صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


تجدیدِ دین

مولانا محمد جرجیس کریمی

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

            تجدیدِ دین :      جدیدیت اور اجتہاد

تجدید کے معنیٰ کسی چیز کو نیا کرنے کے ہیں۔ دین کی تجدید کا مطلب ہے، اس کی مٹی ہوئی تعلیمات اور سنتوں  کو زندہ کرنا، اس کے ان نقوش و آثار کو اجاگر کرنا اور لوگوں  میں  اُنھیں  عام کرنا۔ جو زمانے کی گرد سے دھندلے پڑ گئے ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تجدید کے مفہوم میں، دین میں  نئی چیز کی آمیزش یا شمول نہیں  ہے اور نہ اس کے یہ معنیٰ ہیں  کہ اس کے حصے بخرے کر دیے جائیں، کچھ کو لے لیا جائے اور کچھ کو چھوڑ دیا جائے۔ صحیح حدیث کے بہ موجب اللہ تعالیٰ اس امت میں  ایسے افراد ہر صدی کے اختتام یا آغاز میں  پیدا کرتا رہے گا جو دین کی تجدید کریں  گے۔ (دیکھیے:ابوداؤد،کتاب الملاحم،المستدرک ۴/۵۲۲)


اللہ تعالیٰ پہلے انبیاء  ورسُل کے سلسلے میں  دین کی تجدید کرتا تھا۔ ختم نبوت کے بعد علمائے دین یہ کام انجام دیں  گے۔ اسلام کی ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ گواہ ہے کہ علمائے امت نے مختلف مواقع پر یہ خدمت انجام دی ہے اورایسے متعدد مجددین گزرے ہیں  جن کے کارناموں  سے تاریخ اسلامی کے اوراق مزین ہیں۔ تجدید کا یہ سلسلہ ان شاء اللہ قیامت تک جاری رہے گا۔ البتہ اس کی وضاحت ضروری ہے کہ تجدید الگ چیز ہے اور جدیدیت بالکل دوسری چیز۔ جدیدیت کا تعلق مغربی اور دین میں  نئی چیزوں  کو داخل کرنے سے ہے، جس کا کسی بھی صورت میں  دین متحمل نہیں  ہوسکتا۔


مغرب میں  جدیدیت کا پس منظر


جدیدیت کلیسائی جبرو استبداد کے رد عمل میں  پیدا شدہ ایک مغربی فکر و تحریک ہے۔ سترہویں  اور اٹھارہویں  صدی عیسوی کے یورپ میں  حد درجہ دقیانوسیت اور روایت پرستی پائی جاتی تھی جس کی بنیاد پر اہل کلیسا نے وہاں  کے باشندوں  کو ظلم کے خونیں  پنجے میں  جکڑ رکھا تھا۔ اس لیے اس تحریک نے عہد وسطیٰ کو تاریک دور قرار دیا اور مذہبی عصبیتوں ، روایت پسندی اور تنگ نظری کے خاتمے کو اپنا ہدف بنایا۔ جدیدیت کی اس تحریک کی نظریاتی بنیادیں  فرانسس بیکن، این ڈی کارٹ، تھامس ہولبس وغیرہ کے افکار میں  پائی جاتی ہیں  جن کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ یہ دنیا اور کائنات عقل، تجربہ، اور مشاہدے کے ذریعے قابل دریافت ہے اور اس کے تمام حقائق تک سائنسی طریقوں  سے رسائی ممکن ہے۔ اس لیے حقائق کی دریافت کے لیے کسی اور سرچشمے مثلاً وحی یا  نبوت) کی نہ کوئی ضرورت ہے اور نہ اس کا وجود ہے۔ صرف وہی حقائق قابل اعتبار ہیں  جو عقل، تجربہ اور مشاہدے کی کسوٹیوں  پر کھرے ثابت ہوں۔

 ٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول