صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
تختی
اصغر وجاہت
آپ بیتی۔ ترجمہ: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
بگگڑ ماٹ بھائی میں اور چاہے جتنے قصور رہے ہوں وہ مارتے نہیں تھے، جب کہ اسکول کے دوسرے استاد جیسے ترپاٹھی ماٹ بھائی، کھرے ماٹ بھائی، سنسکرت کے پنڈت جی، آرٹ کے ماٹ بھائی وغیرہ کھال ادھیڑنے کے لئے مشہور تھے۔ لیکن ان سب کے مارنے کے الگ الگ طریقے ہوا کرتے تھے اور تشدد کا اظہار کرنے کے طریقے بھی جدا جدا تھے۔ جیسے کسی کو چھڑی چلانے کی اچھی مشق تھی۔ کوئی کرسی کے پائے کے نیچے ہاتھ رکھوا کر اس پر بیٹھ جاتا تھا۔ کوئی طمانچے لگانے اور کان کھینچنے میں ماہر تھا۔ کوئی مرغا بنا کر اوپر بوجھ رکھا دیا کرتا تھا۔ کوئی انگلیوں کے درمیان میں پنسل رکھ کر انگلیوں کو دبا کر ناقابل برداشت درد پیدا کرنے کا ہنر جانتا تھا۔ بہرحال، ایک ایسا باغ تھا جس میں طرح طرح کے پھل کھلے تھے۔ ہاں، ترپاٹھی ماٹ بھائی کا طریقہ بڑا بنیادی اور دلچسپ تھا۔ وہ کرسی پر بیٹھ کر لڑکے کا سر اپنے دونوں گھٹنوں کے درمیان دبا لیتے تھے اور اس کی پیٹ پر اپنے دونوں ہاتھوں سے دو ہتھڑ مارتے تھے۔ یہ کرتے وقت وہ 'بوتل بوتل 'کہا کرتے تھے۔ پتہ نہیں بوتل کیوں کہتے تھے۔ لڑکوں نے اس سزا کا نام 'بوتل بنایا' رکھا تھا۔
ایک دن کا قصہ ہے، ترپاٹھی ماٹ بھائی نے بیجو حلوائی کے لڑکے کو بوتل بنانے کے لئے اس کا سر گھٹنے میں دبایا اور دو ہتھڑ مارا۔ پتہ نہیں لڑکے کو چوٹ بہت زیادہ لگی یا وہ تڑپا مزید یا ترپاٹھی ماٹ بھائی نے اسے ٹھیک سے پکڑ نہیں رکھا تھا، وہ چھوٹ گیا۔ اٹھ کر بھاگا۔ ماٹ بھائی اس کے پیچھے دوڑے۔ وہ کھڑکی سے باہر کود گیا۔ ماٹ بھائی بھی کود گئے۔ وہ بھاگ کر اسکول کے گیٹ سے باہر نکل گیا۔ ماٹ بھائی بھی نکل گئے۔ انہی کے پیچھے پوری کلاس 'پکڑو پکڑو 'کا شور مچاتی نکل گئی۔ بھاگ دوڑ میں ماٹ بھائی کی دھوتی آدھی کھل گئی اور ان کی چوٹی بھی کھل گئی۔ پر وہ سڑک پر اس کا پیچھا کرتے رہے۔ اسکول کے سامنے تحصیل تھی۔ اس کے برابر میں کچھ ہلوایو کی دکانیں تھیں۔ بیجو حلوائی کی دکان اور اس کے پیچھے گھر تھا۔ لڑکا دکان میں گھسا اور گھر کے اندر چلا گیا۔ پیچھے پیچھے ماٹ بھائی پہنچے۔ ماٹ بھائی کہنے لگے، 'نکالو سسر کو باہر۔ ۔ ۔ اب تو جب تک ہم دل بھر کے مار نہ لیب، ہمیں کھایا پیا حرام ہے۔ ' 'پر بات کا بھئی ماٹ صاحب؟' بیجو نے پوچھا۔
'ہمارا اپمان کیس ہے۔ ۔ ۔ اور کا بات ہے۔ ' بیجو سمجھ گیا۔ اس کی بیوی بھی سمجھ گئی۔ لوگ بھی سمجھ گئے۔ تحصیل کے سامنے وکلاء کے بستوں پر بیٹھے منشی بھی اٹھ کر آ گئے۔ تھوڑی ہی دیر میں مجمع لگ گیا۔ ماٹ بھائی ضد ٹھانے تھے کہ لڑکے کو باہر نکال کر انہیں سونپ دیا جائے۔ بیجو بہانے بنا رہا تھا۔ اس لئے میں اس نے کہا کہ لڑکے نے گھر کے اندر سے زنجیر لگا لی ہے اور کھول نہیں رہا ہے۔ یہ جان کر ترپاٹھی ماٹ بھائی اور گرم ہو گئے۔ اس نازک موقع پر منشی عبدالوحید کام آئے، جو ترپاٹھی کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے۔ منشی جی نے کہا، 'ٹھیک ہے، ترپاٹھی جی، لڑکا تمہیں دے دیا جائے گا۔ جتنا مارنا چاہو مار لینا، پر یہ تماشہ تو نہ کرو۔ تم استاد ہو، یہاں اس طرح بھیڑ تو نہ لگاؤ۔' پھر انہوں نے سب لڑکوں کو ڈانٹ کر بھگا دیا۔ اور بیجو سے کہا، 'ماٹ بھائی کے ہاتھ منہ دھونے کو پانی دے۔' اشارہ کافی تھا۔ بیجو نے ایک بڑا لوٹا ٹھنڈا پانی دیا۔ ماٹ بھائی نے ہاتھ منہ دھویا۔ پھر بیٹھ گئے۔ بیجو نے تقریباً ڈیڑھ پاو تازہ برفی سامنے رکھ دی۔ ایک لوٹا پانی اور رکھ دیا۔ ترپاٹھی جی کا غصہ کچھ تو پانی نے ٹھنڈا کر دیا تھا۔ کچھ برفی نے کر دیا۔
بیجو
حلوائی نے کہا، 'آپ فکر نہ کرو۔ سالا جائے گا کہاں سمجھا بجھا کے آپ
کے پاس لے آئیں گے۔ سزا تو اوکا ملا چاہی۔ ' اسی وقت اسکول کا چپراسی آیا
اور کہا کہ ترپاٹھی ماٹ بھائی کو ہیڈ ماسٹر صاحب یاد کرتے ہیں۔
کچھ
دنوں بعد یہ مکمل قصہ ایک بڑے دلچسپ موڑ پر آ کر دھیرے دھیرے ختم ہو
گیا۔ بیجو حلوائی کے لڑکے کو ایم اے کی ڈگری مل گئی۔ یعنی اس کی تعلیم ختم
ہو گئی۔ ترپاٹھی ماٹ بھائی مہینے میں دو تین بار سکول آتے وقت جب جی
چاہتا تھا بیجو حلوائی کی دکان کی طرف مڑ جاتے تھے۔ انہیں دیکھتے ہی بیجو
کا لڑکا گھر کے اندر چلا جاتا تھا۔ بےجو سے ماٹ بھائی پوچھتے تھے، 'کہاں
گوا سسرا؟' بیجو بہانہ بنا دیتا تھا۔ ماٹ بھائی بھی سمجھتے تھے کہ ٹال رہا
ہے۔ تب بیجو انہیں ایک دونوں جلیبی یا بیسن کے لڈو یا قلاقند پکڑا دیتا
تھا۔ ماٹ بھائی بنچ پر بیٹھ کر کھاتے اور پانی پیتے تھے۔ بیجو اور ان کے
درمیان کچھ گہرے روحانی موضوعات پر بات چیت ہوتی تھی کہ اگر ہم رام، رامہ،
رام: وغیرہ وغیرہ سیکھ بھی لیں گے تو کیا ہوگا! کچھ دنوں بعد یہ
یقین ہو گیا تھا کہ کبھی نہ سیکھ سکیں گے اور کچھ دنوں بعد اس نتیجے پر
پہنچے تھے کہ گرامر پیدا ہی اس لیے ہوئی ہے کہ ہمیں پٹنے کے موقع ملتے
رہیں۔
اگر میں تمام اساتذہ کے سزا دینے کے طریقوں
کا مکمل تفصیل دوں تو بہت سے صفحے کالے ہو جائیں گے۔ آپ اوب جائیں گے۔ لگے
گا میں اسکول کا نہیں پولیس تھانے کی تفصیل دے رہا ہوں۔ اس لئے مختصر لکھے
کو بہت جانو۔
٭٭٭