صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


تنقیدی رویئے

ڈاکٹر شیخ عقیل احمد

جمع و ترتیب:اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                             ٹیکسٹ فائل

        صلاح الدین پرویز:یادوں کے چمن میں

27 اکتوبر 2011،  جمعرات کی صبح حقانی القاسمی نے جب مجھے یہ خبر دی کہ صلاح بھائی رات ڈیڑھ بجے اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے تومیرے پاؤں تلے سے زمین کھسک گئی اورمحسوس ہوا کہ ادب کاشہنشاہِ جذبات،عروضی اور دیگر تکنیکی پابندیوں کو توڑ کر ندی کی تیزد ھارا کی مانند اپنا الگ راستہ بنانے والا منفرد اور شیریں لب و لہجے کا شاعراس دنیا سے رخصت ہو گیا۔میرے تصور میں دسمبر 2002 (دو ہزار دو) کے پہلے ہفتہ کی ایک شام کا واقعہ یاد آنے لگا جب پہلی بار صلاح الدین پرویزکی تحریروں کے ذریعہ ان کی تخلیقی روح سے متعارف ہوا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، تقریباًساڑھے سات یاآٹھ بجے ہوں گے۔سردی اپنے شباب پر تھی۔ میں رضائی کے اندر Relax موڈ میں لیٹا ہوا تھا کہ اچانک میری نظر سائڈٹیبل پررکھے’’استعارہ‘‘پر پڑی جسے میں اسی دن دہلی اردو اکیڈمی کے سکریٹری ڈاکٹر منصورعثمانی سے مانگ کر لایا تھا۔میں اسے اٹھا کر ورق گردانی کرنے لگا۔حسب معمول سب سے پہلے اس کا اداریہ پڑھا۔اداریہ پڑھنے کے بعد میں نے ایک خط کو پڑھاجسے ’آج کل‘کے ایڈیٹرمحبوب الرحمٰن فاروقی نے صلاح الدین پرویز کو لکھا تھا۔اس خط کے جواب میں صلاح الدین پرویزکا ایک نہایت دلچسپ خط شائع ہوا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ خط نہیں جذبات کا دریا ہے جس کی تندوتیز بہاؤ میں بس بہتے چلے جا رہے ہیں۔ اسی خط میں صلاح الدین پرویزنے اپنی ایک پرانی نظم’’کنفیشن‘‘بھی درج کی تھی جو سچ مچ ان کی زندگی کا ایک اہم کنفیشن تھی جس نے بہت سے ادیبوں کی نیند اڑادی ہو گی۔سچ تو یہ ہے کہ صلاح الدین پرویزکاوہ خط اور ان کی نظم نے میری بھی نیند اڑادی تھی اور ان کی شخصیت میرے حواس پر چھانے لگی تھی۔’’استعارہ‘‘ میں شامل ان کی دوسری نظموں، خطوط اور مضامین کے تئیں رفتہ رفتہ میری دلچسپی بڑھنے لگی اور ایک ایک کر کے ان کی تمام تحریریں ’’چہاردرویش کی کہانی‘‘، ’’نظم عین رشید‘‘، ’’یہ دکھ کے سارے راستے‘‘،’’دھوپ کی آواز‘‘، سنت اورشام‘‘،’’مجروح‘‘ ’’مبارک اور ممبئی‘‘،’’باب غزل کا دیباچہ لکھنے کی کوشش‘‘ اور ’’باب نظم کا دیباچہ لکھنے کی کوشش‘‘وغیرہ وغیرہ پڑھ چکا۔ ان کی تحریروں کو پڑھتے ہوئے چھ گھنٹے کیسے بیت گئے مجھے احساس ہی نہیں ہوا۔معلوم ہوتا تھا کہ ان کے الفاظ جذبات کی آگ میں پگھل کردل کی دھڑکن اور سانسوں کے نشیب وفرازسے ہم آہنگ ہو کر ابھی ابھی استعارہ کے ان صفحات پر وارد ہوئے ہیں۔ مجھے یہ بھی محسوس ہو رہا تھا کہ ان کے پگھلے ہوئے الفاظ غنائی تنظیم وترتیب میں ڈھل کرنغمہ ومعنی کے محیط دائرے کی صورت میں مرتعش ہوتے جارہے ہیں۔ ان کے الفاظ میں مجھے کبھی جھنکار سنائی دیتی تھی تو کبھی گمان ہوتا تھا کہ یہ الفاظ گنگنا رہے ہیں اور جمال و جلال ایک پیکر کی صورت میں کسی منزل کی طرف پیغام زندگی گاتے ہوئے گام زن ہو رہے ہیں۔ شاید ان کی تحریروں میں ان کی روح پورے آب وتاب کے ساتھ موجودتھی۔رفتہ رفتہ میرا پورا وجودبھی ان کی تحریروں کے ساتھ گنگنانے اور رقص کرنے لگا۔یہاں تک کہ ان کی تحریروں میں جو جذبات کی شدّت تھی اس کی تپش سے میں خودکو پگھلتا ہوا محسوس کرنے لگا۔رفتہ رفتہ مجھے گرمی محسوس ہوئی اور میں بیڈ روم سے باہر نکل کر ڈرائنگ روم میں ٹہلنے لگا۔ صلاح الدین پرویز کے الفاظ،جملے اور مصرعے میرے کانوں میں گونجنے لگے۔ دیوار گھڑی کی طرف نظر گئی تو معلوم ہوا کہ رات کے ڈیڑھ بجے ہیں۔ اس وقت ساری دہلی یقیناًسو رہی ہو گی لیکن میں عجیب وغریب کیفیت سے دو چار ہو رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد میں بیڈ روم میں گیا اور’’استعارہ‘‘کے ابتدائی صفحات میں صلاح الدین پرویز کا فون نمبر ڈھونڈھنے لگا لیکن فون نمبر ان صفحات میں کہیں درج نہیں تھا۔ ورنہ اسی وقت میں انہیں اپنے تاثرات سے آگاہ کرتا کہ صلاح الدین پرویزآپ اس عہد کے سب سے بڑے ادیب اورلفظوں کے جادوگر ہیں۔ آپ اس دور کے جینیس ہیں۔ آپ کاکوئی ثانی نہیں ہے۔آپ کی نثرونظم میں یکساں افکارومحسوسات کاایک حسین تاثرموجودہے۔آپ کی تحریریں اردو،ہندی،انگریزی،فارسی اور عربی کی کلاسیکی،نو کلاسیکی،جدید اور ہم عصر ادبیات نیز مشرقی تہذیب،فلسفہ، جمالیات اورمذہبیات کا نایاب خزانہ ہیں۔

اس طرح کی کیفیت زمانۂ طالب علمی میں مجھ پر اس وقت ہوتی تھی جب میں رات کی تنہائی میں علامہ اقبال کی نظمیں پڑھتا تھا۔خاص کر نظم ’’شکوہ‘‘اور ’’جواب شکوہ‘‘پڑھتے پڑھتے میں اٹھ کر بیٹھ جایا کرتا تھا میری آنکھوں سے آنسو نکلنے لگتے تھے۔لیکن ان دونوں کیفیتوں میں فرق تھا۔اقبال کی نظموں کو پڑھ کر جو کیفیت طاری ہوئی تھی اس کا تعلق عشق خدا اور رسول سے تھا لیکن صلاح الدین پرویز کی نظموں اور تحریروں کو پڑھ کر جو کیفیت طاری ہوئی تھی اس کا تعلق نئی آواز میں غیبی معلومات کی بے شمار جہات سے تھاجنہیں میں اپنے اُوپر نزول ہوتے ہوئے محسوس کررہاتھا۔

کئی دنوں تک صلاح الدین پرویزکی تحریروں کااثرمیرے دل ودماغ پر چھایا رہا اورمیں اپنے دوستوں سے اس واقعہ کا ذکر کرتا رہا۔ میرے دوستوں میں سے کسی نے صلاح الدین پرویزسے میرا غائبانہ تعارف کرایااور یہ بھی بتایا کہ ان کی تحریرپڑھ کر مجھ پر کیا گذری ہے۔ایک دن شعیب رضا فاطمی صلاح الدین پرویز سے ملاقات کرانے کے لیے مجھے غفار منزل میں واقع’’استعارہ‘‘کے دفتر لے گئے۔  دفترمیں چاروں طرف کتابیں بکھری ہوئی تھیں۔ بیشتر کتابوں کو دیمک چاٹ گئی تھی۔ان کتابوں اور دفتر کے اندرونی حصّے سے سیلن Dampness)) کی بدبو آرہی تھی۔دفترمیں موجود دوسری چیزیں بھی بکھری پڑی تھیں۔ وہاں چند حضرات بیٹھے ہوئے تھے جن کی شکل صورت اور حالتِ زار دیکھ کر میں سمجھ گیا تھا کہ یہ حضرات یقیناً اردو کے شاعروادیب ہوں گے۔انہیں لوگوں کے درمیان سفید لباس میں ملبوس گورے رنگ اور درمیانہ قد کا ایک شخص صوفہ سیٹ پر بیٹھا تھا ان کے سامنے میز پر پانی کی ایک بوتل اور کالے رنگ کا ایک چشمہ رکھا ہواتھا۔دفترمیں جو بے ترتیبی اور انتشار نظر آرہا تھا وہی بے ترتیبی اوربکھراؤ اس شخص میں بھی تھا۔شعیب رضا فاطمی نے ان سے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہی صلاح بھائی ہیں۔ پھر میرا تعارف ان سے کراتے ہوئے کہا کہ یہ عقیل بھائی ہیں۔ آپ کے بہت بڑے مداح۔صلاح الدین پرویز نے ڈھیلے ڈھالے اندازمیں گفتگو کی شروعات کی۔ان کا اندازگفتگو اوربدن کے لسان سے معلوم ہو رہا تھا کہ ان کے اندر خوداعتمادی کی کمی ہے اور لااُبالی پن کا تھوڑا سا شائبہ بھی ہے۔بات چیت کے دوران جب میں نے انہیں بتایا کہ ان کی تحریروں کو پڑھ کر مجھ پر کیا گذری ہے تو فوراً ان کا Body language اور بات کرنے کا انداز بدل گیا اور انہوں نے کہا کہ آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں اسے لکھ کر دیجئے۔میں نے پہلے ٹالنے کی کوشش کی لیکن ان کے اصرار پر اسی وقت لکھ کر انہیں دے دیا اور انہوں نے اسے استعارہ کے اگلے شمارہ میں بابِ ربط کے تحت شائع بھی کیا۔اس سے پہلے نہ میں ان سے کبھی ملا تھا اور نہ انہیں پہچانتا تھا البتہ دہلی کے ادبی حلقوں میں نئی نسل کے حوالے سے جب بھی جدید نثری نظم کی بات ہوتی تھی تو صلاح الدین پرویزکا ذکر ضرورہوتا تھا لیکن میں نثری شاعری کو شاعری ہی نہیں سمجھتا تھا۔ دوسری بات یہ کہ ان کے متعلق اکثر کہا جاتا تھا کہ صلاح الدین پرویز کے پاس بے انتہا دولت ہے جسے وہ دونوں ہاتھوں سے لٹاتے ہیں اور ہر وقت وہ چمچوں اور چاپلوس بازوں سے گھرے رہتے ہیں۔ اس لیے  صلاح الدین پرویز سے نہ کبھی میں نے ملنے کی کوشش کی اور نہ ضرورت سمجھی۔ لیکن اس ملاقات کے بعد ان سے ملنے اور ان کی تخلیقات پڑھنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ایک ایک کر کے ان کی کئی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ ان کی بیشتر نظموں اور ایک ناول ’’دی وار جرنلس‘‘کا مطالعہ بطورِ خاص کیا۔ میرے خیال میں موجودہ دور میں اختر ا لایمان کے بعدجن شاعروں نے نظم میں نت نئے تجربے کیئے ہیں ان میں صلاح الدین پرویزکا نام نمایا ں طور پر لیا جا ئے گا۔صلاح الدین پرویز کی تخلیقات میں بین المتنیت کے علاوہ تہذیب و ثقافت کی گہری بصیرت موجودہے۔ انہوں نے نظم میں ایک ساتھ کئی تجربے کرتے تھے اور یہ صرف بین المتنیت کے اقدار سے قریب ہونے کی وجہ سے تھا۔وہ نثری نظموں میں با وزن اشعار کی تضمین اتنی خوبصورتی سے کر دیتے تھے کہ نظم جاگ اٹھتی تھی اس پر طرہ یہ کہ ان کی زبان لوک بھاشا کی خمیر سے تیار ہوئی تھی۔پوربیا،بھوجپوری،پنجابی،اور اردو کا خالص انداز ان کی نظم کی زبان کو پوری اردو شاعری سے الگ کر دیتا ہے۔صلاح الدین پرویزنے نثری نظم کو واقعتاایک ایسی شاعری بنا دی ہے جسے نثری نظم کا جواز کہا جا سکتا ہے۔مثالیں بہت ہیں میں صرف ان کی نظموں میں پائے جانے والے موسم کے احساس کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرنا چاہتا ہوں۔ ۔۔۔۔    اقتباس

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں  

   ورڈ فائل                                             ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں  مشکل؟؟؟

یہاں  تشریف لائیں ۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں  میں  استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں  ہے۔

صفحہ اول