں ہی میں متن کے ایک سے زیادہ متنوں میں بدلنے کا جواز بھی مضمر ہے۔
آمدم برسرِمطلب، جب کوئی اچھا یا برا متن ہی نہیں ہوگا تو قاری کی اولیت ہی نہیں قاری کا وجود بھی مشتبہ ہوجائے گا۔ اس لیے متن کی موجودگی کا درجہ اول ہے جو بعد ازاں ایک مسلسل سرچشمۂ حیرت بنا رہتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قاری یا ایک سے زیادہ قاری اور مختلف زمانوں کے قاری اسے پہلے سے زیادہ توانگر کرتے چلے جاتے ہیں۔ آج جو غالب ہمارے سامنے ہیں وہ انیسویں صدی کے اواخر کے حالی کے غالب نہیں ہیں بلکہ وہ بیسویں صدی کے اواخر تک پہنچتے پہنچتے کئی غالبوں میں بدل گئے ہیں۔ اسی بنیاد پر وہ ہمارے لیے جس قدر پہلے سے زیادہ مانوس ہیں اسی قدر پیچیدہ بھی ہیں۔ اور یہ پیچیدگی کا عنصر ہی باربار ہمیں قرأت کے لیے اکساتا ہے۔ اس طرح متن کے سراولیت کا سہرا باندھنے کے باوجود قاری کی اہمیت، وقعت یا قیمت کم نہیں ہوجاتی۔ قاری بہر حال قاری ہے، اس کا مرتبہ بھی یقیناً بلند ہے مگر اسے متن پر فوقیت دینے کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم متن کی اپنی وجودیات اور حرکیات ہی سے صَرفِ نظر کر رہے ہیں۔جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ متن اگر آپ اپنے میں توانگر، منضبط، خلاقی سے معمور، اور حرکت آشنا ہے تو ہمار ے تخیل کو بھی مسلسل حرکت میں رکھ سکتا ہے۔ ان صفات سے اگر وہ خالی ہے تو قاری کی تخلیقی حس بھی کند پڑی رہے گی اور وہ کسی نئے اور پہلے سے زیادہ طاقت ور متن کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ برخلاف اس کے ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ جہاں ایک طرف کئی لحاظ سے متن کاجامع ہونا ضروری ہے وہاں قاری کا حساس اور صاحبِ علم ہونا بھی ضروری ہے، وہ جب تک ادب کی روایات سے باخبر نہیں ہوگا یا بین المتونی مطالعے کے تجربے سے نہ گزرا ہوگا، اس وقت تک اس کی ادبی فہم بھی غیر معتبر کہلائے گی۔ اس صورت میں ہر متن کا ایک درجہ ہے اور اسی نسبت سے ہر قاری اپنی نوعیت میں ایک علیٰحدہ ہستی ہے۔ فعال متن ایک مجہول اور کم آگاہ قاری کے نزدیک اتنا بامعنی نہیں ہوگا۔ جتنا کہ ایک آگاہ اور فعال قاری کے لیے۔ اسی کے پہلو بہ پہلو ایک فعال اور آگاہ قاری ایک مجہول متن کو اپنی تمام تر تاویلات کے باوجود فعال نہیں بناسکتا اس طرح ہر متن نہ تو ہر قاری کے لیے ہوتا ہے اور نہ ہر قاری ہر متن کی سوجھ بوجھ رکھتا ہے۔
کل یعنی جدیدیت اور نیو کرٹسزم کے ساتھ بھی یہی صورت تھی، اس سے قبل ترقی پسندی کے آغاز و ارتقاء کے زمانوں میں بھی یہی ہوا۔ اوراب یعنی مابعدِ جدیدیت کے دور میں جب ہم داخل ہورہے ہیں تو بھی اسی قسم کی صورت کا ہمیں سامنا ہے۔
سب سے پہلی صورت تو یہی ہے کہ جونہی ساختیات و پسِ ساختیات کی گفتگو شروع ہوئی ہمارے ناقدین یک لخت بوکھلا گئے، جیسے کوئی بھونچال آگیا ہو۔ جس نظر سے اختر تلہری اور رشید احمد صدیقی وغیرہ نے ترقی پسندی کو دیکھا تھا اور اپنے دعاوی پر اٹل تھے۔ اسی طرح جدیدیت کے آغاز کے ساتھ ہی اس کے خلاف پورا ایک محاذ قائم ہوگیا تھا، بس فرق اتنا ہے کہ ترقی پسندوں کے خلاف زیادہ تر وہ حضرات تھے جو روایت پرست بلکہ قدامت پرست تھے۔ بعدازاں جدیدیت کے دعویداروں نے زیادہ مستحکم استدلال کے ساتھ ان کی جگہ لے لی۔ اسی طرح جدیدیت کے خلاف زیادہ تر ترقی پسند تھے۔ کیوں کہ جدیدیت تک پہنچتے پہنچتے روایت پرستوں کے لیے ترقی پسندی کوئی مسئلہ نہیں رہ گیا تھا۔ اب انہیں اس میں پہلے کی طرح مذموم اورفحش عناصر کم ہی دکھائی دیتے تھے۔ قدریں بہت بدل چکی تھیں مگر جدیدیت کے خلاف ترقی پسند انہی معنوں میں روایتی معلوم پڑتے تھے جن معنی میں اختر تلہری روایتی تھے۔ ترقی پسندی کو بھی مغرب کی دین قرار دیا گیا اور اسی طرح جدیدیت کو بھی مغرب سے درآمد کیا ہوا رجحان یا رجحانات کا مجموعہ کہا گیا۔ اپنے زمانے میں یعنی پچیس تیس برس قبل جو لوگ باغی کہلاتے تھے اور بہ یک وقت کئی سطحوں پر روایت شکنی کے دعوے دار تھے وہی ان نئے رجحانات کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو کم از کم ان معنوں میں تو ہماری توجہ کے مستحق ہیں کہ وہ نئے ہیں اور نئے کی قبولیت میں تھوڑا وقت لگتا ہے۔ فوری طور پر اسے انگیز کرنا اور اس کے صحیح اور غلط عناصر کو سمجھنا یا انہیں اپنی فہم کا حصہ بنا لینا قدرے مشکل کام ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ تنازعات صرف قیادت کے مسئلے کے باعث پیدا ہوتے ہیں۔ جن کے پاس اقتدار ہے، پریس کی سہولتیں ہیں، جو برسوں سے قیادت کے نشے میں بدمست رہے ہیں۔ ان کے ہاتھوں سے عَلَم اب چھنتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ اگر مسئلہ یہی ہے تو اردو ادب کے قارئین کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔
اس وقت میرے مخاطب ادب کے وہ قارئین ہیں جو ادب کو اس لیے پڑھتے ہیں کہ ادب جس طور پر ہمارے وجدان اور ہماری بصیرتوں کی تربیت کرتا ہے اور جس طریقے سے انہیں نئے سرے سے مرتب کرتا ہے۔ دوسرے علوم اس قسم کی صلاحیت سے بڑی حدتک عاری ہوتے ہیں۔ ادب ہمارے خالی لمحوں کو نور سے بھردیتا ہے۔ وہ ہمیں اطمینان بھی بخشتا ہے اور بے چین بھی کرتا ہے۔ کسی ادب پارے کو پڑھنے سے پہلے ہم جیسے تھے شاید پڑھنے کے بعد ہم وہ نہیں رہتے۔ محسوس و غیر محسوس طور پر بہت کچھ بدل چکے ہوتے ہیں اور اسی طرح متن بھی بہت کچھ بدل چکا ہوتا ہے۔
نئی تنقید (نیوکرٹسزم) کی سب سے بڑی عطا میرے نزدیک قرأت بغور یعنی کلوز ریڈنگ کی طرف متوجہ کرنا تھا۔ ان نقادوں نے فن کو قطعی معروضی قرار دیا تھا۔ اسی لیے ان کا اصرار ہئیت سے متعلقہ فنی امور پر زیادہ تھا۔ ان کی نظر میں فن پارہ اس وحدت یا روبہ نمو وحدت کا نام ہے جو باطنی معنی اور خارجی ہئیت سے مل کر قائم ہوتی ہے۔ اس طرح بافت یعنی ٹکسچر اور ساخت یعنی اسٹرکچر کا اشتراک نظم کے معنی کو مکمل کرتا ہے۔ اس اشتراک کو جان کراؤرین سم نے نظم کی وجودیات (انٹولوجی) کانام دیا ہے۔ اور یہی وہ صفت ہے جو شاعرانہ اور غیر شاعرانہ مخاطبے کے درمیان امتیاز قائم کرتی ہے۔ نئی تنقید نے مجموعی ہئیت کے تصور کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کی سعی کی کہ کوئی بھی تخلیق اپنی خودکارانہ خصوصیات کے باوجود ایک تخلیق سے زیادہ ایک فن پارہ ہوتی ہے کیوں کہ شاعری کے علاوہ دیگر غیر شاعرانہ یا غیر جمالیاتی عناصر پر اصرار بہت سے جذباتیمغالطوں کو راہ دے سکتا ہے۔ نظم محض ایک معروض ہے۔ ایلیٹ کے لفظوں میں اساساً شاعری، شاعری کے سوا کچھ نہیں اور یہی تنقید کا پہلا قانون ہے۔
نئی تنقید میں قرأت بہ غورکے معنی کسی بھی متن کے مفصل، دقیق اور نکتہ سنجانہ تجزیہ و تشریح کے ہیں۔ کوئی بھی فن پارہ پیچیدہ باہمی رشتوں اور معنی کی کئی جہتوں سے مرکب ہوتا ہے۔ کثرت معنی کے باعث ہے اس میں ابہام بھی پایا جاتا ہے۔ ادب کی ایک خاص قسم کی زبان ہوتی ہے۔ یہ زبان منطقی مخاطبات اور سائنس کی زبان سے مختلف، پیچیدہ اور تخلیقی ہوتی ہے، نئی تنقید کی ترجیح معانی کی گرہوں کو کھولنے اور لفظوں کے باہمی عمل اور ان کی بدیعیاتی اور علامتی نوعیتوں کو اجاگر کرنے میں زیادہ ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس کا سارا زور ساخت کی نامیاتی وحدت اور معانی کے تفاعل پر ہے۔ تمام اجزاء اپنے آخری شمار میں معانی کی ساخت ہی کی طرف راجع ہوتے ہیں۔ تنقید کا منصب تجزیہ ہے اور نئی تنقید بڑی سختی اور بے دردی کے ساتھ فن پارے کے محض ان اجزائے مشتملات پر اپنی نگاہ مرکوز رکھتی ہے۔ جن سے اس کی ہئیت تکمیل پاتی ہے۔ نظم کی ساخت، تکنیک، اس کے نظام آہنگ، قافیہ بندی اور اس کی اس بافت سے نظم کی مجموعی ہئیت تشکیل پاتی ہے جس کا مدار تلفیظ پر ہوتا ہے اور تلفیظ نام ہے محاورہ بندی، استعارہ، پیکر، وضعی اور تعبیری معنی جیسے اجزا کے باہمی اشتراک کا۔ ایک لحاظ سے رومن باختن کے تصور ادبیت (لٹرری نیس) سے ہئیت کا یہ تصور بہت قریب ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ادبی سائنس کا موضوع ادب نہیں بلکہ ادبیت ہے۔
ادبیت ہی وہ جوہر ہے جو کسی فن پارے کو کسی دوسری عام تحریر سے علیحٰدہ کرتا ہے۔ ادبیت کے اس تصور کو دوسرے ماہرِ ساختیات (روسی ہئیت پسند ) وکٹرشکلووِسکی کے نامانوس کاری کے تصور (ڈی فیمی لیرائزیشن) میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ عام تحریراپنے نفس استدلال سے پہچانی جاتی ہے۔ اس کی بھی اپنی ہئیت ہوتی ہے مگر ایک میکانکی قسم کی ہئیت۔ جب کہ ادبی تخلیق کی ہئیت میں جو میکانکیت ہوتی ہے وہ اپنی نوعیت میں نامیاتی ہوتی ہے۔ انہیں بنیادوں پرایک تخلیق کا انفراد دوسری تخلیق کے انفراد سے مختلف ہوتا ہے۔ وکٹرشکلووسکی کے ostranenie (نامانوس کاری) کے تصور میں بھی تخصیص کے انہی پہلوؤں کو بنیاد بنایا گیا ہے کہ کس طرح ایک عمومی یا عام تحریر کسی دوسری خصوصی ادبی تحریر سے مختلف اور ممتاز ہوجاتی ہے۔ ایک عنصر تو وہ ہے جسے ادبیت کا نام دیا گیا ہے دوسرا عنصر نامانوس کاری سے تعلق رکھتا ہے۔ ادبی تخلیق میں جو تازگی، جدت اور نامانوسیت پائی جاتی ہے وہ اسے مختلف بنانے کی کوشش کا نتیجہ ہوتی ہے اور مختلف بنانے کی کوشش کے معنی اجنبیا نے کے عمل کے ہیں۔ تخلیق میں اجنبیا نے کا عنصر قاری کی عادات میں رچی بسی توقعات اورادراک کی یکساں روی پر ضرب لگاتا ہے اور دوسرے معنی میں متن کی فنی بافت کی طرف ہماری توجہ کو منعطف بھی کرتا ہے۔ متن کار نے کس حقیقت کو پیش کیا ہے یا وہ پیش کرنا چاہتا تھا؟ یا آخری شمار میں اس کی کیا صورت ہوگئی؟ جیسے سوالات کی اتنی اہمیت نہیں رہ جاتی۔ اہمیت صرف اس تحریر کی ہوتی ہے جو ادبی تخلیق کے طور پر اپنی ایک خاص ہئیت رکھتی اور اپنے فنی خصائص اور ادبی زبان کی وجہ سے تابہ دیر ہمیں اپنی طرف متوجہ رکھتی ہے۔ شکلو وسکی نے حقیقت یا اشیاء کے ضمن میں لکھا ہے کہ فن میں اشیاء کو ان کی معلوم (جانی پہچانی) حیثیت میں نہیں اخذ کیاجاتا (یعنی انہیں من و عن پیش کرنے کا نام فن نہیں ہے) بلکہ جس طرح ہم ان کا ادراک یا انہیں محسوس کرتے ہیں اس تجربے کی اہمیت زیادہ ہے۔ فن میں کسی شۓ کی فنّیت کے تجربے کا ایک طریقہ ہے، اس معنی میں شے کی فنیت کے مقابلے پر شۓ کی اپنی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
اب اگر غور کریں تو نئی تنقید کا ہئیتی تصور میخائل باختن کے ادبیت کے تصور اور شکلو وسکی کے نامانوس کاری کے تصور سے بہت زیادہ مختلف بھی نہیں ہے۔ چیک ماہرِ لسانیات جین مکارووسکی نے اپنے ایک مضمون standard language and poetic language میں جو پیش منظری: foregrounding کا تصور پیش کیا ہے اس میں بھی فنی تدابیر اور لسانی تکنیکوں کی خاص اہمیت ہے جو دوسرے لفظوں میں زبان کا جوہر کہلاتی ہیں۔ فن کا مقصد زبان کے اس جوہر کی طرف ہماری توجہ کو منعطف کرنا ہوتا ہے۔ یہاں مکارووسکی کے یہاں شعری زبان کو پیش منظر میں لانے کے معنی شعری زبان کو زیادہ سے زیادہ نمایاں کرکے پیش کرنے اور ظاہر کرنے کے ہیں۔ زبان کے اس جوہر کو فن میں آزمانے سے فن میں قاری کی شمولیت بہت دیر اور دور تک برقرار رہتی ہے۔ یہاں بھی اہمیت اس بات کی ہے کہ حقیقت کی نمائندگی کس زبان اور کن فنی تدابیر کے ذریعے کی گئی ہے۔
رولاں بارتھ نے ۱۹۶۰ء میں لکھنے والوں کی دو شقیں بتائی تھیں۔ ایک کو وہ ecrivains کہتا ہے اور دوسرے کو ecrivants اول الذکر کے تحت لکھنے والوں کو وہ authors کہتا ہے، کسی مناسب ترجمے کی عدم موجودگی میں ہم موخرٔ الذکر کے لیے مؤلف کا لفظ استعمال کرسکتے ہیں۔ یعنی وہ لکھنے والا جس کی تحریر ادب کے علاوہ کسی بھی دوسرے زمرے میں آسانی سے رکھی جاسکتی ہے۔ وہ حساب کی تفصیلات سے لے کر مقدماتی دستاویزات میں سے کوئی تحریر بھی ہوسکتی ہے۔ اس نوعیت کی تحریر اپنے رسمی مناصب سے پہچانی جاتی ہے یعنی جس میں پیشہ ورانہ قسم کی کارگزاری صاف جھلکتی ہے۔ اول الذکر کے تحت لکھنے والوں کو وہ مصنف:writer کہتا ہے۔ مؤلف اپنے معمول سے پہچانا جاتا ہے تو مصنف اپنے عمل سے۔بارتھ پہلے کو عبوری:transitive کہتا ہے اور دوسرے کو لازم:intransitive ۔عبوری وہ ہے جو اشیاء کے بارے میں لکھتا ہے اور اس حقیقت کو پکڑنے کی سعی کرتا ہے جو تحریر ! تصنیف سے پرے یا بالا ہے نیزجس کے یہاں زبا ن محض ایک ذریعہ کاکردار ادا کرتی ہے جب کہ لازم یعنی مصنف اپنے قاری کی توجہ کو اپنی تصنیف!تحریر کی طرف برقرار رکھتا اور قاری اس کی تحریر کے عمل میں شامل رہتا ہے۔ اس طرح کی تحریر یا ادب اپنا جواز آپ ہوتا ہے۔ کسی پیغام کی ترسیل اس کے قصد کا حصہ نہیں ہوتی۔ بارتھ کی وضع کردہ اصطلاحات lisible اور scriptible یعنی readerly :قاریانہ اورwriterly :مصنّفانہ کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اوّل الذکر مؤلف کی تحریر اپنی نوعیت میں قاریانہ صفات کی حامل ہوتی ہے تو ثانی الذکر مصنف کی تحریرمصنّفانہ نوعیت رکھتی ہے۔ رولاں بارتھ کہتا ہے کہ متن دو طرح کا ہوتا ہے۔ قاریانہ یا مصنّفانہ۔اس کے نزدیک قاریانہ متن جو کہ عام قسم کا متن ہوتا ہے عین قاری کی توقعات پر پورا اترتا ہے۔ وہ ایک ایسی دنیا، اور ایسے واقعات و کردار ہمیں مہیا کرتا ہے جنہیں ہم بہ آسانی پہچان لیتے ہیں، ہمارے لیے اس میں تجسس اور حیرت کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی کیوں کہ قاری پر ہر شئے واضح اور ہر معنی کھلے ہوئے باب کی طرح ہوتا ہے۔ جب کہ مصنّفانہ متن ایک خاص قسم کا متن ہوتا ہے جو معنی سے خالی ہوتا ہے یعنی کسی بھی مطلق معنی کی جس میں گنجائش نہیں ہوتی۔ دوسرے لفظوں میں ہم جسے معنیٔ مسلسل کے غیر متوقع انکشاف اور لفظوں کے نئے فن کارانہ تفاعل کا نام دے سکتے ہیں۔ قاری کو اپنی ذہانت اور وجدان کے زور پر معنی کو کھولنا پڑتا ہے۔ دیکھا جائے تو یہاں بھی بنیادی طور پر زبان کے مختلف ، منفرد اور غیر متوقع استعمال پر اصرار ہے جو قاری کو نئی متن کاری پر اکساتا ہے۔ اس طرح قاری بھی اپنی تخلیقی حسیت کو بروئے کار لاکر مصنف کا درجہ پالیتا ہے۔
نئی تنقید نے قاری کے بجائے سارا زور متن اور اس کے بغور مطالعے پر دیا تھا مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ قاری کی متن کاری بھی قرأت بہ غور کے بغیر کیسے ممکن ہے۔ آپ بات اس طرح کریں یا اُس طرح ، آخری شمار میں متن کی حرکیات پر تان ٹوٹتی ہے۔ متن ہی بودا یا پُھسپُھسا ہے یا لفظوں کے تال میل میں صناعی سے صرفِ نظر کی گئی ہے، یا استعمالاتِ زبان میں نامانوس کاری کا عنصر یا ادبیت کا عنصر مفقود ہے اور فن پارہ اپنی تکمیل میں جمالیاتی وحدت کا تاثر فراہم نہیں کررہا ہے تو ان ساری کمیوں کو قاری تو نہیں پر کر سکتا۔ قاری وہیں خالی جگہوں اور وقفوں کو اپنی ذہانت اور وجدان سے بھرسکتا ہے جہاں فن پارہ اپنی کارکردگی میں خود اس توجہ کا مستحق ہوتا ہے۔ اس معنی میں متن کی قدروقیمت کسی بھی طرح کم نہیں ہوتی۔ جہاں متن فعال ہے وہاں قاری بھی مجہول نہیں رہ سکتا۔ قاری وہیں مجہول ہوگا جہاں متن ہی مجہول ہے ۔ قاری کی شرکت وہاں زیادہ سے زیادہ تخلیقی نوعیت کی ہوگی جہاں متن ایک مناسب معروضی تلازمے کے طور پر قاری کے ذہن کو تابہ دیر حرکت میں رکھتا ہے۔ کوئی بھی متن اگر اپنی کارکردگی میں جوڑ جوڑ سے گٹھا ہوا، جامع اور پرکار متن ہے تو آہستہ آہستہ ایک ایک کرکے اپنی خوبیاں قاری پر منکشف کرتا ہے۔ اس طرح بہت سے تاثرات، بالآخر ایک وسیع الذیل تاثر میں ضم ہوجاتے ہیں۔ جب جب ہم اس قسم کے گھنے اور پیچیدہ متن سے دوچار ہوتے ہیں وہ ہمیں کوئی نہ کوئی نیا تاثر ضرور فراہم کرتا ہے۔ آپ اسے قاری کا متن بھی کہہ سکتے ہیں۔ قاری کی تخلیقی شمولیت اور ایک سے زیادہ قرأتوں ہی میں متن کے ایک سے زیادہ متنوں میں بدلنے کا جواز بھی مضمر ہے۔
آمدم برسرِمطلب، جب کوئی اچھا یا برا متن ہی نہیں ہوگا تو قاری کی اولیت ہی نہیں قاری کا وجود بھی مشتبہ ہوجائے گا۔ اس لیے متن کی موجودگی کا درجہ اول ہے جو بعد ازاں ایک مسلسل سرچشمۂ حیرت بنا رہتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قاری یا ایک سے زیادہ قاری اور مختلف زمانوں کے قاری اسے پہلے سے زیادہ توانگر کرتے چلے جاتے ہیں۔ آج جو غالب ہمارے سامنے ہیں وہ انیسویں صدی کے اواخر کے حالی کے غالب نہیں ہیں بلکہ وہ بیسویں صدی کے اواخر تک پہنچتے پہنچتے کئی غالبوں میں بدل گئے ہیں۔ اسی بنیاد پر وہ ہمارے لیے جس قدر پہلے سے زیادہ مانوس ہیں اسی قدر پیچیدہ بھی ہیں۔ اور یہ پیچیدگی کا عنصر ہی باربار ہمیں قرأت کے لیے اکساتا ہے۔ اس طرح متن کے سراولیت کا سہرا باندھنے کے باوجود قاری کی اہمیت، وقعت یا قیمت کم نہیں ہوجاتی۔ قاری بہر حال قاری ہے، اس کا مرتبہ بھی یقیناً بلند ہے مگر اسے متن پر فوقیت دینے کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم متن کی اپنی وجودیات اور حرکیات ہی سے صَرفِ نظر کر رہے ہیں۔جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ متن اگر آپ اپنے میں توانگر، منضبط، خلاقی سے معمور، اور حرکت آشنا ہے تو ہمار ے تخیل کو بھی مسلسل حرکت میں رکھ سکتا ہے۔ ان صفات سے اگر وہ خالی ہے تو قاری کی تخلیقی حس بھی کند پڑی رہے گی اور وہ کسی نئے اور پہلے سے زیادہ طاقت ور متن کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ برخلاف اس کے ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ جہاں ایک طرف کئی لحاظ سے متن کاجامع ہونا ضروری ہے وہاں قاری کا حساس اور صاحبِ علم ہونا بھی ضروری ہے، وہ جب تک ادب کی روایات سے باخبر نہیں ہوگا یا بین المتونی مطالعے کے تجربے سے نہ گزرا ہوگا، اس وقت تک اس کی ادبی فہم بھی غیر معتبر کہلائے گی۔ اس صورت میں ہر متن کا ایک درجہ ہے اور اسی نسبت سے ہر قاری اپنی نوعیت میں ایک علیٰحدہ ہستی ہے۔ فعال متن ایک مجہول اور کم آگاہ قاری کے نزدیک اتنا بامعنی نہیں ہوگا۔ جتنا کہ ایک آگاہ اور فعال قاری کے لیے۔ اسی کے پہلو بہ پہلو ایک فعال اور آگاہ قاری ایک مجہول متن کو اپنی تمام تر تاویلات کے باوجود فعال نہیں بناسکتا اس طرح ہر متن نہ تو ہر قاری کے لیے ہوتا ہے اور نہ ہر قاری ہر متن کی سوجھ بوجھ رکھتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭