صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


تاریخ کے تعاقب میں

محمد داؤد طاہر

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                           ٹیکسٹ فائل

قلعہ پھروالہ سے روات تک

قلعہ پھروالہ (یا پھرہالہ) مشہور گکھڑ سردار، سلطان کیگوہر نے ۱۰۰۸ء سے ۱۰۱۵ء کے دوران تعمیر کیا تھا۔  یاد رہے کہ سلطان کیگوہر دراصل اس علاقے کا حکمران تھا جو اب بلتستان کہلاتا ہے لیکن اپنے خلاف ایک بغاوت کے نتیجے میں اسے وہاں سے راہ فرار اختیار کرنا پڑی جس کے بعد اس نے غزنی پہنچ کر امیر سبکتگین کے پاس پناہ حاصل کر لی۔  وہ ایک عرصہ تک وہیں مقیم رہا لیکن ہندوستان پر محمود غزنوی کے دوسرے حملے کے دوران وہ بھی اس کے ہمراہ یہاں آ گیا۔  سلطان نے واپس جاتے ہوئے اسے دریائے سندھ اور جہلم کے درمیانی علاقے کی حکمرانی بخش دی۔  صدیوں تک یہ قلعہ اس علاقے میں گکھڑوں کے اقتدار کی علامت بنا رہا تاوقتیکہ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اسے اپنی حکومت میں شامل کر لیا۔
بعض محققین کے نزدیک اس قلعے کی بنیاد کسی اور کے ہاتھوں رکھی گئی تھی لیکن اس اختلاف سے قطع نظر اس قلعے کی قدامت امرِ مسلّمہ ہے۔  ’پاکستان کے آثار قدیمہ‘ کے مصنف راجہ محمد عارف منہاس کے الفاظ میں ’’اس کا ذکر متعدد بار تاریخی کتب میں آیا ہے. بلبن نے منگولوں کے حملوں سے بچاؤ کے لیے کوہستان نمک سے لے کر دریائے اٹک تک متعدد چوکیاں بنوائیں اور پہلے سے موجود قلعوں کو از  سرِ نو مستحکم کیا۔  ان قلعوں اور چوکیوں کے ناظم اعلیٰ کی رہائش یہاں ہوتی تھی۔  دوسری بار اس قلعہ کا ذکر علاؤ الدین خلجی کے دور میں آیا۔  علاؤ الدین خلجی نے اس قلعہ کو اپنی سرحدی فوج کا ہیڈ کوارٹر قرار دیا تھا. تیسری بار فیروز شاہ تغلق کے عہد میں یوں ذکر آیا کہ فیروز شاہ نے دودہ شاہ حقانی کے مزار پر حاضری دی، مقبرہ بنوایا اور قلعہ پھر والہ میں قیام کیا۔ ‘‘ تزک بابری سے اس قلعے میں بابر کی آمد بھی ثابت ہے۔  اسی طرح ہمایوں نے شیر شاہ سوری کے ہاتھوں شکست کھائی تو وہ پھر والہ ہی آنا چاہتا تھا مگر اس نے اپنے بھائی کامران مرزا سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے ادھر آنے کے بجائے سندھ کا رخ کر لیا۔  کئی سال کی جلاوطنی کے بعد جب ہمایوں واپس آیا تو روایت کے مطابق اس نے اسی قلعے میں شہزادہ کامران کی آنکھوں میں سلائیاں پھروا کر اُسے اندھا کیا تھا۔
قلعہ پھروالہ کی اسی تاریخی اہمیت کے پیش نظر میں اسے اپنی اولیں فرصت میں دیکھنا چاہتا تھا لیکن سچ پوچھیں تو مجھے قطعاً علم نہ تھا کہ یہ قلعہ اسلام آباد سے بمشکل سوا گھنٹے کی مسافت پر ہے۔  یہ تو اﷲ بھلا کرے قربان کا جنھوں نے بیٹھے بٹھائے یہ مسئلہ حل کر دیا۔  ’’میرے بہت عزیز دوست ہیں ، سید نجابت حسین شاہ فوجی فاؤنڈیشن میں اکاؤنٹنٹ ہیں۔  وہ اسی علاقے کے رہنے والے ہیں۔  انہیں ساتھ لے چلیں گے تو وہاں پہنچنے میں کوئی دقت نہیں ہو گی۔ ‘‘ یوں ایک روز ہم تینوں محفوظ آباد سے ہوتے ہوئے اس مقام پر جا پہنچے جہاں پختہ سڑک ختم ہو جاتی ہے اور قلعہ پھروالہ کی پر شکوہ عمارت دیکھتے ہی ظہیر الدین بابر کا وہ بیان یاد آ جاتا ہے جس کے مطابق ’’پھروالہ ایسی جگہ پر واقع ہے جس کے دونوں طرف بڑے بڑے کھڈ ہیں اور برابر آدھ میل تک ان کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا ہے۔  چار پانچ جگہ تو یہ کھڈ نالے کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ ‘‘
’’آپ کہاں سے آئے ہیں ؟‘‘ ہمیں کار سے اترتے دیکھ کر ایک راہ گیر نے سوال کیا۔
’’اسلام آباد سے‘‘ میں نے جواب دیا ’’قلعہ دیکھنا چاہتے تھے لیکن یہاں آ کر احساس ہوا کہ قلعے میں داخلے کا صحیح راستہ شاید کوئی اور ہے۔ ‘‘
’’ویسے تو آپ ادھر سے بھی جا سکتے ہیں لیکن آپ دیکھ رہے ہیں نا، پہلے اترائی ہے، پھر ندی کے بیچ میں سے گزرنا پڑتا ہے جس کے بعد قلعے تک پہنچنے کے لیے کافی چڑھائی چڑھنا پڑتی ہے۔  اگر آپ ہمت کر سکیں تو میرے ساتھ آ جائیں ، میں وہیں جا رہا ہوں لیکن مجھے ڈر ہے آپ شاید اتنا تردّد نہ کر سکیں۔ ‘‘
’’گاڑی کا کوئی نہ کوئی راستہ تو ہو گا؟‘‘ قربان نے پوچھا۔
’’جی ہے لیکن اس کے لیے آپ کو سواں کہوٹہ روڈ پر علیوٹ سے مڑنا پڑتا ہے۔  علیوٹ سے اس قلعے تک سڑک نہ ہونے کے برابر ہے اور تمام راستہ پتھریلا ہے اس لیے یہ سفر صرف اچھی جیپ کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔ ، ،جواب ملا۔
’’یہ پروگرام تو کسی چھٹی کے روز ہی بن سکتا ہے۔  ‘‘ نجابت نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا ’’صبح صبح گھر سے چل کر دوپہر سے پہلے قلعے پہنچا جا سکتا ہے اور شام تک واپسی ہو سکتی ہے۔ ‘‘
’’ضرور بنائیں یہ پروگرام اور مجھے قبل از وقت بتا دیں تو آپ کو یہاں کوئی تکلیف نہیں ہو گی‘‘ مسافر نواز نے جواب دیا۔
’’لیکن آپ سے رابطہ کیسے ہو گا؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’میرا نام سلطان مسعود ہے۔  میرا فون نمبر لکھ لیں۔  بس ایک روز پہلے بتا دیں تو میں آپ کا منتظر رہوں گا۔ ‘‘
اس کے بعد سلطان مسعود نے ہم سے اجازت طلب کی اور ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے پہاڑی سے اتر کر بہتی ہوئی ندی کو عبور کیا اور پھر چڑھائی چڑھتے ہوئے قلعے کی بھول بھلیوں میں غائب ہو گیا۔
’’اتنا آسان کام تھا۔  خواہ مخواہ اس نے ہمیں ڈرا دیا۔ ‘‘ قربان نے کہا ’’ ہم اس قلعے کا ٹنٹنا آج ہی ختم کر سکتے تھے۔ ‘‘
’’قلعے کا ٹنٹنا ختم کرتے کرتے ہم اپنا ٹنٹنا ہی نہ ختم کر بیٹھیں۔ ‘‘ میں نے کہا ’’ہم بھول رہے ہیں کہ یہ شخص یہیں کا رہنے والا ہے اس لیے وہ تو چھلاوے کی طرح ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا ہے لیکن ہم اگر ایک بار یہ کھائی پار کر بھی گئے تو واپسی آسان نہ ہو گی۔ ‘‘
ایک مشکل سے راستے سے ہوتے ہوئے ہم ایک بہت بڑی چٹان پڑ بیٹھ گئے جہاں سے قلعے کا منظر اور واضح ہو گیا تھا۔
’’کاش ہم اپنے ہمراہ کیمرہ لے آتے تو اس خوبصورت منظر کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کر سکتے تھے۔ ‘‘ میں نے کہا۔
’’خیال ہی نہیں رہا۔ ‘‘ قربان نے جواب دیا ’’ورنہ یہ تو کوئی ایسی مشکل بات نہ تھی۔ ‘‘
سفر خواہ مختصر ہو یا طویل اور آسان ہو یا مشکل، مسافر کو تھکا ہی دیتا ہے۔  یہی کچھ ہمارے ساتھ ہوا تھا۔
’’ہم اس تھکن کو کسی حد تک کم کر سکتے ہیں۔ ‘‘ نجابت نے خوشخبری سنائی ’’میں آتے ہوئے چکن سینڈوچز اور چائے کا سامان ساتھ لے آیا تھا۔  ‘‘
ہم ان سینڈوچز سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ کسی اجنبی نے بہ آواز بلند سلام کر کے ہمیں چونکا دیا۔  ’’میر انام راجہ گل اصغر ہے۔  پھر والہ کا رہنے والا ہوں ‘‘ اس نے بتایا اور پھر پوچھنے لگا ’’آپ یہاں کیسے بیٹھے ہیں ؟‘‘
جب ہم نے اس کو تفصیلی جواب دیا تو وہ کہنے لگا
’’آپ دن کو آتے تو اس قلعے کی سیر سے کماحقہ لطف اندوز ہو سکتے تھے۔ ‘‘
’’اب تو جو ہونا تھا ہو چکا۔  اﷲ نے چاہا تو ہم یہ قلعہ اندر سے دیکھنے کے لیے دوبارہ آئیں گے۔ ‘‘
’’ضرور، لیکن مجھے میزبانی کا موقع دینا نہ بھولیے۔ ‘‘ پھر اس نے کہا ’’آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ ہم آج بھی بہت مشکل حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔  یہ تو غنیمت ہے کہ یہاں تک سڑک بن گئی ہے لیکن اگلا راستہ خاصا مشکل ہے۔  برسات میں سواں کا پانی چڑھ جاتا ہے تو جان کو خطرے میں ڈالے بغیر یہاں سے گزرا نہیں جا سکتا۔  کاش! حکومت یہاں پل بنا دے اور اگر وہ پختہ پل کے اخراجات کی متحمل نہیں ہو سکتی تو رسوں کے پل سے بھی کام چل سکتا ہے لیکن کوئی کچھ کرے تو سہی۔ ‘‘
’’اسمبلی میں اپنے نمائندے کے ذریعے یہ مطالبہ اوپر پہنچائیں۔ ‘‘ نجابت نے تجویز دی۔
’’سب کچھ کر کے دیکھ لیا ہے، لیکن کوئی ہماری نہیں سنتا۔  آپ شاید جانتے ہوں گے کہ اس گاؤں نے کئی معتبر افراد کو جنم دیا ہے لیکن وہ بھی شہروں ہی کے ہو کر رہ گئے ہیں۔  مجھے نہیں یاد ان میں سے کوئی کبھی یہاں آیا ہو حالانکہ ان کے آباؤ اجداد کی ہڈیاں اسی مٹی میں دفن ہیں۔ ‘‘ گل اصغر کے لہجے میں شکوہ تھا۔
جب ہم پھر والہ کی طرف رواں دواں گل اصغر کو ہاتھ ہلا ہلا کر الوداع کر رہے تھے تو ایک بار پھر احساس ہوا کہ قلعہ پھروالہ کی فصیل اونچے نیچے پہاڑوں پر کس شان سے دُور دُور تک پھیلی ہوئی ہے اور اگرچہ جزئیات زیادہ واضح نہیں ہیں ، اندازہ ہو رہا ہے کہ اپنے محلِ وقوع کے اعتبار سے یہ قلعہ واقعی ناقابل تسخیر ہو گا۔
’’میں نے پڑھا ہے کہ اس قلعے کے چھ دروازے ہیں ، ہاتھی دروازہ، قلعہ دروازہ، لشکری دروازہ، زیارت دروازہ، باغ دروازہ اور بیگم دروازہ ،اور یہ کہ اس قلعے میں ہر وقت سو ہاتھی، پانچ ہزار گھوڑے اور دس ہزار پیادہ فوج موجود ہوا کرتی تھی۔ ‘‘ میں نے اپنے رفیقان سفر کو بتایا ’’لیکن اب اس کی فصیل گر رہی ہے اور دروازے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔  آثار قدیمہ والوں کی اس طرف توجہ ہے نہ کسی اور کو اس جگہ کے ساتھ کوئی دلچسپی ہے۔  بنانے والوں کا کمال دیکھیں کہ سینکڑوں سال گزرنے کے باوجود قلعہ ابھی تک قائم ہے ورنہ جس طرح یہ عمارت نظرانداز ہوتی رہی ہے اسے بہت پہلے صفحۂ ہستی سے مٹ جانا چاہیے تھا۔ ‘‘ ’’کیا لکھا ہوا ہے کتابوں میں ؟‘‘ قربان نے سوال کیا۔
’’فصیل اور دروازوں کے علاوہ کوئی پرانی عمارت اب پورے طور پر باقی نہیں ہے۔  گاؤں کے سارے گھر زمانہ حال ہی میں تعمیر ہوئے ہیں۔ ‘‘ میں نے جواباً کہا۔
ہمیں افسوس تھا کہ ہم نہ تو یہ قلعہ اندر سے دیکھ سکے اور نہ وہ مسجد اور مزار جو دریائے سواں کے اسی پار قدرے بلندی پر واقع ہیں۔  ہمارے راستے میں تو تنگی وقت حائل تھی، آپ کو تو ایسا مسئلہ درپیش نہیں ہے لہٰذا آپ یہ قلعہ ضرور دیکھیے لیکن جائیں سواں کہوٹہ روڈ کی طرف سے۔
اگر ہم قلعہ پھروالہ سے واپس جی ٹی روڈ پر آ جائیں تو روات پہنچ جاتے ہیں جو ایک قدیم آبادی کا نام ہے۔
اقتباس)

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                           ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول