صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


تنقید اور ادبی تنقید

کلیم الدین احمد

ڈاؤن لوڈ کریں 

      ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

                                  اقتباس

’’تنقید ہماری زندگی کے لیے اتنی ہی ناگزیر ہے جتنی سانس‘‘۔


یہ جملہ ایلیٹ کا ہے اور میری نظر میں بڑا عمیق اور بڑی گہرائی اپنے اندر رکھتا ہے۔ گرچہ شواہد ایسے موجود ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ خود ایلیٹ کے نزدیک کوئی عمق اور کوئی گہرائی اس جملے میں نہ تھی۔ یہ بات اتفاقاً کسی اضطراری جذبے کے ماتحت اس کے قلم سے نکل گئی تھی، اسے محسوس تک نہ ہوا کہ وہ کیا کہہ گیا۔ حالاں کہ اس سیدھے سادے جملے نے واقعتا سب سے بڑی اور بیش بہا صداقت کا سرا تھام لیا ہے، اس جملے کو ایک مرتبہ پھر پڑھیے، وہ کہتا ہے: ’’تنقید ہماری زندگی کے لیے اتنی ہی ناگزیر ہے جتنی سانس‘‘ اور یہ واقعہ ہے کہ تنقید ایک فطری نعمت اور بیش بہا ودیعت ہے، اتنی ہی فطری اور بیش بہا جتنی کہ ’بینائی‘ یا ’گویائی‘ کی نعمت ہے بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ۔ لیکن بینائی یا گویائی ہی کی قدر و قیمت کو ہم پوری طرح کب پہچانتے ہیں ؟ عام طور پر تو لوگوں نے بس فرض سا کر لیا ہے کہ ہاں یہ چیزیں بھی ہیں حالاں کہ یہ چیزیں بھی اتنی ہی ناگزیر ہیں جتنی کہ نفس کی آمد و شد ہمارے لیے ناگزیر ہے۔ اصل یہ ہے کہ نعمتوں کی ’فطرتیت‘ اور ’ناگزیری‘ نے ان کی حقیقی قدر و قیمت اور حیثیت اور منزلت کو ہماری نظر سے اوجھل کر دیا ہے، بچہ اپنی آنکھوں کو استعمال کرتا ہے اور ان کا استعمال خود بخود ہی سیکھتا ہے، اس کی قوتِ گویائی نشوونما پاتی ہے تو اس کی نشوونما بھی تقریباً آپ ہی آپ ہوتی ہے۔ اس میں ایک بات یہاں اور جوڑ لیجیے کہ بچے کی تنقیدی صلاحیت و استعداد بھی اسی طرح بالکل فطری اور طبعی انداز سے خود بخود بڑھتی اور ابھرتی ہے، یہ صلاحیت بڑی دھیمی رفتار سے ابھرتی ہے اور بالکل غیر مرئی ہوتی ہے اگرچہ ایک مرحلہ ایسا بھی آتا ہے جہاں ہم اسے دیکھ بھی سکتے ہیں کہ فرق و تمیز کی صلاحیت بچّے کے اندر صاف نمایاں ہے مثلاً دو کھلونے اس کے سامنے رکھ دیجیے پھر دیکھیے ان میں سے ایک کو وہ پسند کر لے گا اور دوسرے کو صاف رد کر دے گا۔


    فرق و تمیز کی اس صلاحیت کا ظہور ہوتا تو آغاز ہی سے ہے مگر ابتدا میں وہ ’طبعی جبلّت‘ کا انداز لیے ہوتی ہے، بچہ تمیز تو کرتا ہے مگر اس معاملۂ تمیز میں وہ کسی ناقابلِ فہم جبلّت کے زیرِ اثر ہوتا ہے، وہ جو کچھ بھی کرتا ہے سوچ سمجھ کے نہیں کرتا۔ اسے مطلق خبر نہیں ہوتی کہ اس نے جو فلاں حرکت کی تو اس کا اصلی سبب اور محرک کیا تھا، وہ کون سی چیز تھی جو اس عمل کی موجب ہوئی یا اگر کچھ آگہی اس کو ہو گی بھی تو بہت ہی دھندلی دھندلی اور گول مول سی ہوتی ہو گی وہ اپنے کسی عمل کے ’سبب‘ سے نہ تو پوری طرح خود آگاہ ہوتا ہے نہ اپنی اس ’معقولیت‘ سے کسی دوسرے کو آگاہ کرسکتا ہے۔ قوتِ نقد و انتقاد تو بیشک موجود ہوتی ہے مگر نا صاف اور غیر مربوط، وہ مختلف چیزوں میں تقابل کرتا ہے، امتیاز برتتا ہے، آنکتا بھی ہے اور تخمینہ بھی کرتا ہے لیکن اس کا یہ آنکنا اور تخمینہ کرنا انتہائی نجی اور شخصی نوعیت کی چیز ہوتی ہے اور اتنی ہی ڈانواں ڈول بھی، یعنی اس میں استقلال بالکل نہیں ہوتا اور جیساکہ ابھی میں نے کہا، اس کی یہ کیفیت نہایت مبہم سی اور بے ربط ہوتی ہے۔


    نقد و انتقاد اور فرق و امتیاز کی واضح اور مربوط صلاحیت کی کمی جس طرح بچوں میں ہوتی ہے اسی طرح جوانوں میں بھی ہوتی ہے، اس معاملے میں دونوں ملتے جلتے سے ہیں۔ عام طور پر ایک جوان آدمی بھی ان اسباب و وجوہ کی کوئی معقول توجیہ نہیں کرپاتا جن کی بنا پر اس کی پسند اور ناپسند کا جذبہ حرکت میں آتا ہے اور وہ ایک چیز کو تو قبول کر لیتا ہے اور دوسری کو مسترد کر دیتا ہے، بعض خاص چیزوں کو دوسری چیزوں پر ترجیح دیتا ہے، ان میں باہم مقابلہ کرتا ہے ان کی قدر و قیمت کا اندازہ لگاتا ہے اور ایک خاص احساس کی سی کیفیت اس کے اندر پائی جاتی ہے، مگر پوچھیے کہ وجہ ترجیح کیا ہے، تو عموماً وہ یہی کہے گا کہ ’بس مجھے پسند ہے‘۔ یہ انداز بیان کے اندر کوئی بات  نہیں ہوتی۔ آج تنقید کے نام سے بھی جتنی چیزیں گزر رہی ہیں ان میں بھی آپ یہی نقص پائیے گا۔ ان میں بڑی طلاقت اور بڑا طنطنہ ہو گا، الفاظ و عبارات کی بھی خوب ہی بہتات ہو گی، دلائل بھی بڑے شاندار ہوں گے اور زاویۂ نظر بھی بڑے شعور اور تمیز داریوں کا حامل معلوم ہو گا، لیکن غور کیجیے تو ان کی حیثیت بھی بنیادی طور پر اس جملے سے بہت زیادہ مختلف نہ ہو گی جو عام طور پر لوگ اپنی روزمرہ کی پسند اور ناپسند کے معاملے میں ظاہر کرتے رہتے ہیں، یعنی وہی بے خبری، عناصر و اصول کی وہی  بے شعوری، خود اپنے صادر کردہ فیصلوں کی نوعیت کی طرف وہی ریلا من موجی پن کا، اور وہی فقدان نظم و ترتیب، اس لطافت و نزاکت کا جو تسلّی بخش کیفیات و نتائج کی واحد ضمانت تھی۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں      

      ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول