صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


تانیثی تنقید

شہناز نبی

ڈاؤن لوڈ کریں 

 ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

عورت اور لغات۔ اقتباس

    عورت کے ساتھ ہر دور میں بے اعتنائی برتی گئی ہے۔ اگر مذاہب نے اسے دوسرا درجہ عطا کیا تو زبان و ادب نے بھی مرد کا مطیع و فرماں بردار بتانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہر زبان کا لغت اُٹھا کے دیکھئے،عورت کو برابری کا درجہ دینے کو کوئی تیار نہیں اور تو اور اس کی الگ اور قائم بالذات شخصیت کا بھی کوئی معترف نہیں۔  وہ ہمیشہ نرکی مادہ سمجھی گئی۔ وہ تصویر کا دوسرا رخ ہے یا پھرسکّے کا دوسرا پہلو۔ اردو لغات بھی زمانۂ  قدیم سے عورت کی تعریف کچھ یوں کرتے آئے ہیں  :

عورت(ع) اسم مونث۔(۱) آدمی کے جسم کا وہ حصہ یا عضو جس کا کھولنا موجبِ شرم ہے۔  اندامِ نہانی،شرم گاہ۔چنانچہ ستر عورت سے شرم گاہ کا ڈھانکنا مراد ہوتی ہے۔(۲) (مجازاً) زن،  استری، تریا، نار،ناری،  لگائی،مہرارو، (۳)(عوام) جورو، بیوی  زوجہ۔               ( فرہنگ آصفیہ، ص:۱۳۸۲)

    اب آئیے عورت کی ذات کی طرف۔ ’فرہنگ آصفیہ‘ میں مندرجہ بالا تعریف کے بعد عورت کی ذات بتاتے ہوئے اسے قابلِ رحم یا زیردست بتایا گیا ہے۔ لفظ ’زنانہ ‘ صفت کے اعتبار سے ان معنوں کا حامل ہے۔نامرد، ڈھیلا، سست، زن صفت، بزدل (ص: ۱۰۸۰)۔ لفظ زنانی کے معنی عورت و استری کے علاوہ مادین لکھا ہے۔ مونث کے معنی لکھا ہے۔  عورت، مادّہ، استری، لنگ،مادین،  نر کی ضد، زنانہ، عورت کاسا۔نساء کے بھی معنی کم و بیش وہی ہیں اوردوسری لغات سے مماثل ہیں۔ ضرب الامثال و کہاوت کے ذریعہ بھی عورت کو بے وقوف ثابت کرنے کی سعی ملتی ہے مثلاً عورت کی عقل گدی پیچھے، عورت کو عقل بعد میں آتی ہے، عورت دیر میں سمجھتی ہے، عورت بیوقوف ہوتی ہے۔

                    ( فرہنگ آصفیہ، جلد دوم، ص: ۱۳۸۲)

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

 ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول