صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
تصوف کی جمالیات
ڈاکٹر شکیل الرحمن
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
ہندوستان کے علاقائی ادب میں تصوّف کا جمال
برصغیر میں تصوّف اور اس کی جمالیات
اور رومانیت کی ایک بڑی تاریخ رہی ہے، صوفیوں کی ایک
مستحکم اور مضبوط روایت کے ساتھ قلندری کی روایت بھی
قائم رہی ہے، جمالِ تصوّف میں جمالِ قلندری بھی شامل ہے۔
ہندوستانی اور اسلامی روایات کی آمیزشوں کی ایک طویل
تاریخ ہے۔ خیالات اور تجربات کی ایسی آمیزشیں
ہوئیں کہ دونوں کی روایات کے بہت سے ارفع
اور افضل خیالات، اقدار اور تجربات ایک دوسرے
میں جذب ہو گئے تحلیل ہو گئے، تصوّف اور اس کا
جمال بھی ان میں ایک ہے۔ ہندوستان کے مختلف علاقوں
میں تصوّف اور اس کی جمالیات کے چراغ روشن ہوئے،
اسلامی تصوّف نے بدھ، جین اور ہندو مابعدالطبعیات
کے اثرات بھی قبول کیے اور اس بڑے ملک کے مختلف
علاقوں کی زبانوں کے اثرات قبول کرتے ہوئے
مقامی بولیوں اور زبانوں کو داخل اور روحانی
تجربوں سے آشنا کیا، مختلف علاقوں کے تخلیقی
فنکاروں نے تصوّف کی روشنی حاصل کر کے اور اس کے
حسن اور اس کی رومانیت سے متاثر ہو کر بعض ایسی تخلیقات
پیش کیں جو آج دُنیا کے بہترین شاہکار تصوّر کی جاتی ہیں۔
وسط ایشیا اور خصوصاً ایران سے جانے
کتنے صوفیا تشریف لائے، فارسی زبان میں جانے کتنی
تخلیقات آئیں، سنائیؔ، نظامیؔ، عطاّرؔ، رومیؔ وغیرہ کی شاعری نے
گہرے صوفیانہ شعری تجربوں سے متاثر کیا۔ صدیوں یہ
سلسلہ قائم رہا۔ جو صوفی بزرگ روحانی تجربوں کی ایک دُنیا لیے
آئے وہ اس ملک کی مابعدالطبعیاتی تجربوں سے بھی متاثر
ہوئے، کبیرؔ، سورداسؔ اور گرونانکؔ بنیادی طور پر اُن ہی
تجربوں کے فنکار تھے جو صوفیوں کا سرمایہ تھے۔
وسط ایشیا اور خصوصاً ایران سے آئے ہوئے
صوفی ان سے متاثر ہوئے اس حد تک کہ سورداسؔ کا کلام سماع کی
محفلوں میں پڑھنے لگے۔ رادھا اور
کرشن کی محبت کو الوہی عشق تصوّر کیا۔ رسخانؔ (سیّدابراہیم) (۱۶۱۸ء)
نے اپنی غزلوں میں رادھا اور کرشن کے
کردار کو روحانی زندگی کے سب سے قیمتی رس کی طرح پیش کیا۔
پنجاب اور سندھ میں مقامی صوفی شاعروں نے
اپنی قدیم روایتوں کے معنی خیز استعارے استعمال کیے،
ہندو صمنیات سے علامتیں اور استعارے حاصل کیے۔
وسط ایشیا اور ایران سے آئے ہوئے
صوفی ملک کے مختلف علاقوں میں گئے، خانقاہیں قائم
کیں، روحانی تعلیمات کا سلسلہ شروع کیا۔ سندھ، پنجاب، جونپور، بنگال
اور دوسرے کئی علاقوں میں خانقاہیں علم و
دانش کا مرکز بن گئیں۔ صوفی جمع ہوتے، روحانیت پر گفتگو کرتے سماع
کی محفلیں ہوتیں۔ پورے ملک پر اثرات ہوئے، دہلی سے دکن
تک صوفیوں کے قافلے آتے جاتے رہے، دکن
میں بھی خانقاہیں قائم ہوئیں اور مقامی صوفیوں نے
اپنے خیالات سے متا ّثر کرنا شروع کیا۔ تصنیف و تالیف
کا ایک طویل سلسلہ قائم ہو گیا۔ غزلوں اور مثنویوں میں
صوفیانہ تجربوں کی روشنی ملتی ہے۔ صوفیوں کی طرح
قلندروں نے بھی ملک کے مختلف علاقوں کا سفر کیا۔
قلندر خود کو صوفیوں اور ’’ملامتیوں‘ ‘ سے علیحدہ تصوّر
کرتے تھے، ان کی درویشی ہی مختلف تھی، عبادت سے بظاہر دُور
رہتے، کہتے جب ہم اللہ کے قریب ہیں تو ہمیں عبادت
کر نے کی ضرورت کیا ہے۔ ملنگ، فقیر، درویش، ان کے کئی نام
تھے۔ ان پر اللہ کی محبت کا نشہ طاری رہتا۔ مذہب کے کٹرّپن
کے سخت مخالف تھے، قلندری عراق دمشق کی روایت ہے۔ وسط ایشیا
میں بھی قلندروں کی جماعت رہی ہے، ایران میں بھی ایک
بڑی روایت موجود ہے۔ یہ ایسے صوفی تھے جو بے غرض تھے،
محبت کرتے تھے، اللہ میں جذب ہو جانے کو زندگی کا مقصد
سمجھتے تھے۔ کہتے ہیں قلندر پہلے دمشق میں
نظر آئے۔ ۱۴۔ ۱۲۱۳ء میں ان کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ مصر
کے ایک اسپینی عرب تھے جو یوسفؔ کے نام سے مشہور
تھے۔ کہا جاتا ہے وہی قلندریت کے بانی ہیں۔ قلندریت کی تاریخ
’میں دو اور بہت اہم نام ملتے ہیں ایک نام
ہے شیخ جمال الدین کا،بہت خوبصورت تھے۔ ابنِ بطوطہ نے تحریر
کیا ہے کہ عورتیں ان پر فدا تھیں، دوسرا نام حسن کا ہے
کہ جنھوں نے (۹۶۔ ۱۲۹۴ء) مصر میں قلندروں
کے لیے خانقاہیں تعمیر کیں۔ قلندروں نے
خانقاہوں کو پسند نہیں کیا۔ وہ ایک جگہ رہنا نہیں
چاہتے تھے، مصر، ترکی اور ایران کے بعد ہندوستان
آئے تو انھوں نے خانقاہوں کو قطعی پسند
نہیں کیا حالانکہ اس دَور میں صوفی خانقاہوں کو بڑی
اہمیت دے رہے تھے۔ ہندوستان میں قلندروں اور ناتھ یو
گیوں کا رابطہ قائم ہوا اور قلندر ان سے متاثر
ہونے لگے۔ اُن کی طرح کانوں میں بندے
پہننے لگے۔ پھر ایسا ہوا وقت کی تبدیلی ان پر اثر انداز ہونے
لگی اور وہ ’’چشتہ قلندر‘ ‘ بن گئے اور خانقاہوں
سے وابستہ ہونے لگے۔ پانی پت میں قلندر شیخ شرف الدین
تھے، جنھیں ابوعلی قلندر کہتے ہیں۔ جمالِ قلندری پر انتہائی
خوبصورت گفتگو کرتے تھے، اللہ اور انسان دونوں
کے جلال و جمال پر گفتگو کرتے ہوئے لوگوں کو
متاثر کرتے تھے۔ کرنال کے قریب شیخ ابوعلی تھے جو چشتہ
قلندر تھے۔ لال شہباز قلندر، شیخ فخرالدین عراقی وغیرہ معروف قلندر
گزرے ہیں۔ عراقی سہروردیہ قلندر تھے۔ شیخ لال شہباز قلندر سندھ
کے باشندے تھے۔ سرخ لباس پسند کرتے تھے، ملامتی کہلانا
پسند کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے قلندر ہندوستان آئے تو وہ
بابا فرید سے بھی ملے تھے اور ان کی دُعائیں لی تھیں،
اسی طرح وہ حضرت شیخ قطب الدین کاکیؒ کے پاس بھی آئے تھے، بعض
قلندر اُن کے مرید بھی ہو گئے تھے، یہ بھی کہا جاتا ہے
کہ جب بابر سلطان سکندر لودھی سے ملنے گیا تو اپنے ساتھ
چند قلندروں کو بھی لے گیا تھا اس لیے بھی کہ سکندر
لودھی قلندروں کا بڑا مدّاح تھا۔ ہندوستان میں رہتے
ہوئے قلندروں کے قافلے بنگال پہنچے۔ چٹ
گاؤں میں بسیرا کیا پھر برما تک پہنچ گئے۔
قلندروں نے ادب کی تخلیق میں کوئی حصّہ
نہیں لیا لیکن ادیبوں نے ’قلندریت‘
اور ’جمالِ قلندری‘ کو پسند کیا، کہانیوں اور مثنویوں
میں کرداروں کے عشق کو قلندری شان بخشی اور
جمالِ قلندری کے تئیں بیدار کیا۔
بابا فرید اور شیخ حمید الدین ناگوری نے صوفیانہ
تجربوں کے جمال کو طرح طرح سے پیش کیا۔ اللہ
اور انسان کے عشق اور انسان دوستی کے
جذبے کو موضوع بنایا۔ بابافرید کے تعلق سے بہت سے
خیالات بابا گرو نانک کے ذریعے حاصل ہوئے ہیں۔
سولہویں صدی کے بعد کبیرؔ، سورداسؔ اور گرونانکؔ
نے صوفیوں اور خصوصاً صوفی ادب کی جمالیات کو شدّت سے متاثر
کیا۔ ہندوستان کے جن صوفیوں نے غزلیں اور مثنویاں
لکھی ہیں اُنھوں نے انتہائی عمدہ دوہے بھی تحریر
کیے ہیں۔ رَسخانؔ (سیّد ابراہیم) شاہ منجھن شطاّریؔ، وارث شاہؔ، شاہ
عبداللطیف، حاجی محمد شاہ، شیخ با ہو، شیخ حسین، بابابلہے شاہ، للّہ
عارفہ، شیخ نورالدین نورانی، اور سوجھ کرال، رحیم صاحب، نیامہ
صاحب، شاہ قلندر، رحمان دار، شمس فقیر، وہاب کھار، اسد میر، وازہ محمود،
صمد میر اور حضرت بندۂ نوازگیسودراز، حضرت شاہ میراں جی شمس
العشاق بیجا پوری، شاہ برہان الدین جانم، شاہ امین الدین اعلیٰ، سیّد
میراں میاں خاں ہاشمی، ابراہیم عادل شاہ، عبدل، مقیمی،
عاجز، ملک خوشنود، احسن شوقی، نصرتی، مرزا محمد مقیم، علی عادل شاہ ثانی
شاہی، فیروز، محمد قلی قطب شاہ، ولی، سراج وغیرہ تصوّف کی جمالیات
اور رومانیت کے اہم شعرا قرار دِیے جا سکتے
ہیں۔
شاہ منجھن شطاّری کی تخلیق ’’مدھوماتی‘
‘ نے ہندی شاعری کو بھی متاثر کیا اور
صوفیوں پر بھی گہرا اثر ڈالا۔ شاہ منجھن شطاّری۔ (پیدائش ۱۶۔ ۱۵۱۵ء)
نے ممکن ہے یہ کہانی لوک قصّوں سے حاصل کی ہو
اُنھوں نے اس عشقیہ فسانے کو تصوّف کے رنگ
میں رنگ دیا۔ اُنھوں نے کہانی سے یہ نتیجہ اخذ
کیا کہ وہی شخص لافانی ہو جاتا ہے جو عشق کی راہ میں قربان
ہوتا ہے۔ ایک اچھے ّ فنکار کی طرح اُنھوں نے کہانی کے
نقش فنکارانہ انداز سے اُبھارے ہیں، صوفیانہ اور
بھگتی تجربوں کی آمیزش کی پہچان ہوتی ہے۔ شہزادہ منوہر
اور مدھوماتی کی اس کہانی کو نصرتی (۱۶۵۷ء) نے اپنی یادگار
مثنوی ’’گلشنِ عشق‘ ‘ میں پیش کیا ہے اور ’فینتاسی‘ کی
ایک انتہائی دلچسپ فضا خلق کر دی ہے بلاشبہ یہ قدیم ہندوستانی لوک
کہانی ہے۔ شہزادہ منوہر جب چودہ برس گیارہ مہینے کا ہوتا ہے
تو اس خوبصورت شہزادے کو پریاں اُٹھا کر لے جاتی ہیں
اور مدھوماتی کے بستر کے قریب پہنچا دیتی ہیں۔ نصف شب
میں منوہر کی آنکھیں کھلتی ہیں تو کیا دیکھتا ہے
وہ ایک نہایت ہی خوبصورت دو شیزہ کے بستر کے پاس لیٹا ہوا ہے،
مدھوماتی بھی بیدار ہو جاتی ہے دونوں ایک دوسرے
کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ دونوں عمر بھر
ساتھ رہنے کا وعدہ کرتے ہیں، دونوں سوجاتے
ہیں صبح پریاں آتی ہیں اور منوہر کو اس کے محل
میں پہنچا دیتی ہیں، صبح منوہر فیصلہ کرتا ہے کہ مدھوماتی کی
تلاش میں نکلے گا۔ والدین کی نصیحتوں کو نظر انداز کر
کے وہ تلاشِ محبوب میں نکل جاتا ہے۔ سنسان جنگلوں
سے گزرتا ہے، چار ماہ تک تلاشِ محبوب میں مارا مارا پھرتا ہے،
پھر بہت سے دلچسپ واقعات پیش آتے ہیں، ایک اور
خوبصورت دو شیزہ ملتی ہے جسے دیونے گرفتار کر رکھا
ہے وہ منوہر کو بتاتی ہے کہ مدھوماتی اس کی سہیلی
ہے اگر وہ دیو کے پنجے سے چھٹکارا
پالے تو منوہر کو مدھو سے قریب کر دے گی، منوہر دیو کو
شکست دیتا ہے، پھر اژدہے سے لڑتا ہے، چڑیلوں سے
نجات حاصل کرتا ہے۔ آدم خوروں سے خود کو بچاتا ہے اور بہت
سے واقعات سامنے آتے ہیں، درویش ملتے ہیں،
مدھوماتی طوطی بنتی ہے پھر مدھوماتی بن جاتی ہے۔ آخر میں
دونوں کی شادی ہو جاتی ہے۔ فنکار کا مقصد یہ بتانا ہے کہ
عشقسچا ہوتو خالق تک پہنچنا مشکل نہیں ہوتا، راہ میں بہت سی
مشکلیں آتی ہیں ان سے ٹکرانا پڑتا ہے۔ دیو، چڑیلیں، آدم
خور یہ سب راہ کی مشکلات کے نشانات ہیں۔ عشقسچا ہو، اس کی آگ
پورے وجود میں روشن ہو، ارادہ پختہ ہو، نیت صاف ہو، معبودِ
حقیقی تک پہنچنا مشکل نہیں ہے۔
’’مدھوماتی‘ ‘ اُردو اور ہندی قصوں کی ایک
اہم روایت کی حیثیت سے زندہ ہے، تصوّف اور بھگتی
دونوں کی بہتر شکلیں موجود ہیں۔ وحدت الوجود کا نظریہ موجود
ہے۔
پنجابی اور سندھی شعراء پر
تصوّف کا بڑا گہرا اثر ہوا۔ ’کافی‘ کے فارم کو اپنایا
اور اپنے حسی جمالیاتی تجربے پیش کیے، ان کی رومانیت
تخیل کی پروازسے پہچانی جاتی ہے۔ پنجابی اور سندھی شعرا
نے مثنویاں بھی لکھیں۔ وحدت الوجود کا نظریہ ابتدا سے
بنیادی نظریہ رہا۔ بابا فرید اور شیخ مدھو کے کلام
میں خالق کی تلاش زندگی کا بنیادی مقصد ہے۔ شیخ مدھوکی کافیوں
میں مہیوال کی تلاش اللہ کی تلاش ہے۔ وارث شاہ نے ’ہیر
رانجھا‘ کی تخلیق کی۔ یہ دُنیا کی بہترین تخلیقات میں ایک
تخلیق ہے۔ تصوّف اور بھگتی کی آمیزش کا ایک خوبصورت نتیجہ
’ہیر رانجھا‘ کی صورت میں سامنے ہے۔
بابا فرید (شیخ فرید الدین مسعود گنج شکر) (۷۴۔ ۱۱۷۳ء۔ ۱۲۶۵ء)کا
خاندان وسط ایشیا سے آیا تھا، ان کے دادا حضور قاضی شعیب کابل
سے اپنے تین بیٹوں کے ساتھ لاہور پہنچے
جہاں شہر کے قاضی نے ان کا استقبال کیا، ان کے
علم و دانش کا قاضی پر اتنا اثر ہوا ہے کہ لاہور کے آخری
غزنوی سلطان خسرو ملک کو ان کی آمد کی خبر دی۔ قاضی شعیب کوئی ملازمت منصب
نہیں چاہتے تھے، ایک صوفی منش تھے۔ سلطان کے اصرار پر
اُنھوں نے کھاٹیوال کا قاضی بننا منظور کر لیا
اور وہیں بسیرا کر لیا۔ کھاٹیوال آج چاولی مشائخ کے نام
سے مشہور ہے۔ ملتان میں اس شہر کو بڑی عزّت و احترام کی نگاہ
سے دیکھا جاتا تھا اس لیے کہ یہ بزرگوں کا قدیم مسکن
رہا تھا۔ قاضی شعیب کے تین بیٹے تھے ان میں جمال
الدین سلیمان کی شادی کھاٹیوال ہی میں ہوئی، شیخ فریدالدین مسعود
شیخ جمال الدین سلیمان کے دوسرے لڑکے تھے جو بابا
فرید کے نام سے معروف ہیں۔ ان کی والدہ نے ان کی پرورش
کی اور بہت پیار دیا۔ بابا فرید بچپن سے اللہ
والے بن گئے، زیادہ وقت عبادت میں گزارتے۔ چند ہی برسوں
میں ان کی بزرگی اور پاکیزگی کی خبر ہر جانب پھیل گئی،
کہا جاتا ہے حضرت شیخ جلال الدین تبریزی کے شاگرد شیخ ابوسعید
تبریزی دہلی جاتے ہوئے کھاٹیوال سے گزرے تو بابا
کی شہرت سن کر اُن سے ملنے گئے اور ان سے بے حد
متاثر ہوئے۔ اٹھارہ برس کی عمر میں بابا فرید ملتان کے ایک
مدرسے میں داخل ہوئے جس کے سربراہ مولانا منہاج
الدین تبریزی تھے، یہاں وہ بہت جلد حافظِ قرآن ہو گئے۔ حضرت خواجہ
قطب الدین بختیار کاکیؒ کی خانقاہ اور حضرت کی صحبت میں
بابا فرید نے تزکیہ نفس اور روحانی کیفیتوں کی
اہمیت سمجھی۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ ان پر بہت مہربان تھے اور
انھیں بے حد عزیز رکھتے تھے، حضرت خواجہ معین الدین
چشتیؒ نے بھی انھیں اپنی دعاؤں سے نوازا۔ حضرت
خواجہ بختیارکاکیؒ کے انتقال کے بعد بابا فرید ہانسی سے
دہلی آ گئے اور سجادہ نشیں ہو گئے۔ کچھ عرصہ بعد پھر ہانسی واپس لوٹ
گئے، اس لیے کہ اُنھیں روحانی سکون کی ضرورت تھی۔ عبادت کر
نے کے لیے سکون چاہتے تھے لہٰذا ہانسی کی
خانقاہ اپنے کسی مرید کے حوالے کر کے اجودھن
چلے گئے، آج وہ مقام پاک پٹن کے نام سے مشہور ہے،
پاکستان میں اب اس کا نیا نام ساہیوال ہے۔
بابا فرید پنجابی زبان کے ایک ممتاز شاعر تھے، اُردو، ملتانی،
پنجابی الفاظ کی آمیزش سے ان کی شاعری انتہائی پُر کشش بن گئی تھی۔
اُنھوں نے صوفیانہ تجربوں کو صاف ستھری اور
عام فہم زبان میں پیش کیا کہ جن سے عوام بے حد متاثر
ہوئے۔ ان کا کلام لوگ گاتے، سماع کی محفلوں میں ان کے
کلام کو بے حد مقبولیت حاصل ہوئی، بابا فرید کے علم کا ذکر
دور دراز علاقوں میں ہوا اور لوگ جانے
کہاں کہاں سے آ کر ان کا نیاز حاصل کرتے۔ اُنھوں
نے اسلامی تصوّف کو ہندوستانی عوامی رنگ دے دیا، بھگتی
اور تصوّف کے جمال کو ایک دوسرے میں جذب کر
نے والوں میں بابافرید کا نام سب سے پہلے
لیا جاتا ہے۔ انسان اور خالق کے رشتے، عشق خدا
اور عام انسانوں سے محبت کو اپنے کلام کا
بنیادی موضوع بنایا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ان کا کلام ضائع ہو چکا
ہے اور بہت کم اشعار ہمیں حاصل ہوئے ہیں، بعض پنجابی اشعار
لوگوں نے یاد کر رکھے تھے بابا گرو نانک نے
انھیں محفوظ کر لیا۔ ۱۶۰۴ء میں گرو ارجن دیو نے ’’آدی
گرنتھ‘ ‘ کو مرتب کیا تو بابا فرید کے وہ اشعار اس میں
شامل کر دیے، یہی سرمایہ ہمیں حاصل ہوا ہے۔ پنجابی افکار و خیالات
میں بابافرید کے اشعار بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ اُن
سے منسوب صوفیانہ اشعار میں چند یہ ہیں:
۔۔۔۔ فرید میرا سوکھا جسم ہڈّی کا ڈھانچہ بن گیا ہے
کوّے میری ہتھیلی اور تلوؤں پر چونچ مار رہے ہیں
ابھی تک اللہ تعالیٰ میری مدد کو نہ آئے
اللہ کے اس بندے کی بدنصیبی تو دیکھو!
۔۔۔۔ اے کوّؤں اس ہڈّی کے ڈھانچے کو تلاش کر لیا جو میرا جسم ہے
اور میرا سب گوشت کھا لیا
لیکن ان دو آنکھوں کو ہر گز نہ چھونا کہ مجھے ابھی
محبوب کے دیدار کی اُمید ہے
چار
پانچ اشلوکوں ہی سے بابا فرید کے صوفیانہ شعری
تجربوں کی پہچان ہو جاتی ہے۔ گرو گرنتھ صاحب میں بابا
کے چار گیت اور ایک سو بارہ اشلوک ہیں، ان میں
ملتانی، پنجابی الفاظ ہیں۔ وحدت الوجود کا انتہائی گہرا رُوحانی تصوّر
موجود ہے جو شدّت سے متا ّثر کرتا ہے۔ بنیادی خیال یہ
ہے کہ اللہ دل میں رہتا ہے، اس کی تلاش میں جنگل جنگل
بھٹکتے رہنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ان کے
اشعار میں وجد آفریں کیفیت ہے۔ ایک جگہ فرماتے
ہیں اللہ پکی ہوئی کھجوروں کی طرح ہے، شہد کی ندی کی
طرح، اگر وہ مل جائے تو ساری دُنیا اپنی ہو جائے، ان
کے یہ اشعار بہت مشہور ہیں۔ میٹھائی بہت میٹھی ہے اور شکر
اور شہد اور بھینس کا دودھ بھی میٹھا ہے لیکن سب
سے زیادہ میٹھی اللہ کی ہستی ہے۔ زندگی اور موت کو اس
طرح سمجھاتے ہیں کہ عرصے تک ایک پیڑ دریا کے
کنارے کھڑا رہ سکتا ہے۔ آخر کب تک پانی ایسے برتن میں
رہ سکتا ہے جو کچاّ ہے! دوسری جگہ فرماتے ہیں دُنیا
کے باغ حسن و جمال میں ایک پرندہ محض ایک مہمان ہے، جب صبح کی
نوبت بجے تو اُڑنے کو تیاّر ہو جاتا ہے۔ شاعر کے
رُوحانی جمالیاتی ذہن نے دُنیا کے حسن و جمال کے کئی
پہلوؤں کو دِکھایا ہے، مختلف قسم کے جذبات اور ان
کے رنگوں کو محسوس بنایا ہے۔ استعاروں میں
اپنے نقطۂ نظر کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ مثلاً
ایک جگہ فرماتے ہیں:
۔۔۔۔ اگر مجھے علم ہوتا کہ میرے بیج اتنے کم ہیں
تو میں ان مٹھی بھر بیجوں کی دیکھ ریکھ کرتی
اگر مجھے معلوم ہوتا کہ میرا دولہا اتنا کم عمر ہے
تو میں کچھ کم گھمنڈی ہوتی!
۔۔۔۔ فرید، اُن آنکھوں کو دیکھا ہے
جو ساری دُنیا کو مسحور رکھتی تھیں۔
کبھی وہ کاجل کی لکیر کا بوجھ بھی برداشت نہ کر سکتی تھیں
لیکن اب ان میں چڑیوں نے
انڈے دے کر بچے ّ نکالے ہیں!
کلام
میں جو گہرائی اور جو پختگی اور
نفاست اور چمک دمک ہے اس کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا
ہے۔ وارث شاہ نے ایک قدیم روایتی کہانی ’’ہیر رانجھا‘ ‘ کو
ایک انتہائی خوبصورت تخلیق کی صورت بخشی۔ ہندوستان کی کلاسیکی
کہانیوں میں ’’ہیر رانجھا‘ ‘ کو ایک ممتاز مقام حاصل
ہے، وارث شاہ کے اس کارنامے کو دُنیا کی بہترین تخلیقات
میں شمار کیا جاتا ہے۔
’’ہیر رانجھا‘
‘ کی کہانی مختلف انداز سے سنائی گئی ہیں اور ایک ہی کہانی کی
کئی صورتیں سینہ بہ سینہ چلتی رہی ہیں، جن میں فقر
اور رُوحانی عشق اور شوق کے محاکات کو اہمیت دی
گئی ہے۔ ’’ہیر رانجھا‘ ‘ دونوں جمالِ الٰہی کے مظاہر
بنے رہے ہیں۔
وارث شاہ کی تخلیق
’’ہیر رانجھا‘ ‘ کے مطابق یہ تخلیق دوستوں کی فرمائش پر
۱۸۲۳ء میں وجود میں آئی۔ یہ منظوم داستان ساہیوال میں
لکھی گئی جو ملتان کے علاقے میں ہے۔ وارث شاہ نے
اُس دَور کے حالات پر اشاروں میں اظہارِ خیال کیا
ہے لیکن اپنے متعلق کچھ بھی نہیں بتایا ہے۔ شاعر
کے تعلق سے ہمیں کوئی خبر نہیں ملتی۔ ’’ہیر وارث
شاہ‘‘ کی ابتداء حمد، نعت، چار یار کی تعریف (حضرت ابوبکرؓ، حضرت
عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ) پیرانِ پیر کی مدح
اور بابا فرید شکر گنج کی مدح سے ہوتا ہے۔ وارث شاہ
کہتے ہیں میرے اشعار کی خوش نما اور مستحکم
ترتیب سے ہیر کا قصہ ایک منفرد گلاب کی مانند کھلا
ہے جس طرح فرہاد نے پہاڑ کاٹ کر دُودھ کی نہر نکالی تھی اُسی
طرح میں نے گہری فکر کے بعد قصّے کے جوہر
کو نکالا ہے۔ ہیر کا یہ قصّہ گلاب سے تیاّر کیا ہوا عطر ہے کہ
جس کی خوشبو ہر جانب پھیلے گی۔ وارث شاہ نے ایک پرانی لوک
کہانی اور روایات میں سفر کرتے ہوئے عوامی
قصّے میں اپنی فکر و نظر اور اپنے احساسِ
جمال سے نئی زندگی پیدا کر دی ہے۔
ہیر
وارث شاہ کی ڈرامائی خصوصیات انتہائی پرکشش ہیں۔ فنکار نے اس
قصّے کو ایک ڈراما بنا دیا ہے۔ اس کی بے پناہ مقبولیت کا ایک
بڑا سبب اس کی شاعری کا آہنگ اور مصرعوں میں
پوشیدہ غم و انبساط کی کیفیتیں ہیں جو پڑھنے والوں اور
سننے والوں کو ایک انتہائی رومانی فضا سے آشنا کرتی ہیں
اور دوسرا سبب اس کی ڈرامائی کیفیات اور خصوصیات ہیں۔ وارث
شاہ لفظوں کے جادوگر ہیں۔ علامتوں اور استعاروں کو
جگمگاتے جگنوؤں کی طرح اُچھال دیتے ہیں۔ کبھی کبھی
آنکھیں چکاچوند ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح ڈرامائی کشمکش اور
تصادم کی فضا پیدا کرتے جاتے ہیں۔ کرداروں اور ان کے
مکالموں میں باطنی کیفیتوں اور شخصیتوں کے تصادم
کو نمایاں کرتے ہیں۔ پیکر تراشی اور صورت گری
میں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔
وارث شاہ جب
ہیر کے حسن و جمال کی تعریف کرتے ہیں تو ایک جانب اُن
کے احساسِ جمال کی پختگی کی پہچان ہوتی ہے اور دوسری جانب اس منظوم
داستان کی جمالیاتی سطح کی رفعت اور عظمت کا احساس ہوتا ہے۔
فرماتے ہیں ہیر کی دلفریب صورت کے خدوخال اتنے
دلکش ہیں کہ لگتا ہے جیسے ہم قرآن پاک کے چمکتے
اور روشن حروف دیکھ رہے ہیں۔ پیشانی ماہتاب ہے، زلفیں جو دل
کو لہولہان کرتی ہیں، چہرے کے دو جانب سے حلقہ
ڈالے ہوئی ہیں جیسے چاند نے گھیرا ڈالا ہو۔
وارث شاہ نے تصوّف کے جمال کا دائرہ وسیع بھی کیا ہے
اور گہرا بھی۔ مختلف راگوں کے ذکر سے ایک عجیب وجد
آفریں کیفیت پیدا کر دی ہے۔ کیدار، مارو، پوربی، للت، بھیرون،
سورٹھ، دیپک، گجریاں، ٹوڈی، ملہار، گونڈ، دھناسری، کمبان، مالکوس، بھیروں،
بھیم پلاسی، نٹ راگ، بسنت ہنڈولا سب کا آہنگ عشقِ حقیقی کے درد کی
شدّت کا احساس دلاتا ہے۔
ہندوستان کے
علاقائی ادب میں تصوّف کی جمالیات کا جب بھی ذکر آئے گا وارث
شاہ کی تخلیق ’’ہیر رانجھا‘ ‘ کے جمال اور اس کی
شدید رومانیت کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔
شاہ لطیف (شاہ عبداللطیف) سندھ کے صوفی شعرا میں
ممتازمقام رکھتے ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ ان کی شاعری
اور خصوصاً ’’سسّی پنوں‘ ‘ نے دُنیا کے بہترین
ادبیات کی تاریخ میں اپنی جگہ حاصل کر لی ہے۔ ۹۰۔ ۱۶۸۹ء (۱۱۰۲ھ)
میں جنم ہوا۔ ابھی کم عمر ہی تھے کہ والد کا انتقال ہو گیا۔
اُنھوں نے قرآن پاک، حدیث نبویؐ، مثنوی مولانا روم کا خصوصی
مطالعہ کیا تھا۔ ان کے علاوہ تصوّف اور ویدانت پر بھی
اُن کی نظر بڑی گہری تھی۔ سندھی زبان کے عالم تو تھے ہی
بلوچی، ہندی، پنجابی زبانیں بھی خوب جانتے تھے۔ اپنے
عہد کے بڑے عالموں میں اُن کا شمار ہوتا ہے۔
صوفیانہ ذہن حد درجہ روشن اور تخلیقی تھا۔ اللہ
اور مخلوق کے رِشتے اور خالق کی عظمت و جمال پر ان کے
اشعار شدّت سے متاثر کرتے ہیں۔ پروفیسر جیٹھ مل پرسرام
نے اپنی کتاب "Life of Shah Bhatai" میں لکھا ہے کہ شاہ
لطیف عربی اور فارسی لفظوں کی ایک دُنیا رکھتے
ہیں، اُن کی شاعری میں جہاں سندھی، پنجابی، ہندی
اور بلوچی الفاظ ملتے ہیں وہاں عربی
اور فارسی الفاظ بھی ملتے ہیں۔ ان کے دوستوں کا
حلقہ وسیع تھا۔ ان میں یو گی دوستوں کی تعداد کم نہ تھی۔ ان
ہی کے ذریعے اُنھوں نے ہندوستان کی جانے
کتنی روایتی اور لوک کہانیاں سنیں، اُنھیں
کہانیوں میں ’’سسّی پنوں‘ ‘ کی کہانی بھی تھی کہ جس
سے وہ بے حد متاثر ہوئے اور ایسی تخلیق پیش کی کہ وہ امر ہو
گئے۔ صوفیانہ تجربوں کی گہری روشنی لیے جب ’’سسّی پنوں‘
‘ کا روایتی قصّہ ایک نئی صورت لیے اُجاگر ہوا تو لوگ اس پر
عاشق ہو گئے۔ شاہ عبداللطیف کا جمالیاتی مزاج حد درجہ پختہ
اور اس کی رومانیت ہر درجہ متحرّک تھی۔ مظاہر فطرت سے وہ کس
قدر متاثر ہوئے تھے اور ان کے جمالیاتی مزاج اور
اُن کی رُومانیت میں کیسا تحرّک پیدا ہوا تھا اس کا اندازہ ’’سسّی
پنوں‘ ‘ کے مطالعے سے ہوتا ہے۔ ایک مقام پر
کہتے ہیں:
نیچے آبِ رواں ہے سطح پر پھول کھلے ہوئے ہیں، ہر جانب دلکش مرغزار ہیں،
تماشی کی عطر بیزی سے فضا مہک رہی ہے
صبح کی ہَوا چلتی ہے تو کنجر پالنا بن جاتی ہے!
یہ سنئے:
کوہستان مملکت کا شہزادہ (پنوں ) وہاں نہیں ہے جہاں تم خیال کرتے ہو
چٹاّنوں سے مت ٹکراؤ وہ تمھارے باطن میں ہی پوشیدہ ہے،
غیر سے نجات کر کے محبوب کو اپنے باطن ہی میں تلاش کرو۔
شاہ
عبداللطیف نے قرآن پاک کی آیات اور احادیث کی اہمیت پر
بھی روشنی ڈالی ہے۔ اُن کی معنویت کو اُجاگر کر نے کی کوشش کی ہے۔
ان کی تفسیروں میں اُن کے شاعرانہ اندازِ بیان کو بڑی
اہمیت حاصل ہے۔ ان کے علاقائی اشارے اتنے عام فہم
ہیں کہ ہر بات آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہے۔ یہ سنئے:
’’میرا دل محبوب کے فراق میں اتنا غمزدہ ہے
جیسے کٹ کر گھاس کی پتیّ مرجھا جاتی ہے۔‘ ‘
’’محبوب کی جدائی میں میرا دل غم سے لبریز ہے
جیسے برسات میں میدانوں میں جھاڑیاں اُگ
آتی ہیں۔‘ ‘
’’میرے دل
اور محبت کا وہی عالم ہے جو نمک اور پانی
کا ہوتا ہے۔‘ ‘
شاہ عبداللطیف کے استعاروں اور
علامتوں میں پرندوں کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔
مثلاً توتا، مور، بلبل، کوئل، کوّا،چیل، گدھ، کبوتر، شکرہ، لق لق، پن
ڈُبیّ وغیرہ۔ اُنھیں رُوحانی تجربوں کو سمجھانے
کے لیے استعمال کیا ہے۔ ’’ہنس‘ ‘ ہندوستان کا ایک قدیم
معنی خیز استعارہ ہے۔ شاہ صاحب نے بھی اسے استعمال کیا ہے،
عموماً صوفی اور عارف کی جانب اشارہ کر نے کے
لیے۔ ہنس ایک پاکیزہ پرندہ ہے۔ پرسکون پانی کی تلاش میں رہتا ہے۔
عارفوں، صوفیوں اور درویشوں کی علامت کے طور پر
شاعر نے اسے خوب استعمال کیا ہے۔ کہتے ہیں ہنس
پانی کے اندر سے قیمتی پتھر چن لاتا ہے۔ یہ کام کوئی کوّا یا
بگلا نہیں کر سکتا۔ ہنس کی تمثیل سے کیا خوب کام لیا ہے:
سارسوں سے الگ ہو کر ہنس تو بلندیوں پر چلا گیا اور
اُس مقام تک پہنچ گیا جہاں اس کے محبوب کا مسکن ہے
اس کی نگاہ میں عمیق گہرائیوں پر جمی ہوئی ہیں
وہ اُن موتیوں کا خواہش مند ہے جو تہہ میں پڑے ہوئے ہیں۔
’ہنس‘ بلندیوں کا بھی عاشق ہے اور پانی کی گہرائیوں پر بھی فریفتہ ہے۔
شاہ عبداللطیف کے کلام میں بھی عشق بنیادی جوہر ہے۔
کہتے ہیں عشق کا وصف بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ عشق کی
تشنگی ایسی ہے کہ سمندر پی جائے پھر بھی پیاس بجھتی نہیں۔ اُن
کی جمالیات اور رُومانیت میں حسنِ الٰہی
اور حسنِ انسان اور حسنِ کائنات تینوں کو اہمیت
حاصل ہے۔ ساتھ ہی اُنھیں اس بات کا احساس ہے کہ حسنِ
انسان اور حسنِ کائنات حسنِ الٰہی کے پرتوں
میں میرا محبوب سامنے آ جائے تو آفتاب کی کرنیں
ماند پڑ جائیں۔ چاند کی تابناکی جاتی رہے اور ستارے
سجدے میں گرجائیں۔ ایک جگہ فرماتے ہیں زمین پر
چلتی پھرتی خوبصورت صورتوں کو چھوڑ کر اپنی آنکھیں بند کر
لو اور حقیقی محبوب کی تلاش کرو۔
شاہ عبداللطیف کی صوفیانہ شاعری احساسِ ذات اور مادّی
حسن کو دُور رکھ کر استغراق میں ڈوبی نظر آتی ہے۔ کہتے
ہیں محبوب کے بغیر تو میری سانس ہی نہیں چلتی۔
اللہ اور صرف اللہ میرے دل پر حکومت کرتا ہے۔
’’سسّی پنوں‘ ‘ شاہ عبداللطیف کا شاہکار کارنامہ ہے۔ اس کا
تجزیاتی مطالعہ کیا جائے تو ایک جانب رُوح اور جسم کی
قدر و قیمت کا اندازہ ہو گا اور دوسری جانب شاعر کی جمالیات
کی جہتوں کی پہچان ہو گی۔ مناظرِ فطرت کے جمال سے
پرندوں کے حسن تک اور مختلف قسم کی خوشبوؤں
سے قیمتی پتھروں تک ان کی جمالیات پھیلی ہوئی ہے۔ ان کا
رُومانی ذہن ’سسّی پنوں ‘ کی حد درجہ رُومانی کہانی کو بڑی شدّت
سے متحرّک کرتا ہے۔ منظوم کہانی کے کچھ حصّے ایسے
ہیں جہاں مشک و عنبر کی خوشبو پھوٹتی ہے۔ زلفیں عطر
چنبیلی میں بسی ملتی ہیں۔ محبوب ایسا پیکر بن جاتا ہے کہ
آنکھیں اسے بس حیرت سے تکتی ہی رہتی ہیں۔ شاعر جب
حجرے میں عود کی خوشبو اور مشک پر شک کی
خوشبو اور زلفوں پر صندل کے لیپ کا ذکر کرتا
ہے تو اس کے احساسِ جمال میں بڑی کشش محسوس ہوتی ہے۔
قصّے میں کہیں موسمِ بہار کا ذکر ہے کہیں
پھولوں اور لونگ الائچی، عود و عنبر اور عطر چمیلی کی
خوشبوؤں کا ذکر، سسّی پنوں کی کہانی جانے کتنی
خوشبوؤں سے بھر گئی ہے۔
صوفیانہ
تجربوں سے لبریز قصّوں میں سسّی پنوں کی
اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ اس میں سسّی عاشق ہے
اور سسّی کی رُوح کی بے قراری شاعر کی رُوح کی بے قراری ہے۔
پنوں غائب ہو جاتا ہے تو سسّی تلاش میں نکلتی ہے۔
جانے کتنے دُشوار گزار راستوں سے گزرتی ہے۔ راہ
میں ریگستان آتے ہیں، پہاڑی درّے آتے ہیں، پنوں،
جو خالقِ کائنات کی علامت ہے اس کی تلاش غیر معمولی تصویر پیش کرتی
ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭