صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


ترقی پسند ادب اور ترقی پسند

ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں  

 ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

اسرارالحق مجاز کی آوارہ مزاجی

 رفعت سروش


شہر کی رات اور میں ناشاد و ناکارہ پھروں

جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں

غیر کی بستی ہے کب تک دربدر مارا پھروں

اے غمِ دل کیا کروں ، اے وحشتِ دل کیا کروں


یہ اشعار نہ جانے ان کتنے لوگوں کے دل کی آواز ہیں جو بمبئی جے سے شہر میں تلاشِ معاش میں آتے ہیں اور اَن تھک جدوجہد کے بعد پیٹ کے لئے دو روٹی اور سر چھپانے کے لئے کوئی جھگی جھونپڑی یا کھولی حاصل کرتے ہیں ۔ یہ اشعار اس شاعر کے ہیں جو کبھی علی گڑھ سے جگمگاتے شہر سے دہلی آیا تھا اور اس نے یہ لازوال نظم کہی تھی ’آوارہ‘۔ مجاز اردو شاعری کے ترقی پسند دور کا ایک لیجنڈ ہے اور اسے اس کی آوارہ مزاجی بمبئی بھی لائی تھی۔ مشاعرے پڑھنے تو وہ پہلے بھی ممبئی آیا ہو گا مگر ۱۹۴۶ء میں وہ بمبئی آیا اور کئی ماہ رہا۔ اس کی یہ نظم فلمائی بھی گئی۔ وہ ۱۹۴۷ء میں تقسیمِ وطن سے پہلے فسادات کے دوران بمبئی میں تھا۔ اس کی رہائش سیّد سجاد ظہیر کے گھر تھی اور دن کا زیادہ وقت گزرتا تھا سینڈھرسٹ روڈ پر واقع کمیونسٹ پارٹی کے دفتر میں ۔ زمانہ بہت پُر آشوب تھا۔ مجاز نے بہت پہلے ایک نظم کہی تھی انقلاب پُر امن نہیں خونیں انقلاب مجاز نے تصور کیا تھا کہ ہر جگہ خون کی ہولی کھیلی جائے گی۔ بہت طویل نظم ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’مسجدوں میں خوں ، کلیساؤں میں خوں ، مے خانوں میں خون ، شبستانوں میں خوں ، کاشانوں میں خوں ، گلیوں اور بازاروں میں خوں ‘‘ اور مجاز نے لکھا کہ خون کی ہولی کھیلتا ہوا۔ آخر کار۔ با  ہزاراں آب و تاب۔ یخ۔’’ وطن کی حریت کا آفتاب‘‘


شاعر کا تصور حقیقت میں بدل گیا۔ اس کی پیشین گوئی صحیح ہوئی۔ لیکن قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ جس کے تصور میں اس قدر خونی منظر تھے ، جب اس نے اس تصور کو حقیقت میں ہوتے دیکھا اور فسادات کے دوران کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے دفتر کے نیچے سینڈھرسٹ روڈ پر اس کی عقابی آنکھوں نے کئی لوگوں کو اپنے خون میں نہاتے اور غنڈوں کے خنجروں کا نشانہ بن کر دم توڑتے دیکھا تو اس شاعر کا نازک دل ان مناظر کی تاب نہ لاسکا۔ سردار جعفری کا بیان تھا کہ مجاز تقریباً تین روز تک بے ہوش رہے ۴۷ء کے انجمن ترقی پسند مصنّفین کے جلسوں میں مجاز باقاعدہ شریک ہوتے تھے ۔ تنقیدی گفتگو میں حصہ لے تے تھے ۔ کبھی کبھی جلسوں کی صدارت بھی کرتے تھے مجاز نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ ہوش اور بے ہوشی کے درمیان کی ایک عجیب کیفیت میں گزارا۔


آج اگر کہا جائے کہ مجاز نے ’’پاکستان ہمارا‘‘ قسم کا نغمہ لکھا تھا تو شاید کسی کو یقین نہ آئے کیونکہ مجاز بلاشبہ ایک قوم پرست شاعر تھے ۔ اور تقسیمِ وطن کے بعد جوش ملیح آبادی جیسا شاعرِ انقلاب تو اپنی ’عاقبت سنوارنے ‘ پاکستان چلا گیا تھا، مگر مجاز جس کے نامۂ اعمال میں ’پاکستان ہمارا‘ جیسا نغمہ بھی ہے ، پاکستان نہ گیا بلکہ اس نے اسی شہر میں جان دی جس کے لئے اس نے کہا تھا:


کچھ دیر کا مسافر و مہماں ہوں اور کیا

کیوں بدگماں ہیں یوسفِ کنعانِ لکھنؤ

اب اس کے بعد صبح ہے اور صبحِ نو مجاز

ہم پر ہے ختم شامِ غریبانِ لکھنؤ

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول