صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


تفہیم و تحسین

کلیم احسان بٹ

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

زبان اور ہمارا قومی تشخص

زبان کسی بھی قوم کی انفرادیت اور تشخص کے اظہار کا ذریعہ ہو سکتی ہے مگر بد قسمتی سے ہماری قومی زبان اس افتخار سے محروم ہے۔ اس محرومی کے اسباب کا تجزیہ کشادہ دلی اور وسعت نظری سے کرنا ضروری ہے۔ کسی بھی تعصب یا جانبداری کا مظاہرہ درست نتائج تک پہنچنے میں ممد و معاون ثابت نہیں ہو سکتا۔

اگرچہ اسلام کے اثرات بہت پہلے ہندوستان کی سر زمین تک پہنچ چکے تھے تاہم بر صغیر میں اسلام ، ایران اور افغانستان کی طرف سے آنے والے مسلمان صوفیائے کرام اور افواج کے ذریعے،  بہت تیزی سے پھیلا۔یہ صوفیائے کرام انفرادی سطح پر بھی تبلیغ کے فرائض سر انجام دے رہے تھے اور مسلمان حملہ آوروں کے ساتھ بھی یہاں پر وارد ہوئے۔اسلام کا پیغام چونکہ عربی زبان میں تھا اور ہم تک فارسی زبان رکھنے والوں کے ذریعے پہنچا اس لیے ہمارے لیے باعث افتخار یہی دو زبانیں قرار پائیں حالانکہ صوفیائے کرام نے تبلیغ کی غرض سے مقامی زبان اور مزاج کا بھی خیال رکھا۔

انگریزوں کی بر صغیر میں آمد جہاں عسکر ی و سیاسی محاذ پر اہل ہندوستان کی شکست پر منتج ہوئی وہاں ثقافتی سطح پر بھی انگریزوں نے اہم ترین کامیابیاں حاصل کیں۔انہوں نے ایک ایسی زبان کی سر پرستی شروع کر دی جو نہ ہندوؤں اور نہ ہی مسلمانوں کے لیے کسی تفاخر یا اعزاز کا باعث تھی۔ اس سلسلے میں فورٹ ولیم کا لج کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اردو کے کم سن پودے کی آبیاری انگریزوں نے کچھ اس طرح کی کہ ۱۸۵۷ تک یہ ایک تناور درخت بن چکا تھا۔ اس میں عربی و فارسی الفاظ کی کثرت تھی لہٰذا ہندو اسے مسلمانوں کی زبان سمجھتے تھے اور مسلمان بھی بزعمِ خود انہی وجوہات کی بنا پر اسے اپنی زبان سمجھنے لگے۔

دوسری طرف انگریزی زبان کے فروغ اور عربی و فارسی کی بیخ کنی کی حکمت عملی اختیار کی گئی اور اس سلسلے میں علی گڑھ کالج کی خدمات قابل ذکر ہیں۔ اس طرزِ عمل کے نتیجے میں اردو زبان ایک ایسے لشکر کی مانند ہو گئی جس کی رسد کے راستے مسدود ہوں اور اس کے پاس ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہو۔لہٰذا اردو زبان انگریزی تسلط میں سانس لینے پر مجبور ہو گئی۔

قیام پاکستان کے بعد اردو ہی ایک ایسی زبان تھی جو ہمارے لیے رابطے کا کام سر انجام دے سکتی تھی لہٰذا اسے ہی قومی زبان قرار دیا گیا۔اردو ہندی تنازع کی بنا پر مسلمان اب اس سے تھوڑا بہت جذباتی لگاؤ بھی رکھتے تھے لیکن حقیقت یہی ہے کہ جس طرح تخت و تاج چھین کر مسلمانوں کو در بدری کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا گیا اسی طرح ثقافتی سطح پر بھی وہ اب در بدر ہو چکے تھے۔ضرورت صرف ایک رابطے کی زبان کی تھی۔ وہ انگریزی سمیت کوئی بھی دوسری زبان ہو سکتی تھی۔ اردو کو صرف یہی برتری حاصل تھی کہ اس کی جڑیں بہر حال ہماری ثقافت میں پیوست تھیں۔

تاہم اردو کو بطور قومی زبان اپنانے سے اس کی ترقی کے لیے نئے در وا ہو گئے۔ اس کا تحفظ اور فروغ ہماری قومی ذمہ داری بن چکا ہے۔اس لیے یہ ہمارا جذباتی مسئلہ بھی ہونا چاہیے۔ اب یہ لگاؤ ہی اسے ہمارے لیے وجہ افتخار بنا سکتا ہے۔

پاکستان ایک مضبوط ملک اور پاکستانی ایک عظیم قوم کی طرح دنیا کے نقشے پر ابھر رہے ہیں۔ایٹمی دھماکوں کے اثرات سیاسی و عسکری ہی نہیں بلکہ ثقافتی محاذ پر بھی اردو زبان کے تحفظ اور ارتقا کی ضمانت بن گئے ہیں۔انگریز کی سیاسی و ذہنی غلامی کا دور ختم ہوتے ہی ہم انگریزی کا جوا اتار پھینکیں گے۔ ہمیں پہلے ایک قوم بننا ہے اس کے بعد جو بھی ہماری قومی زبان ہو گی وہی ہمار ا افتخار ہو گی۔ یہی وہ وقت ہو گا جب ہمیں از سر نو سوچنا ہو گا کہ کیا

۱۔ہمیں اردو زبان کو زندہ رکھنے کے لیے عربی و فارسی زبانوں سے از سر نو

اپنے تعلق کو استوار کرنا ہو گا۔

۲۔دیگر بین الاقوامی زبانوں سے اخذ و استفادہ کے عمل سے گزرنا ہو گا

یا

۳۔مقامی زبانوں کو اردو کی بھٹی سے اس طرح گزارنا ہو گا کہ ہم ایک قوم بن کر ایک قومی زبان پر فخر کر سکیں۔شاید اسی طرح اردو ہمارے قومی تشخص کے اظہار کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول