صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


شاہ حسین کا متن: ایک تجزیاتی مطالعہ

فرخ یار

ڈاؤن لوڈ کریں 

 ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

                                    اقتباس

    شاہ حسین (۱۵۹۹-۱۵۳۸) کے کلام کی تدوین کے لئے مربوط شعوری اور انفرادی کوششوں کی ابتدا کہیں 20 ویں صدی کے آغاز سے ہو گئی تھی۔ مختلف قلمی بیاضیں ، قلمی نسخے اور قلمی مسودے اس باقاعدہ تدوین کی بنیاد بنے۔ مشہور قلمی بیاضوں میں دو کا ذکر ضروری ہے، پہلی بیاض سید شرافت نو شاہی بحروف اردو تھی جو ایک محتاط اندازے کے مطابق 1770ء کی حدود میں لکھی گئی۔ دوسری بیاض ، مملوکہ پروفیسر دیوندر سنگھ ودیارتھی ہے۔ یہ بیاض اندازاً 1800ء کے زمانے میں تحریر ہوئی۔ قلمی نسخوں اور مسودوں کی ایک لمبی فہرست ہے جو پنجاب یونیورسٹی لاہور پنجاب یونیورسٹی چندی گڑھ، خالصہ کالج امرتسر، کتب خانہ بھاشا وبھاگ پٹیالہ اور کئی صاحبان علوم فنون کے ذاتی کتب خانوں کی زینت ہیں ۔

    کلام شاہ حسین پہلی دفعہ 1901ء میں کتابی صورت کا حصہ بنا جب’’ شبد شلوک بھگتاں دے‘‘ مطبوعہ‘ مطبع مفید عام لاہور بحروز گر مکھی چھپی’’ شبد شلوک بھگتاں دے‘‘شمالی ہندوستان کے مختلف سدھوں ، ناتھیوں ، بھگتوں اور صوفیوں کی شاعری کا انتخاب ہے جس میں شاہ حسین کی 130 سے زائد کافیاں شامل کی گئیں ۔

    حسین کی کافیوں کا ایک انتخاب میسرز جے ایس سنت سنگھ نے ’’کافیاں شاہ حسین کیاں ‘‘ 1915ء میں چھاپا اس کتابی صورت میں چھپنے والے انتخاب میں حُسین کی کل 25کافیاں درج ہیں ۔ ان کافیوں میں متن ترتیب اور وزن تینوں سطح پر سقم پایا جاتا ہے۔ 1934ء میں باوا بدھ سنگھ نے مشہور کلاسکی پنجابی شعرا کا منتخب کلام ’’ہنس چوگ‘‘ چھاپا جس میں شاہ حسین کی 19کافیاں دی گئیں ۔ ان میں ایک کافی ’’شک پٹیاں بے شک ہوئی‘‘ کسی اور انتخاب کا حصہ نہیں ہے۔

    کلام شاہ حسین کی تدوین اور انتخاب کو پہلی کامیاب علمی سرگرمی ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ نے 1942ء میں ’’مکمل کلام شاہ حسین لاہوری‘‘ چھاپ کر دکھائی۔ ڈاکٹر دیوانہ کی یہ تالیف بحروف اردو ہے۔ جو پہلی اشاعت کی سات دہائیوں بعد بھی حسین کے کلام کے تناظر میں بنیادی حوالہ مانی جاتی ہے۔ شاہ حسین کے حوالے سے بعد میں چھپنی والی تمام کتابیں کسی نہ کسی سطح پر اپنے اعتبار کو اس کتاب کی طرف ضرور رجوع کرتی ہیں ۔ ’’حسین چناولی‘‘ پروفیسر پیارا سنگھ پدم کی تحقیقی کاوش ہے جو 1967ء میں بحروف گورمکھی چھپی۔ یہ کتاب بھی شاہ حسین کی کافیوں کا انتخاب ہے جس میں 151کافیاں ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ کی تالیف سے ہی لی گئیں مگر گیارہ کافیاں ایسی ہیں جنہیں مولف نے دیگر ذرائع سے اکٹھا کیا۔ کچھ شلوک اور کافیاں ایسی بھی ہیں جو ڈاکٹر دیوانہ کے انتخاب میں تو شامل ہیں مگر پروفیسر پدم نے انہیں اپنی کتاب میں شامل نہیں کیا۔ شاہ حسین کی کافیوں کے اس انتخاب میں حسین رچناولی اس لیے بھی اہم ہے کہ اس میں متن کی اصلاح کی اولین کوششوں کا سراغ ملتا ہے اوزان کے مسائل کم ہیں ، مصرعے رواں اور ترتیب بہتر ہے۔ کافیوں کی ترتیب مضامین کے اعتبار سے رکھی گئی جس کی بنیاد مولف کے ذاتی مشاہدے پر ہے۔

    ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ کی تالیف ’’مکمل کلام شاہ حُسین لاہوری‘‘ پر بنیاد کر کے 1966میں مجلس شاہ حُسین نے ’’کافیاں شاہ حُسین‘‘ کے نام سے حُسین کا کلام چھاپا، اس انتخاب میں کچھ کلام ڈاکٹر دیوانہ کی تالیف کے علاوہ بھی تھا۔

    1979ء ڈاکٹر سید نذیر احمد کی کتاب ’’کلام شاہ حسین‘‘ شاعر کے کلام کو سمجھنے کے لئے معنی اور شخصیت کی پرتیں کھولنے کی مخلصانہ کاوش ہے۔ متن Text پر ان کا کام انہیں تمام مولفین ، مرتبین اور محققین سے ممتاز کرتا ہے۔ بلا شبہ ڈاکٹر سید نذیر احمد تہذیبی مزاج کے حامل ایک بڑے آدمی تھے۔ مگر وہ شاہ حسین کو ثقافتی تاریخ Cultural historyتقابلی ادب، اور شمالی ہندوستان میں 14ویں ، 15ویں اور 16ویں صدی میں جنم لینے وای مختلف فکری اور سماجی تحریکوں کے پس منظر میں رکھ کر نہ دیکھ سکے۔ اس کے باوجود شاہ حسین کی تفہیم کو ان کے اشارے اور حاشئے ایک سمیت نما کا کام دیتے ہیں ۔

    شاہ حُسین کے متن پر ڈاکٹر نذیر احمد کی تجزیاتی رسائی ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ انہوں نے مختلف متون کو اکٹھا کیا۔ اس چھانٹا پرکھا، ان کا تقابل کیا، اپنی تحقیق اور تجزئیے کو اپنے زمانے کے علمی اور ادبی لوگوں کے ساتھ Shareکیا۔ یوں ڈاکٹر نذیر احمد کی ان تھک کوششوں سے ہمیں شاہ حسین کا ایک ایسا متن ملا جو پیشتر تمام متون کے مقابلہ میں بہتر ہے۔

    محمد آصف خان نے 1987ء میں مجلس شاہ حُسین کے شائع کردہ انتخاب ’’کافیاں شاہ حُسین‘‘ کو پنجابی ادبی بورڈ کی طرف سے چھاپا محمد آصف خان پنجابی زبان و ادب کے ساتھ جذباتی علمی اور فکری تینوں سطح پر جڑے ہوئے تھے۔ 1988ء والے اس انتخاب میں محمد آصف خان نے کچھ ترامیم و اضافے کئے، حسب ضرورت ہر کافی کی لغت بنائی اور استھائی کو ہر انترے کے بعد دہرانے پر زور دیا۔ استھائی کو دہرانے کی رمز ہر انترے کے مضمون کو کلیت (Totality)میں استھائی کے بنیادی مضمون کے ساتھ منسلک کرتی ہے۔ شاہ حسین کے متن کے حوالے سے آخری معلوم کوشش ’’کلام حضرت مادھو لال‘‘ کی صورت میں مقصود ثاقب نے کی ہے۔ جس نے محتاط رویہ اپنا کر کئی کافیوں میں برمحل ، متن کی غلطیاں اور بھلیکے دور کئے۔مقصود ثاقب نے کافیوں کی لغت میں اضَافہ کیا جس سے کافی اور شاہ حسین دونوں کو سمجھنے میں قاری کو آسانی ہوئی۔

    بلاشبہ شاہ حُسین پنجاب کی شعری روایت کا اہم ترین تخلیقی نمائندہ ہے۔ تصوف میں اس کی پیش رفت نے انسانی رشتوں کی سچائی کے ساتھ جڑ کر اس کے لہجے میں نرمی، مناسبت اور زندگی کا تحرک پیدا کیا۔ بابا فرید کے بعد شاہ حسین ہی وہ سنگ میل ہے جس نے پنجاب کے تناظر میں شعری اور وجودی اظہار سے ترکیبی ثقافت کی تشکیل کے لئے بھرپور معاونت کی۔ پنجابی شعریات کو شاہ حسین نے نئے مضامین نئے استعاروں نئی تراکیب سے متعارف کروایا۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

 ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔