صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


تمنّا کی سیر گاہ

عرفان ستار

جمع و ترتیب:اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

غزلیں

میری کم مائیگی کو ترے ذوق نے، دولت حرف تازہ بیاں سونپ دی
میں کہ ٹھہرا گدائے دیار سخن، مجھ کو یہ ذمّہ داری کہاں سونپ دی

قاصد شہر دل نے مرے خیمۂ خواب میں آ کے مجھ سے کہا جاگ جا
بادشاہ جنوں نے تجھے آج سے لشکر اہل غم کی کماں سونپ دی

احتیاط نظر اور وضع خرد کے تقاضوں کی تفصیل رہنے ہی دے
یہ مجھے بھی خبر ہے کہ میں نے تجھے اپنی وارفتگی رائگاں سونپ دی

تشنگی کو مرے شوق کی لہر نے کس سراب نظر کے حوالے کیا
کیسے بنجر یقیں کو مرے خواب نے اپنی سرسبز فصل گماں سونپ دی

اُس نے ذوق تماشا دیا عشق کو، خوشبوؤں کو صبا کے حوالے کیا
مجھ بگولہ صفت کو نگہبانیِ دشت وحشت کراں تا کراں سونپ دی

میری وحشت پسندی کو آرائش زلف و رخسارو ابرُو کی فرصت کہاں
تُو نے کس بے خودی سے یہ امّید کی، یہ کسے خدمت مہ وشاں سونپ دی

کارگاہ زمانہ میں جی کو لگانے سے آخر خسارہ ہی مقدور تھا
یہ بھی اچھا ہوا میں نے یہ زندگی تیرے غم کو برائے زیاں سونپ دی

اپنے ذوق نظر سے تری چشم حیراں کو تازہ بہ تازہ مناظر دیئے
تیرے پہلو میں دھڑکن جگانے کی خاطر ترے جسم کو اپنی جاں سونپ دی

دل پہ جب گُل رخوں اور عشوہ طرازوں کی یلغار کا زور بڑھنے لگا
میں نے گھبرا کے آخر تری یاد کو اپنی خلوت گہ بے اماں سونپ دی

راز داری کی مہلت زیادہ نہ ملنے پہ احباب سب مجھ سے ناراض ہیں
قصہ گو مجھ سے خوش ہیں کہ میں نے انہیں ایک پُر ماجرا داستاں سونپ دی

مجھ میں میرے سِوا کوئی تھا جو ہوس کے تقاضے نبھانے پہ مائل بھی تھا
میں نے بھی تنگ آ کر اُسی شخص کو ناز برداریِ دلبراں سونپ دی

ایک امکان کیا گنگنایا مرے چند اشعار میں، حرف اظہار میں
میں یہ سمجھا خدائے سخن نے مجھے مسندِ بزم آئندگاں سونپ دی
٭٭٭



(نذر میر)

جان دینے کو جاں نثار آیا
یعنی پھر موسم بہار آیا

اب قرار آ رہا ہے جان، مجھے
جان جانان جاں، قرار آیا

زندگی جیتنے کی خواہش میں
اک تمنّا تھی، وہ بھی ہار آیا

آنکھ تعبیر میں کھلی ہی نہیں
زندگی خواب میں گزار آیا

چین سے کوئی بھی نہیں ہے یہاں
کیا عجب عہد انتشار آیا

کچھ نہ کچھ عشق سے سبھی کو ملا
میرے حصے میں انتظار آیا

اتفاقات آ رہے ہیں نظر
جبر آیا، نہ اختیار آیا

جاں دے کر بھی جو ادا نہ ہوئے
چھوڑ کر ایسے کیا اُدھار آیا

تیرے اشکوں سے کیسے بحث کروں؟
بس مری جان، اعتبار آیا

اک خلش، وہ بھی اُس کی بخشی ہوئی
ایک غم، وہ بھی مستعار آیا

لد گئے دن ترے عروس چمن
دیکھ اب دیکھ، میرا یار آیا

اک مہک کیا اِدھر چلی آئی
دشت سے دوڑتا غبار آیا

آج غم میں کمی سے لگتی تھی
ہائے کیوں آج غمگسار آیا

آنکھ بھر کر اُسے بھی دیکھ لیا
ایک احسان تھا، اُتار آیا

جب بھی ترک سفر کا آیا خیال
سامنے سرو سایہ دار آیا

خود کو سمجھا، تو اُس کی قدر ہوئی
اُس کو دیکھا، تو خود پہ پیار آیا

ایک مصرعے پہ میر کے عرفان
اپنا سارا کلام وار آیا

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول