صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


تحقیقاتِ اسلامی

مدیر
سیّد جَلال الدین عمری


ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

اندلس میں حدیث کا تعارف اور اولین محدث

جناب محمد احمد زبیری

    دنیا کے ہر خطہ کے مسلمانوں نے ہر زمانے میں حدیث کی خدمت کی ہے، کیونکہ حدیث وہ ذریعہ اور وسیلہ ہے جو سنت تک رسائی کا سبب بنتا ہے۔ عالم اسلام کے مختلف خطوں میں ہر زمانے میں علماء نے حدیث کی خدمت سر انجام دینے میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ عالم اسلام کے جن خطوں نے حدیث اور دیگر اسلامی علوم و فنون کی خدمت کی اور اس میدان میں بے انتہا پیش رفت کی ان میں اسلامی اندلس نمایاں مقام رکھتا ہے۔ یہاں علوم قرآن، علوم حدیث و فقہ، فلسفہ و کلام، تصوف واحسان، تاریخ وسیرت نگاری، طبیعیات و کیمیا، طب و جراحت، طبقات الارض  و فلاحت، غرض یہ کہ ہر میدان میں بیش قیمت کارنامے سرانجام پائے اور زندگی کے تقریباً سارے ہی شعبوں میں بھر پور ترقی ہوئی۔ اس طرح ہر علم و فن میں ایسے لوگ پیدا ہوئے جن کو علمی میدان میں ایک عظیم مقام حاصل ہوا۔ ان میں سرفہرست شاطبی، ابن عربی ، ابن حزم، ابن جبیر، ابن بیطار، ابن طفیل، یحییٰ بن یحییٰ ، بقی بن مخلد اور ابن عبد البر ہیں۔

    اندلس میں حدیث نبوی کا ورود مسعودتدوین حدیث کے زمانے ہی میں ہو گیا تھا اور اکثر کتابیں ان کے مؤلفین کی زندگیوں ہی میں یہاں پہنچ گئی تھیں۔ اندلس کی زر خیز زمین میں، علم و فضل کی سرپرستی نے اسے عروج پر پہنچا دیا۔ حدیث کے میدان میں اندلس کے محدثین نے جو خدمات سر انجام دیں انہیں کما حقہ اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ اندلس کے سینکڑوں محدثین نے اپنی عمریں خدمت حدیث میں کھپا دیں۔

    مشرق سے جو لوگ اندلس جا کر آباد ہوئے ان کی تعداد کا احاطہ کرنا ناممکن ہے۔ صحابہ کرامؓ میں سے کوئی صحابی اندلس گیا یا نہیں، کسی مؤرخ نے اس کا ذکر نہیں کیا، لیکن صاحب نفح الطیب نے ایک صحابی منیذر رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ اندلس تشریف لائے تھے۔ علامہ مقری ابن الآبار کے حوالے سے رقم طراز ہیں:

    ’’ابن الأبار (۶۲۵ھ)۱؂ نے تکملہ میں لکھا ہے کہ اندلس آنے والوں میں منیذر بھی تھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ صحابی رسولؐ تھے اور افریقہ آبسے تھے‘‘۔

    عبد الملک بن حبیب (۲۳۸ھ) نے ابو محمد الرشاطی کے حوالے سے ان کی اندلس آمد کا ذکر کیا ہے، لیکن ان کے علاوہ کسی اور نے اس کا دعویٰ نہیں کیا ہے۔ بعض حفاظ حدیث نے منیذر کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ منیذر یمانی ہیں اور جاری (۵۴۹ھ)۲؂  نے بھی انہیں صحابۂ کرام میں شمار کیا ہے۔ وہ موسیٰ بن نصیر کے ساتھ اندلس داخل ہوئے۔ ابن بشکوال (۵۷۸ھ)نے لکھا ہے کہ وہ نو عمر صحابہ میں سے تھے۔ ابن عبد البر نے اپنی کتاب الاستیعاب میں بھی انہیں صحابہ میں شمار کیا ہے اور انہیں منیذر افریقی لکھا ہے۔ ابن بشکوال کہتے ہیں کہ ابن عبد البر نے ان سے ایک حدیث روایت کی ہے جو انھوں نے رسول کریم سے سنی تھی۔ ابو علی بن السکن نے اپنی کتاب ’الصحابہ‘ میں ان کا تذکرہ کیا ہے اور ان کے بارے میں لکھا ہے کہ ان سے کئی ایک احادیث مروی ہیں۔ ابن نافع نے ’معجم الصحابہ‘ میں اور امام بخاری (۲۵۶ھ) نے اپنی کتاب ’تاریخ کبیر‘ میں ان کا ذکر کیا ہے۔ امام بخاری لکھتے ہیں کہ ابو المنیذر رسول اللہﷺ کے صحابی تھے اور افریقہ میں جابسے تھے۔ وہ رسول اللہﷺ سے یہ حدیث روایت کرتے ہیں۔

من قال رضیت باللہ ربا وبالاسلام دینا وبمحمد صلی اللہ علیہ وسلم نبیا فانا الزعیم لاٰخذن بیدہ فادخلہ الجنۃ۳؂

جس شخص نے کہا کہ میں اللہ کو اپنا رب مان کر راضی ہوا اور اسلام کو اپنا دین قرار دے کر اور محمدﷺ کو اپنا نبی مان کر، تو اس شخص کے لیے میں ضامن ہوں۔ اس کا ہاتھ پکڑ کر میں اس کو جنت میں لے جاؤں گا۔

    تابعین میں سے جو اصحاب اندلس آئے، ان کی تفصیل بھی علامہ مقری نے نفح الطیب کے چھٹے باب میں لکھی ہے ۔ ان تابعین میں سے ایک موسیٰ بن نصیر ہیں۔ حنش الصنعانی بھی ان تابعین میں سے ہیں جو اندلس آئے۔ ابن بشکوال کی کتاب میں ابن وضاح کے حوالے سے درج ہے کہ ان کا لقب حنش ،نام حسین بن عبد اللہ اور  کنیت ابو علی تھی اور انہیں ’’ابورشدین‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ ابن بشکوال کہتے ہیں کہ ان کا تعلق شام کے علاقے صنعاء سے تھا۔ ابن یونس۴؂ نے اپنی تاریخ ’تاریخ اعیان مصر و  افریقیہ والاندلس‘ میں ان کے بارے میں لکھا ہے: ’’یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہے اور انہوں نے رویفع بن ثابت (م۱۰۰ھ) کے ساتھ مراکش کے غزوات میں حصہ لیا اور اندلس کی جنگی مہموں میں موسیٰ بن نصیر کے ساتھ شریک تھے۔ افریقہ کے ٹیکس اور دیگر واجبات وصول کرنے کی ڈیوٹی پر مامور رہے۔ انتہائی عبادت گزار اور زاہد تھے۔ رات کے وقت چراغ جلا کر نوافل میں قرآن مجید کی تلاوت کرتے اور ساتھ ہی ایک برتن میں پانی رکھ لیتے۔ جب ذرا نیند محسوس ہوتی چہرے پر چھینٹے مار لیتے۔ ۱۰۰ھ میں افریقہ ہی میں ان کا انتقال ہوا‘‘۔ ۵؂

    ابن عساکر نے بھی اپنی تاریخ میں ان کے تفصیلی حالات لکھے ہیں۔ اس   میں ہے کہ یہ صنعاء (شام کے دیہات میں سے ایک گاؤں) کی طرف منسوب ہیں۔ اس سے یمن کا دار الحکومت صنعاء مراد نہیں ہے ۔ ان کے علاوہ ابو عبد اللہ علی بن رباح اللخمی (۱۱۲ھ) بھی اندلس آئے۔ ابن یونس اپنی تاریخ مصر میں ان کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ’’ یہ عام یرموک (۱۵ھ) میں پیدا ہوئے۔ عبد العزیز بن مروان کے ہاں خصوصی قدرو منزلت رکھتے تھے۔ ۱۱۲ھ میں افریقہ ہی میں ان کا انتقال ہوا‘‘۔ ۶؂

    ابو عبد الرحمن عبد اللہ بن یزید المعافری الحبلی (۱۰۰ھ) بھی اندلس آئے۔ ابن بشکوال ان کے حالات میں لکھتے ہیں کہ یہ ابوایوب انصاریؓ اور عبد اللہ بن عمروؓ سے روایت کرتے ہیں ۔ امام بخاری نے اپنی تاریخ کبیر میں ان کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ اہل مصر میں سے تھے۔ ابن یونس اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ ان کا انتقال ۱۰۰ھ میں افریقہ میں ہوا۔ یہ بہت نیک اور صالح بزرگ تھے۔ اہل قرطبہ کے ہاں مشہور ہے کہ یہ قرطبہ میں فوت ہوئے اور وہیں دفن ہوئے ۔ان کی مرقد مرجع خلائق تھی۔ لوگ تبرک کے لیے حاضری دیا کرتے تھے۔ ۷؂

    حیان بن ابی جبلہ کے بارے میں ابن بشکوال نے لکھا ہے کہ یہ قریش کے آزاد کردہ غلام تھے۔ ابو النصران کی کنیت تھی۔ ابو ایوب محمد بن تمیم اپنی کتاب ’تاریخ افریقہ‘ میں لکھتے ہیں : کہ مجھ سے فرات بن محمد نے بیان کیا کہ حضرت عمربن عبد العزیز نے اہل افریقہ کی دینی تعلیم و تربیت کے لیے دس تابعین کو بھیجا جن میں حیان بن ابی جبلہ بھی تھے۔ یہ عمرو بن العاص ، عبد اللہ بن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت کرتے ہیں۔ ان کا انتقال ۱۲۲ ھ میں افریقہ میں ہوا۔

    ابن الفرضی (م۴۰۳ھ) لکھتے ہیں کہ موسیٰ بن نصیر کے ساتھ یہ اندلس پر حملہ آور ہوئے اور قرقشونہ کے قلعے تک پہنچ گئے۔ یہیں ان کا انتقال ہوا۔ مغیرہ بن ابی بردہ بھی ان تابعین میں سے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بھی اندلس آئے ۔ یہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کرتے ہیں۔ ا مام مالک نے اپنی مؤطا میں ان سے احادیث روایت کی ہیں۔ امام بخاری نے بھی اپنی تاریخ میں ان کا ذکر کیا ہے۔

    حیاۃ بن رجا التمیمی کے بارے میں ابن حبیب (م۲۳۸ھ) نے لکھا ہے کہ یہ موسیٰ بن نصیر کے ساتھ اندلس آئے۔ علامہ مقری ان کے متعلق لکھتے ہیں کہ میرے خیال میں یہ کہنا درست نہیں کہ حیاۃ بن رجا التمیمی اندلس آئے بلکہ یہ رجاء بن حیاۃ ہیں۔

    عیاض بن عقبہ الفہری بھی ان تابعین میں سے ہیں جن کے بارے میں ابن حبیب نے لکھا ہے کہ وہ ان چار تابعین میں سے ہیں جنہوں نے اندلس کا محاصرہ کیا اور مالِ غنیمت میں کسی قسم کی خیانت نہیں کی ۔

    ان تابعین میں عبد الجبار بن ابی سلمہ بن عبدالرحمن بن عوف بھی ہیں جن کے دادا عشرۂ مبشرہ میں سے ہیں۔ ان میں مغیرہ بن ابی بردہ نشیط بن کنانہ بھی ہیں جو حضرت ابوہریرۃؓ سے روایت کرتے ہیں۔ امام مالک نے اپنی مؤطا میں ان سے احادیث روایت کی ہیں ۔ امام بخاری نے ’تاریخ‘ میں ان کا تذکرہ کیا ہے۔ موسیٰ بن نصیر انہیں مختلف فوجی مہموں پر روانہ کرتے تھے۔ ۸؂

    ان تابعین میں عبد اللہ بن شماسہ الفہری بھی ہیں۔ ابن بشکوال ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ مصری تھے۔ امام بخاری نے بھی اپنی تاریخ میں ان کا ذکر کیا ہے۔۹؂

    حمیدی (م۴۸۸ھ) نے اپنی تالیف جذوۃ المقتبس میں پانچ ایسے تابعین کا ذکر کیا ہے جو اندلس آئے۔ ان میں محمد بن اوس بن ثابت انصاری،حنش بن عبد اللہ الصنعانی، عبد الرحمن بن عبد اللہ الغافقی اور موسیٰ بن نصیر شامل ہیں جب کہ انہوں نے زید بن قاصد السلکی مصری کا اضافہ کیا ہے۔ ۱۰؂

    اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ دینی اور مذہبی رجحانات کی جو فصل فتح اندلس کے وقت موسیٰ بن نصیر، طارق بن زیاد، ان کے ساتھ مجاہدین اسلام، محدثین کرام اور فقہائے عظام نے لگائی تھی وہ بعد میں نمو پاتی رہی، یہاں تک کہ اسلامی اندلس کے آئندہ ادوار میں وہ لہلہانے لگی۔ ہمارے مؤرخین اور مصنفین کے ہاں اس نکتہ کو عام طور پر درخور اعتناء نہیں سمجھا جاتا،مگر یہ حقیقت ہے کہ یہ ان ہی کی مساعی جمیلہ اور خلوص نیت کا کرشمہ تھا کہ وہاں دین کا بہت چرچا رہا۔ دینی علوم کا حصول مسلمانان اندلس کی ثقافتی سرگرمیوں کا اہم ترین حصہ بنارہا اور اس ماحول نے آگے چل کر دینی علوم کے تمام شعبوں کی آبیاری اور نشو ونما کے اسباب فراہم کیے۔ اگر صرف ابن الفرضی (م۴۰۳ھ)، الحمیدی (م۴۸۸ھ) اور ابن بشکوال(م۵۷۸ھ) ہی کی کتابوں کو سامنے رکھا جائے تو اندلس کے ہزاروں مفسرین ، محدثین ، فقہاء اور قضاۃ کی فہرست بآسانی مرتب کی جاسکتی ہے۔

    اندلس میں سب سے پہلے حدیثِ نبوی کو متعارف کروانے کی سعادت کسے حاصل ہوئی؟ اس ذیل میں اندلس کے مشہور تاریخ نویس ابن الفرضی لکھتے ہیں کہ وہ صعصعۃ بن سلام شامی(م۱۹۲ھ) ہیں۔ ابن الفرضی لکھتے ہیں:

یکنی ابا عبد اللہ ، یروی عن الاوزاعی وعن سعید بن عبدالعزیز ونظرآۂما من الشامیین۔ وکانت الفتیاداء۔۔رۃ علیہ بالاندلس

ان کی کنیت ابو عبد اللہ ہے اور یہ امام اوزاعی، سعید بن عبد العزیز اور دیگر شامی علماء سے روایت کرتے ہیں۔ عبد الرحمن بن معاویہ کے دور حکومت اور ہشام بن

أیام الامیر عبد الرحمن بن معاویۃ وصدراً من ایام ہشام بن عبدال۔رحمن وولی ا لصلاۃ بقرطبۃ وفی ایامہ غرست الشجر فی المسجد الجامع وہو مذہب الاوزاعی والشامیین ویکرہہ مالک واصحابہ۔

عبد الرحمن کی حکومت کے ابتدائی دنوں میں مفتی اندلس کے منصب پر فائز تھے اور جامع قرطبہ کے امام تھے۔ ان کی امامت کے زمانے میں جامع قرطبہ میں شجر کاری کی گئی جو کہ امام اوزاعی کے مسلک میں جائز ہے۔ جب کہ امام مالک اور ان کے اصحاب اس کو مکروہ قرار دیتے ہیں۔

    اسپین کی اسکالر ازابیلا فائرو، جنہوں نے اندلس میں حدیث اور محدثین کے حوالے سے کافی کام کیا ہے، وہ صعصعۃ بن سلام کے بارے میں لکھتی ہیں:

"In the case of Sa'sa'a b Salam, it is the Egyptian traditionist lbn Yunus (d.347/ 958) that names him as the first who introduced hadith into al-Andalus, without any mention as to where he took this information from or whether his source was Andalusian or Oriental".11

جہاں تک صعصعۃ بن سلام کا معاملہ ہے، مصری راوی ابن یونس انہیں اندلس میں اولین محدث کے طور پر ذکر کرتے ہیں، لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ ان کی معلومات کا ذریعہ اندلسی ہے یا مشرقی۔

    اولین محدث کے ذیل میں دوسرا نام معاویہ بن صالح(م۱۵۸ھ)کا آتا ہے۔ معاویہ بن صالح بھی حمص (شام) کے رہنے والے تھے۔ اُن کی کنیت ابو عمرو یا ابو عبدالرحمن بیان کی جاتی ہے۔ معاویہ بن صالح کا معاملہ صعصعۃ بن سلام سے کافی مختلف ہے۔ یہ مشہور محدث اور جلیل القدر محدثین کے شیخ تھے۔ ان کی روایات صحاح ستہ میں بخاری کے علاوہ دیگر کتب حدیث میں مذکور ہیں اور یہ امام مسلم کی شرائط پر پورا اتر تے ہیں۔

    معاویہ بن صالح عبد الرحمن بن معاویہ سے پہلے اندلس آئے اور اشبیلیہ میں قیام کیا۔ عبد الرحمن بن معاویہ نے انہیں شام بھیجا تاکہ اُس کی بہن ام اصبغ کو اندلس لے آئیں۔ ام اصبغ نے اندلس آنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں بڑھاپے کی وجہ سے اتنا طویل سفر نہیں کرسکتی، اب میری موت کا وقت قریب ہے۔ اس سفر سے واپسی کے بعد عبدالرحمن بن معاویہ نے انہیں قاضی بنا دیا۔ ۱۲؂

    معاویہ بن صا لح ، اسحاق بن عبد اللہ ، یحییٰ بن سعید انصاری، عبد الرحمن بن جبیر بن نفیر، مکحول شامی، ابن راہویہ، راشدبن سعد، عبد اللہ بن ابی قیس، العلاء بن حارث، ربیعہ بن یزید، حبیب بن عبید سے روایت کرتے ہیں۔ ان سے روایت کرنے والوں میں ثوری ، لیث بن سعد، ابن وہب، معن بن عیسیٰ ، زید بن حباب ، عبد الرحمن بن مہدی، حماد بن خالد الخیاط، بشر بن العمری، اسدبن موسیٰ اور لیث کے کاتب ابو صالح قابلِ ذکر ہیں۔۱۳؂

    ابو طالب ، احمد کے واسطے سے روایت کرتے ہیں کہ معاویہ بن صالح بہت پہلے حمص کو چھوڑ کر چلے گئے اور یہ ثقہ ہیں۔ جعفر طیالسی ابن معین کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ معاویہ ثقہ ہیں۔ ابن ابی خثیمہ اور الدوری دونوں اپنی تاریخ میں ابن معین کے واسطے سے بیان کرتے ہیں کہ یحییٰ بن سعید کے معیار نقد پر معاویہ پورے نہیں اترتے۔ ۱۴؂

    لیث بن عبدہ روایت کرتے ہیں کہ یحییٰ بن معین کہتے ہیں: ابن مہدی جب معاویہ بن صالح کی روایات بیان کرتے تو یحییٰ بن سعید انہیں قبول نہ کرتے اور کہتے یہ کیسی احادیث ہیں؟۱۵؂

    علی بن الم۔دینی یحییٰ بن سعید کے واسطے سے بیان کرتے ہیں کہ ہم ان کی روایات کو قبول نہیں کیا کرتے تھے۔  ۱۶؂

    عبد الرحمن بن مہدی انہیں ثقہ قرار دیتے ہیں۔

    ابو صا لح الفراء ابو اسحاق الفزاری سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اس پایے کے راوی نہیں کہ ان سے احادیث روایت کی جائیں۔ ۱۷؂

    عجلی اور امام نسائی انہیں ثقہ قرار دیتے ہیں ۔ ابوزرعہ کہتے ہیں کہ وہ ثقہ محدث ہیں۔ ابن سعد کہتے ہیں کہ یہ اندلس میں قاضی تھے اور ثقہ اور کثیر الروایت تھے۔ ۱۸؂

    محمد بن عبد الملک بن ایمن کہتے ہیں کہ عراق میں میں نے دیکھا کہ معاویہ بن صالح کی روایات کو بڑی قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

    محمد بن عبد الملک بن ایمن اندلس کے رہنے والے تھے۔ طلب حدیث کے لیے انہوں نے بلاد مشرق خصوصاً عراق کا سفرکیا۔ ان کا علمی سفر ۲۱۸ھ سے ۲۳۰ھ پر محیط ہے۔ پھر جب انہیں معاویہ بن صالح کی قدرو منزلت کا اندازہ ہوا تو اندلس جاکر ان کی کتابوں کی تلاش شروع کی، لیکن انہیں مایوس ہوناپڑا۔ جس کا سبب انہوں نے اپنے ہم مکتب یحییٰ بن معین سے بیان کیا تھا۔

    الخشنی لکھتے ہیں:

    ’’ابن ایمن کہتے ہیں: جب میں اندلس واپس آیا اور معاویہ بن صالح کی کتابوں کی تلاش شروع کی تو میرے ہاتھ مایوسی کے علاوہ کچھ نہ آیا، کیونکہ یہ علمی ذخیرہ اہل اندلس کی کم ہمتی کی وجہ سے ضائع ہو چکا تھا‘‘۔ ۱۹؂

    الخشنی، قضاۃ قرطبہ میں لکھتے ہیں: ’’جب امیر عبد الرحمن نے معاویہ بن صالح کو شام بھیجا تو اس سفر کے دوران انہوں نے حج بھی کیا۔ معاویہ بن صالح نے مسجد حرام میں بہت سے شیوخ کے حلقے دیکھے جن میں وہ حدیث کی درس و تدریس میں مشغول تھے۔ ان شیوخ میں عبد الرحمن بن مہدی، یحییٰ بن سعید ا لقطان اور ان کے پایے کے دیگر محدثین موجود تھے۔ معاویہ بن صالح نے دو رکعت نماز اد۔اکی، اس کے بعد ایک حلقے میں جا کر بیٹھ گئے۔ انھوں نے بعض احادیث ابو زہرہ کے واسطے سے حدیر بن کریب عن جبیر بن نفیر، عن ابی الدرداء عن رسول اللہ کی سند سے بیان کیں۔ جب وہاں موجود لوگوں نے یہ احادیث سنیں تو کہا: اے شیخ! جھوٹ نہ بولو اور اللہ سے ڈرو، کیونکہ روئے زمین پر اس سند سے احادیث بیان کرنے والا صرف ایک شخص ہے، جو اندلس میں مقیم ہے اور اسے معاویہ بن صالح کہا جاتا ہے۔ معاویہ بن صالح نے جواب دیا: وہ میں ہی ہوں۔ یہ سنتے ہی تمام حلقوں میں موجود لوگ ان کے گرد جمع ہو گئے اور انہوں نے ان سے احادیث لکھنی شروع کر دیں۔

    شاید اسی وجہ سے محمد بن وضاح کہتے ہیں:

    ’’مجھ سے یحییٰ بن یحییٰ نے بیان کیا کہ اندلس میں جس شخص نے سب سے پہلے حدیث کو متعارف کروایا وہ معاویہ بن صالح حمصی ہیں‘‘۔  ۲۰؂

    ان کی وفات کے بارے میں ابو سعید بن یونس لکھتے ہیں:

    ’’معاویہ مصر آئے پھر اندلس چلے گئے۔ جب عبد الرحمن بن معاویہ بن ہشام اندلس آیا اور اس ملک پر قابض ہو گیا تو اس نے معاویہ سے رابطہ کیا اور انہیں شام بھیجا، پھر اندلس میں انہیں قضا کا منصب دیا‘‘۔

    مذکورہ بالا محدثین مشرق سے اپنے دامن کو علم حدیث سے بھرے ہوئے اندلس پہنچے اور اس کی علمی سیرابی کا سبب بنے۔ اہل اندلس میں سے سب سے پہلے جو محدث بلادمشرق گئے اور علوم اسلامیہ اور علم حدیث سے آراستہ ہو کر واپس آئے وہ غازی بن قیس (م ۱۹۹ھ) تھے۔ وہ قرطبہ کے رہنے والے تھے۔ ان کی کنیت ابو محمد تھی۔ انھوں نے امیر عبد الرحمن بن معاویہ کے زمانے میں اندلس سے مشرق کا سفر کیا۔ وہاں براہِ راست امام مالک بن انس (۱۷۹ھ) سے الموطاسنی۔ ان کے علاوہ محمد بن عبدالرحمن بن ابی ذئب، عبد الملک بن جریج اور امام اوزاعی سے حدیث حاصل کی۔ قرآن کریم کی تعلیم اہل مدینہ کے قاری نافع بن ابی نعیم سے حاصل کی، پھر اندلس آ کر قرآن وحدیث کی تعلیم عام کی۔ یہ امام مالک سے اُس زمانے میں ملے جب وہ الموطاکی تالیف میں مشغول تھے۔ انہیں الموطا زبانی یاد تھی۔ علم وحکمت کے موتیوں سے دامن بھرکے وہ اندلس آئے اور قرآن و حدیث کی درس و تدریس میں مشغول ہو گئے ۔ ایک دن ایک شخص نے ان کا حافظہ جانچنے کے لیے الموطا کی احادیث ترتیب بدل کر پڑھنی شروع کیں۔ غازی بن قیس نے اُس شخص کو روکا اور کہا: ’’ایسا نہ کرو، تم لوگوں کے سامنے وہ بات ظاہر کرنا چاہتے ہو جو میں چھپانا چاہتا ہوں، یعنی میں نہیں چاہتا کہ لوگوں کو پتا چلے کہ مجھے الموطا زبانی یاد ہے‘‘۔ ۲۱؂

    وہ انتہا درجے کے متقی پرہیزگار اور عبادت گزار تھے۔ ان کے حوالے سے ابن الفرضی لکھتے ہیں:

    ’’اللہ کی قسم جب سے میں بالغ ہوا ہوں میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور اگر حضرت عمر بن عبد العزیز یہ بیان نہ کرتے تو میں بھی بیان نہ کرتا اور انہوں نے نہ فخر کے لیے یہ بیان کیا اور نہ ریاکاری کے لیے، بلکہ اس لیے بیان کیا تاکہ ان کی پیروی کی جائے‘‘۔ ۲۲؂

    احمد بن عبد۔ البر (۴۶۳ھ) کہتے ہیں:

    ’’غازی بن قیس دانش مند، نکتہ رس اور کثرت سے احادیث بیان کرنے والے تھے، مسائل کا گہرا ادراک رکھتے تھے، علم قرآن کے امام تھے، رات کو تہجد میں قرآنِ مجید کی تلاوت کیاکرتے تھے اور رات بھر کثرت سے نوافل پڑھتے تھے‘‘۔ ۲۳؂

    غازی بن قیس نے اہل اندلس کو سب سے پہلے موطا سے متعارف کروایا اور نافع کی قرأت کی ترویج بھی انہوں نے کی۔ ۲۴؂

    ان کے زہد اور تقویٰ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں قاضی بننے کی پیش کش کی گئی، لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ ۲۵؂

***

ڈاؤن لوڈ کریں 

   

   ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول