صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


تکلم،  بیانیہ اور افسانویت

سکندر احمد

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

اقتباس

"ایک چڑیا آئی، چونچ میں دانہ لیا، اور پُھرّ سے اڑ گئی۔"


قصہ گو نے کہنا شروع کیا۔ بادشاہ کی فرمائش جو تھی، کبھی نہ ختم ہونے والی کہانی کی۔ قصہ گو نے ابھی دوچار چڑیاں اڑائی ہی تھی، کہ بادشاہ نے تلوار نکال لی اور گرجتے ہوئے کہا "ابے تو صرف چڑیاں ہی اڑائے گا یا کہانی بھی شروع کرے گا، اگر تو نے ایک بھی چڑیا اڑائی تو میں تیری گردن اڑا دوں گا"۔ قصہ گو نے لرزتے ہوئے کہا۔ "میں کہانی ہی تو سنا رہا ہوں "۔


قصّہ گو کے ساتھ بادشاہ نے کیا سلوک کیا، مجھے معلوم نہیں۔  تاہم ایک سوال تو اب تک جواب طلب ہے کہ آیا کہانی شروع بھی ہوئی یا نہیں ؟جواب اگر اثبات میں ہو تو اگلا سوال یہ ہے کہ کب شروع ہوئی؟ کیا پہلی چڑیا کے اڑنے سے شروع ہو گئی یا چڑیوں کی ایک مخصوص تعداد کے اڑنے کے بعد شروع ہوئی۔ جواب اگر نفی میں ہو تب دوسرا سوال ہو گا کہ چڑیوں کی وہ کون سی مخصوص تعداد ہے جن کے اڑنے کے بعد یہ کہا جاسکے کہ "کہانی کا آغاز ہو گیا"۔ یا صرف چڑیوں کے اڑنے سے افسانویت قائم نہیں ہوسکتی، کچھ اور چاہیے وسعت میرے بیاں کے لیے"۔


"کسی نے کسی کو کہا کہ کچھ ہوا"۔


یہ تعریف Barbara Herrnstein Smith کی ہے۔ ایک چڑیا کا بھی اڑنا ایک واقعہ ہے یعنی کہ "کچھ ہوا"۔ بات ظاہر ہے کہ صرف واقعے کی ظہور پذیری ہی افسانویت کی ضمانت نہیں۔  آخر وہ کون سے لوازم ہیں جو ظہور پذیری کو افسانے میں تبدیل کر دیتے ہیں ؟ ظہور پذیری کی بات چھوڑیے، موجودہ تناظر میں لفظ Narrative یعنی بیانیہ کااستعمال ان معنوں میں بھی ہو رہا ہے جن کا براہ راست تعلق کسی واقعے سے نہیں۔  مفصل مزید گفتگو آئندہ صفحات میں ہے۔ فی الوقت علاقہ صرف بیانہ اور بیانیے کے واقعاتی تناظر سے ہے جس کا اظہار تکلم کے ذریعے ہوتا ہے۔


روز مرہ کی زندگی میں ہمارا سابقہ ایسے بے شمار تحریری نمونوں سے پڑتا ہے جن کا تعلق کسی نہ کسی واقعے کی ظہور پذیری سے ہوتا ہے۔ تاریخ، وقائع نویسی، صحافت واقعات پر مبنی ہیں۔  افسانویت کی اصل بھی واقعات پر ہی ٹکی ہوئی ہے۔ کوئی ایسا پیمانہ،  کوئی ایسی کسوٹی قائم کی جاسکتی ہے جس کی بنا پر یہ کہا جاسکے کہ مخصوص بیانیہ افسانویت سے مملو ہے اور مخصوص بیانیہ افسانویت سے عاری ہے۔ یا پھر افسانویت ایک اضافی تصور ہے۔ یعنی کسی بیانیے میں افسانویت نسبتاً زیادہ ہے اور کسی میں (نسبتاً) کم۔ Barbara Herrnstein Smith کے برخلاف Noel Carroll جب بیانیہ یعنی Narrative کی تعریف کرتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ سرسری نہیں بلکہ جامعیت کی طرف گامزن ہے اور کلیہ سازی سے زیادہ قریب ہے۔  Barbara Herrnstein Smith جہاں بیانیے کے لیے صرف ایک واقعے کی ظہور پذیری کافی سمجھتی ہے: "کچھ ہوا" وہیں Noel Carroll کے نزدیک کم از کم دو واقعات کی ظہور پذیری لازمی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے واقعات کے مابین ترتیب، تنظیم اور ربط کی کیا صورت ہو کہ یہ کہا جاسکے کہ افسانویت قائم ہو گئی۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول