صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


تجدید احیاۓ دین

سید ابو الاعلیٰ مودودی


ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

امام غزالی

     عمر ابن عبد العزیز کے بعد سیاست و حکومت کی باگیں مستقل طور پر جاہلیت کے ہاتھوں میں چلی گئیں اور بنی امیہ، بنی عباس اور پھر ترکی النسل پادشاہوں کا اقتدار قائم ہوا۔ ان حکومتوں نے جو خدمات انجام دیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک طرف یونان، روم اور عجم کے جاہلی فلسفوں کو جوں کا توں لے کر مسلمانوں میں پھیلا دیا اور دوسری طرف علوم و فنون اور تمدن و معاشرت میں جاہلیتِ اولٰی کی تمام گمراہیوں کو اپنی دولت اور طاقت کے زور سے شائع و ذائع کیا۔ عباسی خاندان کے تنزل نے مزید نقصان یہ پہنچایا کہ ابتدائی عباسی "خلفاء" کے بعد دنیوی اقتدار کی باگیں جن لوگوں کے ہاتھ میں آئیں وہ علومِ دینی سے بالکل ہی کورے تھے۔ ان میں اتنی صلاحیت بھی نہ تھی کہ قضاء اور افتاء کے عہدوں کے لیے اہل آدمی منتخب کر سکتے۔ اپنی جہالت اور سہولت پسندی کی وجہ سے وہ احکامِ شرعیہ کی تنفیذ کا کام ایسے لگے بندھے طریقوں پر کرنا چاہتے تھے جن میں کسی کدّ و کاوِش کی ضرورت نہ ہو، اور اس کے لیے تقلیدِ جامد ہی کا راستہ موزوں تھا۔ مزید برآں دنیا پرست علماء نے ان کو مذہبی مناظروں کی چاٹ بھی لگا دی، اور پھر شاہی سرپرستی میں یہ مرض اتنا پھیلا کہ اس نے تمام مسلم ممالک میں فرقہ بندی، اختلاف اور سر پھٹول کی وبا پھیلا دی۔ امراء و سلاطین کے لیے تو مذہبی مناظرے ، مرغ بازی اور بٹیر بازی کی طرح محض ایک تفریح تھے ، مگر عام مسلمانوں کے لیے یہ وہ قینچیاں تھیں جنہوں نے ان کی دینی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا۔ پانچویں صدی تک پہنچتے پہنچتے یہ حال ہو گیا کہ:

(1) یونانی فلسفے کی اشاعت سے عقائد کی بنیادیں ہل گئیں۔ محدثین و فقہاء علومِ عقلیہ سے ناواقف تھے اس لیے نظامِ دین کو مقتضائے زمانہ کے مطابق معقولی انداز میں نہ سمجھا سکتے تھے اور زجر و توبیخ سے اعتقادی گمراہیوں کو دبانے کی کوشش کرتے تھے۔ علومِ عقلیہ میں جن لوگوں کے کمال کا شہرہ تھا وہ نہ صرف یہ کہ علومِ دینیہ میں کوئی بصیرت نہ رکھتے تھے بلکہ خود علومِ عقلیہ میں بھی انہیں کوئی مجتہدانہ نظر حاصل نہ تھی۔ وہ فلاسفۂ یونان کے بالکل غلام تھے ، ان میں کوئی ایسا بالغ النظر آدمی نہ تھا جو تنقید کی نگاہ سے اس یونانی لٹریچر کا جائزہ لیتا۔ انہوں نے وحی یونانی کو اٹل سمجھ کر لیا اور وحی آسمانی کو توڑنا مروڑنا شروع کیا تاکہ وہ وحی یونانی کے مطابق ڈھل جائے۔ ان حالات کا عام مسلمانوں پر یہ اثر ہوا کہ وہ دین کو ایک غیر معقول چیز سمجھنے لگے ، اس کی ہر چیز انہیں مشکوک نظر آنے لگی اور ان میں یہ خیال جاگزیں ہوتا چلا گیا کہ ہمارا دین ایک چھوئی موئی کا درخت ہے جو عقلی امتحان کی ایک ذرا سی ٹھیس ہی سے مرجھا جاتا ہے۔ امام ابو الحسن اشعری اور ان کے متبعین نے اس رو کو بدلنے کی کوشش کی، مگر یہ گروہ متکلمین کے علوم سے تو واقف تھا لیکن معقولات کے گھر کا بھیدی نہ تھا، اس لیے وہ اس عام بے اعتقادی کی رفتار کو بدلنے میں پوری طرح کامیاب نہ ہو سکا، بلکہ معتزلہ کی ضد میں اس نے بعض ایسی باتوں کا التزام کیا جو فی الواقع عقائدِ دین میں سے نہ تھیں۔

(2) جاہل فرمانرواؤں کے اثر سے ، اور علومِ دینی کو مادّی وسائل کی تائید بہم نہ پہنچنے کے سبب اجتہاد کے چشمے خشک ہو گئے ، تقلیدِ جامد کی بیماری پھیل گئی، مذہبی اختلافات نے ترقی کر کے ذرا ذرا سے جزئیات پر نئے نئے فرقے پیدا کر دیے اور ان فرقوں کی باہمی لڑائیوں سے مسلمانوں کی یہ حالت ہو گئی کہ گویا علٰی شفا حفرة مّن النّار ہیں۔

(3) مشرق سے مغرب تک مسلم ممالک میں ہر طرف اخلاقی انحطاط رونما ہو گیا جس کے اثر سے کوئی طبقہ خالی نہ رہا۔ قرآن اور نبوت کی روشنی سے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی بڑی حد تک خالی ہو گئی۔ علماء، امراء، عوام، سب بھول گئے کہ خدا کی کتاب اور رسول کی سنت بھی کوئی چیز ہے جس کی طرف ہدایت و رہنمائی کے لیے کبھی رجوع کرنا چاہیے۔

(4) شاہی درباروں ، خاندانوں اور حکمران طبقوں کی عیاشانہ زندگی اور خود غرضانہ لڑائیوں کی وجہ سے عموماً رعایا تباہ حال ہو رہی تھی۔ ناجائز ٹیکسوں کے بار نے معاشی زندگی کو نہایت خراب کر دیا تھا۔ تمدن کو حقیقی فائدہ پہنچانے والے علوم و صنائع رو بہ تنزل تھے اور ان فنون کا زور تھا جو شاہی درباروں میں قدر و منزلت رکھتے تھے مگر اخلاق و تمدن کے لیے غارت گر تھے۔آثار سے صاف معلوم ہو رہا تھا کہ عام تباہی کا وقت قریب آ لگا ہے۔

     یہ حالات تھے جب پانچویں صدی کے وسط میں امام غزالی15 پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتداءً اُسی طرز کی تعلیم حاصل کی جو اس زمانہ میں دنیوی ترقی کا ذریعہ ہو سکتی تھی۔ انہی علوم میں کمال پیدا کیا جن کی بازار میں مانگ تھی۔ پھر اس جنس کو لے کر وہیں پہنچے جہاں کے لیے تیار ہوئے تھے اور ان بلند ترین مراتب تک ترقی کی جن کا تصور اس زمانے میں کوئی عالم کر سکتا تھا۔ دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی ----نظامیہ بغداد ----- کے ریکٹر مقرر ہوئے۔ نظام الملک طوسی، ملک شاہ سلجوقی اور "خلیفہ" بغداد کے درباروں میں اعتماد حاصل کیا۔ وقت کے سیاسیات میں یہاں تک دخیل ہوئے کہ سلجوقی فرمانروا اور عباسی "خلیفہ" کے درمیان جو اختلافات پیدا ہوتے تھے ان کو سلجھانے کے لیے ان کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں۔ دنیوی عروج کے اس نقطہ پر پہنچ جانے کے بعد ان کی زندگی میں انقلاب رونما ہوا۔ اپنے زمانہ کی علمی، اخلاقی، مذہبی، سیاسی اور تمدنی زندگی کو جتنی گہری نظر سے دیکھتے گئے اُسی قدر ان کے اندر بغاوت کا جذبہ ابھرتا چلا گیا، اور اسی قدر ان کے ضمیر نے زیادہ زور سے صدا لگانی شروع کی کہ تم اس گندے سمندر کی شناوری کے لیے نہیں بلکہ تمہارا فرض کچھ اور ہے۔ آخر کار اُن تمام اعزازات، فوائد و منافع اور مشاغل پر لات مار دی جن کے جنجال میں پھنسے ہوئے تھے۔ فقیر بن کر سیاحت کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ گوشوں اور ویرانوں میں غور و خوض کیا۔ چل پھر کر عام مسلمانوں کی زندگی کا گہرا مشاہدہ کیا۔ مدتوں تک مجاہدات و ریاضات سے اپنی روح کو صاف کرتے رہے۔ 38 سال کی عمر میں نکلے تھے ، پورے دس برس کے بعد 48 برس کی عمر میں واپس ہوئے۔ اس طویل غور و فکر و مشاہدہ کے بعد جو کام کیا وہ یہ تھا کہ بادشاہوں کے تعلق اور ان کی وظیفہ خواری سے توبہ کی، جدال و تعصب سے پرہیز کرنے کا دائمی عہد کیا، ان تعلیمی ادارات میں کام کرنے سے انکار کر دیا جو سرکاری اثر میں ہوں اور طوس میں خود اپنا ایک آزاد ادارہ قائم کیا۔ اس ادارہ میں وہ چیدہ افراد کو اپنے خاص طرز پر تعلیم و تربیت دے کر تیار کرنا چاہتے تھے مگر غالباً ان کی یہ کوشش بڑا انقلاب انگیز کام نہ کر سکی کیونکہ پانچ چھ سال سے زیادہ ان کو اس طرزِ خاص پر کام کرنے کی اجل ہی نے مہلت نہ دی۔

     امام غزالی کے تجدیدی کام کا خلاصہ یہ ہے :

     اولاً انہوں نے فلسفۂ یونان کا نہایت گہرا مطالعہ کر کے اس پر تنقید کی اور اتنی زبردست تنقید کی کہ اس کا وہ رعب جو مسلمانوں پر چھا گیا تھا، کم ہو گیا اور لوگ جن نظریات کو حقائق سمجھ بیٹھے تھے ، جن پر قرآن و حدیث کی تعلیمات کو منطبق کرنے کے سوا دین کے بچاؤ کی کوئی صورت انہیں نظر نہ آتی تھی، اُن کی اصلیت سے بڑی حد تک آگاہ ہو گئے۔ امام کی اس تنقید کا اثر مسلم ممالک ہی تک محدود نہ رہا بلکہ یورپ تک پہنچا اور وہاں بھی اس نے فلسفۂ یونان کے تسلط کو مٹانے اور جدید دورِ تنقید و تحقیق کا فتحِ باب کرنے میں حصہ لیا۔

     ثانیاً انہوں نے اُن غلطیوں کی اصلاح کی جو فلاسفہ اور متکلمین کی ضد میں اسلام کے وہ حمایتی کر رہے تھے جو علومِ عقلیہ میں گہری بصیرت نہ رکھتے تھے۔ یہ لوگ اسی قسم کی حماقتیں کر رہے تھے جو بعد میں یورپ کے پادریوں نے کیں ، یعنی مذہبی عقائد کے عقلی ثبوت کو بعض صریح غیر معقول باتوں پر موقوف سمجھ کر خواہ مخواہ اُن کو اصولِ موضوعہ قرار دے لینا، پھر اُن اصولِ موضوعہ کو بھی عقائد دین میں داخل کر کے ہر اُس شخص کی تکفیر کرنا جو اُن کا قائل نہ ہو، اور ہر اُس برہان یا تجربے یا مشاہدہ کو دین کے لیے خطرہ سمجھنا جس سے ان خود ساختہ اصولِ موضوعہ کی غلطی ثابت ہوتی ہو۔ اسی چیز نے یورپ کو بالآخر دہریت کی طرف دھکیل دیا اور یہی مسلم ممالک میں بھی شدت کے ساتھ کارفرما تھی اور لوگوں میں بے اعتقادی پیدا کر رہی تھی۔ مگر امام غزالی نے بروقت اس کی اصلاح کی اور مسلمانوں کو بتایا کہ تمہارے عقائدِ دینی کا اثبات ان غیر معقولات کے التزام پر منحصر نہیں ہے ، بلکہ اس کے لیے معقول دلائل موجود ہیں۔ لہٰذا ان چیزوں پر اصرار فضول ہے۔

     ثالثاً، انہوں نے اسلام کے عقائد اور اساسیات (fundamentals) کی ایسی معقول تعبیر پیش کی جس پر کم از کم اس زمانہ کے ، اور بعد کی کئی صدیوں تک کے معقولات کی بناء پر کوئی اعتراض نہ ہو سکتا تھا۔ اس کے ساتھ انہوں نے احکامِ شریعت اور عبادات و مناسک کے اسرار و مصالح بھی بیان کیے اور دین کا ایک ایسا تصور لوگوں کے سامنے رکھا جس سے وہ غلط فہمیاں دور ہو گئیں جن کی بناء پر یہ گمان ہونے لگا تھا کہ اسلام عقلی امتحان کا بوجھ نہیں سہار سکتا۔

     رابعاً، انہوں نے اپنے وقت کے تمام مذہبی فرقوں اور ان کے اختلافات پر نظر ڈالی اور پوری تحقیق کے ساتھ بتایا کہ اسلام اور کفر کی امتیازی سرحدیں کیا ہیں ، کن حدود کے اندر انسان کے لیے رائے و تاویل کی آزادی ہے اور کن حدود سے تجاوز کرنے کے معنی اسلام سے نکل جانے کے ہیں ، اسلام کے اصلی عقائد کون سے ہیں اور وہ کیا چیزیں ہیں جن کو خواہ مخواہ عقائدِ دین میں داخل کر لیا گیا ہے۔ اس تحقیقات نے ایک دوسرے سے لڑنے جھگڑنے اور تکفیر بازی کرنے والے فرقوں کی سرنگوں میں سے بہت سی بارود نکال دی اور لوگوں کے زاویۂ نظر میں وسعت پیدا کی۔

     خامساً، انہوں نے دین کے فہم کو تازہ کیا۔ بے شعور مذہبیت کو فضول ٹھیرایا۔ تقلیدِ جامد کی سخت مخالفت کی۔ لوگوں کو کتاب اللہ و سنتِ رسول اللہ کے چشمۂ فیض کی طرف پھر سے توجہ دلائی،اجتہاد کی روح کو تازہ کرنے کی کوشش کی، اور اپنے عہد کے تقریباً ہر گروہ کی گمراہیوں اور کمزوریوں پر تنقید کر کے اصلاح کی طرف عام دعوت دی۔

     سادساً، انہوں نے اُس نظامِ تعلیم پر تنقید کی جو بالکل فرسودہ ہو چکا تھا اور تعلیم کا ایک نیا نظام تجویز کیا۔ اس وقت تک مسلمانوں میں جو نظامِ تعلیم قائم تھا اس میں دو قسم کی خرابیاں پائی جاتی تھیں۔ایک یہ کہ علومِ دنیا و علومِ دین الگ الگ تھے اور اس کا نتیجہ لامحالہ تفریقِ دنیا و دین کی صورت میں ظاہر ہوتا تھا جو اسلامی نقطۂ نظر سے بنیادی طور پر غلط ہے۔ دوسرے یہ کہ شرعی علوم کی حیثیت سے بعض ایسی چیزیں داخلِ درس تھیں جو شرعی اہمیت نہ رکھتی تھیں اور اس کا نتیجہ یہ تھا کہ دین کے متعلق لوگوں کے تصورات غلط ہو رہے تھے اور بعض غیر جنس کی چیزوں کو اہمیت حاصل ہو جانے کی وجہ سے فرقہ بندیاں پیدا ہو رہی تھیں۔ امام غزالی نے ان خرابیوں کو دور کر کے ایک سمویا ہوا نظام بنایا جس کی ان کے ہم عصروں نے سخت مخالفت کی مگر بالآخر تمام مسلم ممالک میں اس کے اصول تسلیم کر لیے گئے اور بعد میں جتنے نئے نظاماتِ تعلیم بنے وہ تمام تر انہی خطوط پر بنے جو امام نے کھینچ دیئے تھے۔ اس وقت تک مدارسِ عربیہ میں جو نصاب پڑھایا جا رہا ہے اس کی ابتدائی خط کشی امام غزالی ہی کی رہینِ منت ہے۔

     سابعاً، انہوں نے اخلاقِ عامہ کا پورا جائزہ لیا۔ انہیں علماء، مشائخ، امراء، سلاطین، عوام، سب کی زندگی کا مطالعہ کرنے کے خوب مواقع ملے تھے۔ خود چل پھر کر وہ مشرقی دنیا کا ایک بڑا حصہ دیکھ چکے تھے۔ اسی مطالعے کا نتیجہ ان کی کتاب احیاء العلوم ہے جس میں انہوں نے ہر طبقہ کی اخلاقی حالت پر تنقید کی ہے ، ایک ایک برائی کی جڑ اور اس کے نفسیاتی اور تمدنی اسباب کا کھوج لگایا ہے ، اور اسلام کا صحیح اخلاقی معیار پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

     ثامناً، انہوں نے اپنے عہد کے نظامِ حکومت پر بھی پُوری آزادی کے ساتھ تنقید کی۔ براہ راست حکامِ وقت کو بھی اصلاح کی طرف توجہ دلاتے رہے ، اور عوام میں بھی یہ روح پھونکنے کی کوشش کرتے رہے کہ منفعلانہ انداز سے جبر و ظلم کے آگے سرِ تسلیم خم نہ کریں بلکہ آزاد نکتہ چینی کریں۔ احیاء میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ "ہمارے زمانہ میں سلاطین کے تمام یا اکثر اموال حرام ہیں۔" ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ "ان سلاطین کو نہ اپنی صورت دکھانی چاہیے ، نہ ان کی دیکھنی چاہیے۔ انسان کے لیے لازم ہے کہ ان کے ظلم سے بغض رکھے ، ان کے بقاء کو پسند نہ کرے ، ان کی تعریف نہ کرے ، ان کے حالات سے کوئی واسطہ نہ رکھے اور ان کے ہاں رسائی رکھنے والوں سے بھی دور رہے "۔ ایک اور جگہ اُن آدابِ پرستش و عبودیت پر نکتہ چینی کرتے ہیں جو درباروں میں رائج تھے ، اس معاشرے کی مذمت کرتے ہیں جو بادشاہوں اور امراء نے اختیار رکھی تھی، حتیٰ کہ ان کے محلات، ان کے لباس، ان کی آرائش، ہر چیز کو نجس بتلاتے ہیں۔ اسی پر بس نہیں بلکہ انہوں نے اپنے عہد کے بادشاہ کو ایک مفصل خط لکھا جس میں اس کو اسلامی طرزِ حکومت کی طرف دعوت دی، حکمرانی کی ذمہ داریاں سمجھائیں اور اسے بتایا کہ تیرے ملک میں جو ظلم ہو رہا ہے ، خواہ تو خود کرے یا تیرے عمال کریں ، بہرحال اس کی ذمہ داری تجھ پر ہے۔ ایک دفعہ مجبوراً دربارِ شاہی میں جانا پڑا تو دورانِ گفتگو میں بادشاہ کے منہ در منہ کہا کہ:

     "تیرے گھوڑوں کی گردن ساز زرّیں سے نہ ٹوٹی تو کیا ہوا، مسلمانوں کی گردن تو فاقہ کشی کی مصیبت سے ٹوٹ گئی۔"

     ان کے آخری زمانہ میں جتنے وزراء مقرر ہوئے ، قریب قریب سب ہی کو انہوں نے خطوط لکھے اور رعایا کی تباہ حالی کی طرف توجہ دلائی۔ ایک وزیر کو لکھتے ہیں :

     "ظلم حد سے گزر چکا ہے۔ چونکہ مجھے اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھنا پڑتا تھا اس لیے تقریباً ایک سال سے میں نے طوس میں قیام ترک کر دیا ہے تاکہ بے رحم و بے حیا ظالموں کی حرکات دیکھنے سے خلاصی پاؤں۔"

     ابن خلدون کے بیان سے یہاں تک معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسی سلطنت کے قیام کے خواہاں تھے جو خالص اسلامی اصول پر ہو، خواہ دنیا کے کسی گوشے میں ہو۔ چنانچہ مغرب اقصٰی میں موحدین کی سلطنت انہی کے اشارہ سے ان کے ایک شاگرد نے قائم کی۔ مگر امام موصوف کے کارنامے میں یہ سیاسی رنگ محض ضمنی حیثیت رکھتا تھا۔ سیاسی انقلاب کے لیے انہوں نے باقاعدہ کوئی تحریک نہیں اٹھائی، نہ حکومت کے نظام پر کوئی خفیف سے خفیف اثر ڈال سکے۔ ان کے بعد جاہلیت کی حکمرانی میں مسلمان قوموں کی حالت خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ ایک صدی بعد تاتاری طوفان کے دروازے ممالک اسلامیہ پر ٹوٹ پڑے اور اس نے ان کے پورے تمدن کو تباہ کر کے رکھ دیا۔

     امام غزالی کے تجدیدی کام میں علمی و فکری حیثیت سے چند نقائص بھی تھے اور وہ تین عنوانات میں تقسیم کیے جا سکتے ہیں۔ ایک قسم ان نقائص کی جو حدیث کے علم میں کمزور ہونے کی وجہ سے ان کے کام میں پیدا ہوئے 16، دوسری قسم ان نقائص کی جو ان کے ذہن پر عقلیات کے غلبہ کی وجہ سے تھے۔ اور تیسری قسم ان نقائص کی جو تصوّف کی طرف ضرورت سے زیادہ مائل ہونے کی وجہ سے تھے۔

     ان کمزوریوں سے بچ کر امامِ موصوف کے اصل کام یعنی اسلام کی ذہنی و اخلاقی روح کو زندہ کرنے اور بدعت و ضلالت کی آلائشوں کو نظامِ فکر و نظامِ تمدن سے چھانٹ چھانٹ کر نکالنے کے کام کو جس شخص نے آگے بڑھایا وہ ابن تیمیہ تھا۔

ڈاؤن لوڈ کریں 

   

   ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول