صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
رسول اللہؐ کے تصرفات کی مختلف حیثیتیں
اور فقہی احکام پر ان کے اثرات
محمد عارف جمیل مبارک پوری
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
رسول اللہؐ سے صادر ہونے والے اقوال و افعال اور ان کی حیثیتیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے صادر ہونے والے افعال و اقوال مختلف حیثیتوں کے حامل ہوا کرتے تھے، کبھی تو بہ حیثیت امام المسلمین کوئی حکم صادر فرماتے، کبھی بہ حیثیت مفتی، اور کبھی دوسری حیثیتوں سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات با برکات ان تمام حیثیتوں کی جامع تھی۔ ان حیثیتوں اور مقاصدِ شریعت کی واضح تعیین کے موضوع پر جن علمائے امت نے ابتدا میں کام کیا ان میں (بہ قول ابن عاشور) امام قرافی مالکی کا نام سرِفہرست آتا ہے۔ امام قرافی اسی سلسلہ میں رقم طراز ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، امام اعظم، قاضی احکم، مفتی اعلم، امام الائمہ، قاضی قضاة، اور عالم العلما تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سبھی دینی مناصب کے اعلیٰ درجہ پر فائز تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تصرفات، فی الغالب، تبلیغ کی حیثیت سے تھے، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر رسالت کی صفت غالب تھی، بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تصرفات کچھ توبالاجماع، تبلیغ و فتوے کی حیثیت سے صادر ہوئے، کچھ بالاجماع، قاضی کی حیثیت سے، کچھ بالاجماع امامِ مسلمین ہونے کی حیثیت سے۔ اسی کے ساتھ کچھ تصرفات ایسے تھے جس کے بارے میں قطعی طور پر کچھ کہنا مشکل تھا کہ وہ مذکورة الصدر کس حیثیت کے حامل تھے۔ اس طرح کے تصرفات میں بعض علما نے ایک حیثیت کو راجح قرار دیا تو بعض نے دوسری حیثیت کو‘‘۔
قرافی آگے لکھتے ہیں:
’’ان
مختلف اوصاف کے حامل تصرفات کے، شریعت میں الگ الگ آثار ہیں۔ ظاہر ہے کہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ افعال و اقوال جو بہ حیثیت تبلیغ کے صادر
ہوئے، وہ تا قیامت، ثقلین کے لیے، ایک عمومی حکم متصور ہوں گے: اگر وہ
مامور بہ ہوں گے تو ہر شخص اپنے طور پر، کسی سے اجازت لیے بغیر اس کا
اقدام کرے گا، اور یہی حکم مباح کا بھی ہے۔ اور اگر وہ ممنوع ہو تو ہر شخص
اپنے طور پر اس سے پرہیز کرے گا۔ لیکن اگر وہ تصرف بہ حیثیت امام کے ہے تو
امام کی اجازت کے بغیر اس کا اقدام کرنا کسی کے لیے روا نہ ہو گا۔ اس لیے
کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تبلیغ کے بجائے بہ حیثیت امام تصرف کرنے کا
یہی تقاضا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو تصرف قاضی کی حیثیت سے ہے،
اس کا اقدام کرنے کے لیے، قاضی کا فیصلہ ضروری ہے، اس کے بغیر کوئی اقدام
نہیں کرسکتا۔ اس لیے کہ بہ حیثیت قاضی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وجہ سے
اس میں تصرف فرمایا ہے، اس کا تقاضا یہی ہے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال و اقوال کی یہ تین حیثیتیں،امام قرافی نے بیان فرمائی ہیں، لیکن ان کے علاوہ اور بھی حیثیتیں ہیں، جن کا بیان آگے آئے گا۔ صحابہ کرام، ان حیثیتوں کو بہ خوبی سمجھتے تھے، اور جہاں کہیں اشتباہ ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرنے میں دیر نہ کی۔ اس کی بہت سی مثالیں کتب حدیث میں بہ آسانی مل سکتی ہیں، مثلاً:
۱-
حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا، جو ایک باندی تھی، (اور ان کے شوہر مغیث غلام
تھے) اپنے مالکوں سے انھوں نے یہ معاملہ کر لیا کہ اتنی رقم دے کر آزاد ہو
جائیں گی۔ اس رقم کی ادائیگی میں مدد حاصل کرنے کے لیے وہ حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا
بیان کہ بریرہ میرے پاس آئی کہ میں نے اپنے مالکوں سے، نو اوقیہ چاندی
(سالانہ ایک اوقیہ) پر مکاتبت کر لی ہے۔ آپ میری مدد کریں۔
حضرت مغیث کو، بریرہ سے بے حد محبت تھی، لیکن بریرہ کو ان سے اتنی ہی بددلی تھی۔ شرعی طور پر آزادی کے بعد، بریرہ کو یہ حق حاصل تھا کہ اپنے نکاح کو قائم رکھیں یا توڑ دیں۔ چنانچہ انھوں نے اپنے حق کو استعمال کرتے ہوئے، علاحدگی اختیار کر لی۔ اس واقعہ سے حضرت مغیث کو بے حد صدمہ پہنچا۔ وہ خدمت نبوی میں حاضر ہوئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کی درخواست کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا سے بات کی، تو انھوں نے دریافت کیا کہ اللہ کے رسول! یہ آپ کا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حکم نہیں؛ بلکہ سفارش ہے‘‘۔ یہ سن کر انھوں نے رجوع کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کے اس طرزِ عمل پر، رسول اللہ یا صحابہ کرام کسی نے، ان کو برا بھلا نہیں کہا۔(۱)
۲- جنگ بدر کے موقع پر مسلمانوں کے قیام کے لیے جس جگہ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتخاب فرمایا، اس طرف کوئی چشمہ یا کنواں نہ تھا، زمین اس قدر ریتیلی تھی کہ اونٹ کے پاؤں زمین میں دھنس دھنس جاتے تھے، حضرت حباب بن منذر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ جو مقام انتخاب کیا گیا ہے، وہ وحی کی رو سے ہے یا فوجی تدبیر؟ ارشاد ہوا کہ وحی نہیں۔ حضرت حباب نے عرض کیا کہ تو بہتر ہو گا کہ آگے بڑھ کر چشمہ پر قبضہ کر لیا جائے۔ اورآس پاس کے کنویں بے کار کر دیے جائیں، حضرت حباب کے الفاظ تھے:
منزل انزلکہ اللّٰہ لیس لنا ان نتعداہ، ولا نقصر عنہ، ام ہو الرای، والحرب والمکیدة(۲)
٭٭٭