صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
تحریرِ نو
ممبئی
ڈاؤن لوڈ کریں
فروری ۲۰۰۹ء
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
جون ۲۰۰۹ء
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
شمارہ ۱۰، ۲۰۰۹ء
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
شمارہ ۱۴، ۲۰۱۰ء
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
کالرجؔ، منٹوؔ، اخترؔ شیرانی، مجازؔ اور محمد علی تاجؔ
اگر اور جیتے ...............ندا فاضلی
انگریزی زبان کی ادبی تاریخ میں اٹھارویں صدی کی کافی اہمیت ہے۔ اسی صدی کی ساتویں دہائی ۱۷۷۰ء میں انگریزی زبان کے فطرت پر ست شاعر ولیم ورڈز ورتھ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ ورڈز ورتھ ۱۷/اپریل ۱۷۷۰ ء میں کمبر لینڈ میں ڈروینٹ ندی کے کنارے پیدا ہوئے ، جہاں آج بھی ان کی رہائش گاہ ایک میوزیم کی طرح ان کی شاعری کے پرستاروں کی زیارت گاہ ہے۔ آٹھ برس کے تھے جب ان کی والدہ ان کا ساتھ چھوڑگئیں۔ ماں کی رحلت کے پانچ برس کے بعد والد بھی رخصت ہوگئے۔ لیکن ان غموں کو بھلانے کے لئے انھوں نے کسی نشے کا سہارا نہیں لیا اور ۸۰ سال کی عمر تک انگریزی شعر و ادب کو امیر بناتے رہے۔ ۱۷۹۸ء میں انھوں نے اپنے دوست کالرج ؔ کے ساتھ ایک تاریخی شعری مجموعہ ’لیرکل بیلڈ‘ شائع کیا۔ جس کے بارے میں انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا نے لکھا تھا۔ یہ کتاب ملٹنؔ کے بعد ایک اہم ادبی واقعہ ہے۔ یہ شعری مجموعہ فطرت اور فوق الفطرت تخلیقات کا کارنامہ تھا۔ زبان کے لحاظ سے بھی اور موضوع کے انتخاب کی وجہ سے بھی۔ یہ مجموعہ ماضی قریب کی عقلیت پسندی کے خلاف رومانی تحریک کی ابتدائی آواز تھی۔ کالرج ، ورڈز ورتھ سے دو سال بعد پیدا ہوئے اور تقریباً ۱۷ سال پہلے رخصت ہو گئے۔ افیون کی لت نے جہاں ’خان کبلا‘ جیسی نظم ان سے منسوب کی وہاں شعری ذہانت کے ساتھ ان کی جسمانی صحت کا خراج بھی وصول کیا۔ دو سال کی چھوٹائی بڑائی کے با وجود وہ گہرے دوست تھے۔ اس دوستی کی وجہ دونوں کی شعری ذہانت تھی لیکن کالرجؔ جوانی میں ہی نشے کی عادت کا شکار ہو گئے ، کوش اور علاج کے باوجود پھر اس لت سے آزاد نہیں ہو سکے۔ ہر انسان کو اپنی زندگی بنانے اور بگاڑنے کا اختیار ہے لیکن مجھ جیسے قاری کو یہ پوچھنے کا حق ضرور ہے کہ اگر وقت سے پہلے نہیں مرتے تو اپنے پڑھنے والوں کو پڑھنے کے لئے اینشینٹ ماریز اور کبلا خان جیسی اور کچھ نظمیں دے سکتے تھے۔ جسم، روح کا مکان ہوتا ہے اور روح رحمان کا وردان ہوتا ہے۔ جسم کی حفاظت بھی ایک عبادت ہے۔ صوفی تو دل کو خدا کا گھر مانتے ہیں۔ اسی گھر کی حفاظت کو حج اکبری کے مترادف جانتے ہیں۔ ان کی افیون نوشی میری ان کئی تخلیقات کی مقروض ہے جو میرے مطالعہ سے دور رہیں۔ کالرجؔ نے آدمی سے انسان بننے کا سفر پور کیا لیکن جو توقعات ان سے وابستہ تھیں ، انھیں ادھورا چھوڑکر زندگی کا سفر پورا کر لیا۔ سکندر لودھی کے دور حکومت میں سنت کبیرؔ شریر (جسم) اور آتما کے رشتے سے واقف تھے۔ انھوں نے کہا تھا :
اس گھٹ اندر باگ بگیچے ، اسی میں سرجن ہارا
اس گھٹ کے اندر سات سمندر ، اسی میں نو لکھ تارا
کبیر ۱۴۵۶ء میں انسانی جسم میں ظہور میں آئے اور اس جسم کو جیوں کی تیوں ، دھر دینی چدریا، کے احتیاط سے ۱۵۷۵ء میں کبیر گرنتھا والی بن گئے۔ کہا جاتا ہے وہ اس جسم کے ذریعے ۱۰۰! سال سے زیادہ عرصے تک محبت اور پریم کے ڈھائی اکشر کو نئے نئے طریقوں سے روشن کرتے رہے۔ یہی پریم ان کا نشہ تھا جو دیر تک کائنات کو روشن کرتا رہا اور آج تک یہی پریم عوام و خواص میں منور ہے۔ کبیر کی ایک غزل کا مطلع ہے :
ہمن ہے عشق مستانہ ہمن کو ہوشیاری کیا
رہے آزاد یا جگ میں ہمن دنیا سے یاری کیا
کبیرؔ نے دنیا داری کی ہوشیاری سے تنگ آ کر کالرجؔ کی طرح فطرت کے ساتھ عیاری نہیں کی۔ کبیرؔ جس پریم ڈگر کی روشنی تھے اس کی بندگی کرنے والوں میں ایک ساتھ کئی ادیبوں اور شاعروں کے نام ذہن میں آتے ہیں۔ ان میں کبیرؔ کی طرح جو پھکڑپن اور اکھڑپن نظر آتا ہے اس کا نام سعادت حسن منٹو بھی تھا۔ کبیرؔ نے جو ناراضگی اور سماجی نا انصافی کو شعر کا جامہ پہنایا اسی سوجھ بوجھ کے ساتھ منٹوؔ نے اپنے قلم کا جادو جگایا۔
منٹوؔ اتحاد و یگانگت کے قلم کار تھے۔ وہ راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر اور عصمت چغتائی کے ہم عصر تھے لیکن وہ تینوں کے ساتھ ہوتے ہوئے اپنے مزاج اور انداز کے الگ فنکار تھے۔ وہ ملکی تقسیم کے بھی خلاف تھے اور اس سیاسی تماشے میں انسان کے حیوان بن جانے سے بھی ناراض تھے۔ انھوں نے بہت سی چھوٹی چھوٹی کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ ان میں ایک کہانی کا عنوان’ پیشاب گھر‘ ہے۔ تقسیم وطن سے پہلے سیاست، تقسیم کے لئے زمین بنا رہی تھی اور سوچی سمجھی سازش کے تحت ہندو کو زیادہ، ہندو اور مسلمانوں میں زیادہ تعصب جگا رہی تھی۔ مذہبوں کے تاجرانہ استعمال سے ایک دوسرے کے بیچ دیواریں اٹھا رہی تھیں۔ ۔ نیتاؤں کی تقریریں اپنا رنگ دکھا رہی تھیں اور غربت و افلاس کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہنکا رہی تھیں اور اس غیر انسانی حیوانیت کے خلاف منٹو ؔ کی کہانیاں چلّا رہی تھیں اور ان سے موزیل ، کھول دو اور ٹوبہ ٹیک سنگھ جیسی عبارتیں لکھوا رہی تھیں۔ منٹو کی کہانی ’ پیشاب گھر‘ عجیب طریقے سے شروع ہوتی ہے۔ پہلے ایک ہندو ضرورت سے فارغ ہونے کے لئے اس میں داخل ہوتا ہے اور ضرورت پوری کرتے ہوئے طاق میں رکھے ہوئے ایک کوئلے سے سامنے کی دیوار پر لکھتا ہے مسلمانوں کی ماں کی .........لکھنے والے نے جملے کو لکھ کر اس کے آگے کئی نقطے لگائے تھے .....ہندو کے بعد جو مسلمان پیشاب کی ضرورت سے وہاں جاتا ہے وہ نقطوں کی خالی جگہ کو اپنے خیال سے بھرتا ہے اور غصے میں کوئلہ اٹھا کر اس جملہ کے نیچے لکھ دیتا ہے ہندوؤں کی ماں کی .........اس کہانی کا تیسرا کردار خود افسانہ نگار منٹوؔ تھا منٹو ان دونوں جملوں کو پڑھتا ہے ، مسلمانوں کی ماں کی.........! ہندوؤں کی ماں کی........! وہ تھوڑا سوچتا ہے اور اسی کوئلے سے دونوں ادھورے جملوں کے نیچے لکھتا ہے۔ دونوں کی ماں کی ........! حیوان کی حیوانیت سے بے زار انسانیت کا یہ افسانہ نگار اس سنسار میں ۱۹۱۲ء میں وجود میں آیا اور ۱۹۵۵ء میں ایک رات کو ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گیا منٹو کو شراب کی عادت انھیں دنوں سے تھی جب وہ ممبئی میں تھے اور ثریا و بھارت بھوشن کے مرکزی کرداروں کے ساتھ سہراب مودی کے لئے مرزا غالبؔ لکھ رہے تھے۔ راجندر سنگھ بیدی کے ساتھ منٹو اس فلم کے رائٹر تھے۔ شراب کی بلا نوشی اکثر بڑی ذہانتوں کا شکار کرتی ہے۔ وہ بھی اس کا شکار ہوئے اور عمر کی صرف ۴۳ موم بتیاں جلا کر عدم کے اندھیروں میں گم ہو گئے۔ جانے کی ان کی اس عجلت نے مجھ سے ٹھنڈا گوشت ، کالی شلوار، کھول دو جیسی نہ جانے کتنی کہانیاں چھین لیں۔ منٹوؔ نے بھی اپنی زندگی اپنی طرح جی تھی۔ لیکن اس کے اس ڈھب سے مجھے یہ شکایت ہے کہ اگر میرے اور ان کی کہانیوں کے درمیان شراب نہ ہوتی تو میری لائبریری میں پڑھنے کے لئے اور بھی کچھ ہوتا۔ اس شراب نے مجھ سے وہ بہت کچھ چھین لیا جو ایک قاری کے روپ میں میرا اس پر قرض تھا۔ منٹوؔ میرا قرض دار ہے۔ اللہ اس کی مغفرت کرے۔ امیر مینائی ایک مطلع ہے :
بندہ نوازیوں پہ خدائے کریم تھا
کرتا نہ میں گنہ تو گناہِ عظیم تھا
منٹوؔ کی بے وقت موت سے پہلے شراب نے میرا ایک بڑا نقصان وہ کیا جو ٹونک کے شاعرِ رومان اختر شیرانی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اختر شیرانی مشہور محقق محمود شیرانی کے گھر میں راجستھان کے ایک تہذیبی شہر ٹونک میں ۱۹۰۵ء میں پیدا ہوئے۔ اور شراب کے تیزاب سے دل، پھیپھڑے اور جگر کو جلا کر ملکی آزادی کے ایک سال بعد ۱۹۴۸ء میں مٹی کے سپرد ہو گئے۔ اختر شیرانی بھی کبیرؔ کی طرح محبت کے شاعر تھے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ کبیرؔ پریم کو مذہبی فرقہ واریت ختم کرنے کے لئے گاتے تھے اور اختر اس کی روشنی سے زندگی کو خوبصورت بناتے تھے۔ ان کے لفظ انسان کے چھپے حیوان کو جینے کے آداب سکھاتے تھے ، وہ صاحبِ طرز شاعر تھے۔ ان کے بعد آنے والے کم و بیش ہر شاعر نے وہ فیض ہوں ، ن۔ م راشد ہوں ، مجاز ہوں یا جاں نثار ہوں سب کے اپنے ابتدائی سفر میں اخترؔ کی رومانی شاعری ہی ہم سفر رہی تھی۔ اخترؔ شیرانی اپنے دور میں ، جوش و اقبال کی طرح اپنی طرز کے آپ موجد تھے۔ ان کی محبوباؤں کے کئی نام تھے۔ ان میں ریحانہ اور سلمیٰ کے افسانے زیادہ مشہور ہیں۔
دو دن میں کیا سے کیا ہو گئی ہے صورت
اللہ تیری قدرت /سلمیٰ سے دل لگا کر
بستی کی لڑکیوں میں بد نام ہو رہا ہوں
کالرج، منٹو، اختر شیرانی کے ساتھ میرے قرض داروں کے اور بھی کئی نام ہیں۔ ان میں ممبئی کے مرزا عزیز جاوید بھی ہیں ، نکودر پنجاب کے نریش کمار شاد ؔ بھی ہیں ، بھوپال کے محمد علی تاجؔ بھی ہیں۔ تاجؔ کے شعری مجموعہ ’خیمۂ گل‘ کے دیباچے میں جاں نثار نے آج کی غزل کی طرح داری ، چونکا دینے والا لہجہ اور سماجی بصیرت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جاں نثار کے لفظوں میں تاجؔ آج کی نسل کے ان چند شعراء میں سے ہیں جو صحیح معنوں میں اس بارِ امانت کو سنبھالنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ لیکن یہ بارِ امانت ان کے لئے کافی بھاری ثابت ہو ا جسے ہلکا کرنے کیلئے وہ بھوپال کی بھٹیوں میں بننے والی کچّی شراب کی مدد لینے لگے اور خوبصورت شعر کہنے والا یہ شاعر جلد ہی اپنی بیاض بند کر کے رخصت ہو گیا۔ تاجؔ کا شعر ہے :
یہ تو انسانوں کے ٹوٹے ہوئے دل ہیں ساقی
ہم سے ٹوٹے ہوئے ساغر نہیں دیکھے جاتے
لیکن جاں نثار اخترؔ کی پیشین گوئی پوری ہونے سے پہلے ، یہ شاعر بہت سے سامعین و قارئین کا قرض دار بن کر کئی انسانوں کے دل توڑ کر قبر بن گیا۔ اس فہرست میں ایک نام اور ہے جس کے بارے میں اثر لکھنوی نے ایک بار کہا تھا۔ ایک شاعر پیدا ہوا تھا جسے ترقی پسند بھیڑیے اٹھا کر لے گئے۔ عصمت چغتائی نے اس کی مقبولیت کے بارے میں لکھا تھا۔ علی گڑھ میں گرل ہوسٹل کی لڑکیاں ہر رات سونے سے پہلے مجازؔ کا نام کاغذ پر لکھ کر یہ سوچ کر تکیے کے نیچے رکھتی تھیں کہ خدا جانے صبح مجازؔ کس کی قسمت بنے۔ اس کا نام اسرالحق مجاز (لکھنوی ) تھا۔ مجازؔ نے اپنی نظم ’آوارہ ‘ میں لکھا ہے۔
جی میں آتا ہے یہ مردہ چاند تارے نوچ لوں
اس کنارے نوچ لوں یا اس کنارے نوچ لوں
ایک دو کا ذکر کیا سارے کے سارے نوچ لوں
اے غمِ دل کیا کروں ، اے وحشتِ دل کیا کروں
مجازؔ، فیض کی دستِ صبا سے پہلے اپنے اکیلے مجموعے ’ آہنگ‘ کے شاعر بن چکے تھے۔ ان کے مداحوں میں شاعرِ انقلاب جوش ؔ ملیح آبادی بھی تھے اور رئیس المتغزلین جگرؔ مراد آبادی بھی تھے۔ رومان و انقلاب کا یہ مغنی اپنی زندگی میں ہی نہایت مقبول ہو چکا تھا ، لیکن زندگی کے کئی تلخ حقائق کا سامنا کرنے کی اس میں ہمت کا فقدان تھا۔ ان کی شہرت ان حقیقتوں کی قبولیت کے آڑے آئی اور وہ فرسٹریشن کا شکار ہو گئے۔
بڑی مشکل ہے دنیا کا سنورنا
تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے
زندگی کے پیچ و خم وہ نہیں سلجھا پائے اور کئی محبوباؤں کا خواب، عین جوانی میں بے خواب ہو گیا۔ اس بے خوابی کو بہلانے کے لئے انھوں نے شراب کا سہارا تلاش کیا اور ۱۹۱۱ء میں یوپی کے ایک چھوٹے سے شہر ردولی (رزم اور باقر مہدی کا بھی یہی علاقہ تھا) میں پیدا ہو کر ۱۹۵۵ء میں لکھنؤ کے ایک شراب خانے میں ہمیشہ کے لئے دنیا کے الجھاؤ سلجھاتے سلجھاتے خود ہی اس میں الجھ کر رہ گئے۔ مجازؔ کے بارے میں نقادوں کی رائے ہے اگر وہ ۴۴ برس میں نہیں گزرتے تو آوارہ، ننھی پجارن، اب مرے پاس تم آئی ہو تو کیا آئی ہو اور ایسی دوسری غزلیں اور نظمیں لکھ کر قارئین کے وقت کو رنگین بنا سکتے تھے۔ مجازؔ نے بھی مجھ سے اچھی شاعری کا بڑا سرمایہ چھینا ہے۔ رانچی کے پاگل خانے میں مجازؔ نے دیوانگی کی حالت میں ایک ڈائری رقم کی تھی اسے بعد میں محمد حسن نے شائع کیا تھا۔ اس میں ایک جملہ تھا ، شاعر تو بس دو ہی ہیں۔ ایک مجازؔ اور دوسرا فیض، لیکن افسوس یہ ہے کہ فیض ؔ کی کلیات کے مقابلے میں ان کے مجموعے کی ضخامت ایک چوتھائی سے بھی کم ہے۔ ریاض ؔ خیر آبادی کا مطلع ہے :
یہ سر بہ مہر بوتلیں ہیں جو شراب کی
راتیں ہیں ان میں بند ہمار ے شباب کی
***