صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


تبصرات


ڈاکٹر محمد شرف الدین ساحل

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                              ٹیکسٹ فائل

 دوہے کوکن کے

مصنف کانام    :  ساحرشیوی

’’دوہے کوکن کے ‘‘ ساحر شیوی کی تازہ تصنیف ہے جو اکتوبر ۲۰۰۵ء میں شائع ہوئی ہے۔ یہ کتاب ۲۸۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں ابتدا میں ساحر شیوی کے دوہوں کی افادیت و اہمیت کو واضح کرنے کے لیے انیس ممتاز اہل قلم کے تحقیقی و تنقیدی مضامین ہیں۔ اس کتاب کو ساحر شیوی نے ڈاکٹر فراز حامدی کے نام منسوب کیا ہے جو ایک نمایاں دوہا نگار ہیں۔ اردو میں دوہوں کو فروغ دینے کاسہرا بھی ان کے سر ہے۔ کتاب میں تحقیقی و تنقیدی مضامین کا سلسلہ ص:۱۳۸ پر متنہی  ہوا ہے۔ گویا تقریباً نصف کتاب ساحر شیوی کی ادبی حیثیت اور ان کے دوہے کی خوبیوں کو اجاگر کرنے میں کام آئی ہے۔ دوہوں کا سلسلہ ص:۱۳۹ سے شروع ہوا ہے۔ ان کو ان عنوانات کے تحت تقسیم کیا گیا ہے :حمدیہ دوہے ، نعتیہ دوہے ، منقبتی دوہے ، اردو دوہے ، مردف دوہے ، معریٰ دوہے ، حمدیہ دوہا غزل، نعتیہ دوہا غزل، دوہا غزل، دوہا گیت، دوہا دوبتیاں اور دوہا قطعات وغیرہ۔ اس تقسیم کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ساحر شیوی نے دوہا نگاری میں اپنا خون پسینہ ایک کیا ہے۔
دوہا خالص ہندوستانی صنف سخن ہے۔  اس کو عروج دینے میں چندر بروائی، امیر خسرو، سنت کبیر داس، بابا فرید، گرو نانک، تلسی داس، میرا بائی اور سور داس کے اسمائے گرامی قابل احترام ہیں۔ اس کے دو مصرعے جو بشکل مطلع ہوتے ہیں ۔۴۸۲۴۲۴ ماتراؤں پر پورے اترتے ہیں۔ یہ دونوں حصے چار حصوں میں منقسم ہوتے ہیں۔ ان دونوں مصرعوں کے درمیانی حصے کو وشرام ( وقفہ) کہا  جاتا ہے۔
اس قدیم ہندوستانی صنف سخن کواردو شعرا نے برسوں قابلِ اعتنا نہ سمجھا۔ سب سے پہلے عظمت اللہ خان نے اس کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ جمیل الدین عالی اردو کے وہ پہلے شاعر ہیں جنھوں نے اس کو اپنی فکر کا محور بنایا۔ ان کے بعد ڈاکٹر فراز حامدی، ندا فاضلی، بھگوان داس اعجاز، بیکل  اتساہی اور ڈاکٹر سیفی سرونجی وغیرہ نے اس کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس صنف کو ڈاکٹر فراز حامدی کی تحریک پر ساحر شیوی  نے بھی اپنایا اور اس قدر دوہے کہے کہ یہ مجموعہ تیار ہو گیا۔
ساحر نے اپنے دوہوں میں کئی موضوعات کو چھوا ہے۔ حمد و مناجات، نعت و منقبت اور عشقیہ خیالات وغیرہ۔ وہ خدا کا نام لے کر آغاز یوں کرتے :
کرتا ہوں میں ابتدا، لے کر تیرا نام
یا رب میرے کام کا، بہتر ہو انجام
حمدیہ دوہوں میں ان کا یہ دوہا بہت معنی خیز ہے۔ یہی تو اصل ایمان ہے :
حشر میں جس کا شرک سے ، ہو گا دامن صاف
اس کے گناہوں کو خدا، کر ہی دے گا معاف
اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے۔ وہ ہر گناہوں کو معاف کر سکتا ہے۔ لیکن شرک کو نہیں۔ ہر گنہگار کو چھوڑ سکتا ہے لیکن مشرک کو نہیں۔ اس کی بخشش کسی حال میں نہیں ہو سکتی۔ اسے نارِ جہنم میں جل کر راکھ ہی ہونا ہے۔ نعتیہ دوہوں میں سے یہ دو دوہے دیکھئے :
وہ اپنی تقدیر پر، ناز نہ کیوں فرمائے

آ کر جس کے خواب میں ، تو جلوہ دکھلائے
(ص:۱۴۸)
خوش قسمت ہے وہ بہت، جس نے پایا پیار

آئے جس کے خواب میں ،طیبہ کے سرکار
(ص:۱۵۳)
ہے نا ایک ہی مضمون۔ لیکن خوب ہے۔ بیشک جس کو خواب میں نبی کریم ﷺ کا دیدار ہو جائے وہ بڑا ہی خوش نصیب ہے اور اس نعتیہ دوہے میں رسول اکرم ﷺ کی شخصیت اور ان کے کردار کو جس خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے :
گزرے تو جس راہ سے ، رستے کو مہکائے

ہر کنکر اس راہ کا، پھولوں سا ہو جائے
(ص:۱۵۳)
لیکن ساحر شیوی نے غضب یہ کیا کہ اس بے مثال خیال میں معمولی سی تبدیلی کر کے ایک دنیاوی معشوقہ کو بھی گرفت میں لے لیا۔ دیکھئے :
گزرے تو جس راہ سے ،مستی کو چھلکائے

کنکر بھی اس راہ کا، پھولوں سا ہو جائے
(ص:۱۷۶)
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ساحر شیوی کو اپنی فکر پر قابو نہیں ہے۔ ان کے یہاں کسی مقصد کا تعین نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں جگہ جگہ تضاد در آیا ہے۔ یہ دوہے دیکھئے عزم و ہمت کی تعلیم دیتے ہیں :
یا رب یوں وشواس سے ، کر دے دل معمور
غم، جرأت کو دیکھ کر، ہو جائیں کافور
عزم و ہمت کے اگر، کوئی دیپ جلائے
ساحر غم کی رات ہی، سکھ کا سویرا لائے
لیکن ان دوہوں میں وہ غم سے شکست کھا چکے ہیں۔ اپنا یقین کھو بیٹھے ہیں :
سرپر سایہ جبر کا، دل میں خوف، ہراس
جی لینے کی چین سے ، ٹوٹی ساری آس
اپنا تو جیون رہا، جینے کا محتاج
حاصل ہوتی زیست کو، حاصل کیا معراج
پیتا آنسو خون کے ، ایسا ہوں بدحال
مجھ کو اپنی زندگی، لگتی ہے جنجال
اس قسم کے تضاد کئی جگہ نظر آتے ہیں۔ اصل میں ساحر نے جو دوہے اخلاقی موضوعات کی روشنی میں کہے ہیں وہ بڑے ہی جاندار اور  پر اثر ہیں۔ وہی قاری کو تھم کر سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ انھی میں توجہ کا دامن الجھتا ہے۔ چند دوہے دیکھئے :
دشمن بھی سب دوست ہیں ، دل کو یہ سمجھاؤ
زہر کو امرت جان کر، بہتر ہے پی جاؤ
ناداں ان کو کاٹ مت، لاکھ نہیں پھلدار
کم از کم یہ چھاؤں تو، دیتے ہیں اشجار
دولت کی رہتی ہو بس، جس کے من میں چاہ
اس مورکھ کو کس لیے ، یاد آئے اللہ
گرتوں کو جو تھام لے ، اس کو ملے ثواب
کھل جائے اس کے لیے ، جنت کا ہر باب
سینے میں انسان کے ، رہا نہ جب ایمان
جینا پھر سنسار میں ، کیسے ہو آسان
چھوڑ دے مایا موہ کو، دے کچھ اس پر دھیان
جانا ہے ہر شخص کو، اک دن قبرستان
پائے گر اونچائیاں ، مت ہو تو مغرور
گرے گا جب آکاش سے ، ہو جائے گا چور
ہاں جیون کے انت میں ، ہوتا ہے یہ حال
جاتے ہیں ہمراہ بس، انسان کے اعمال
یہ جواہر پارے انتہائی وقیع اور جامع ہیں۔ ان میں مذاہبِ عالم کی سچائیاں مضمر ہیں۔ یہ دنیا فانی ہے لافانی نہیں۔ ایک دن یقیناً موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور عالم لافانی میں اپنے اعمال کا حساب دینا ہے اس لیے اس کی رعنائیوں میں مست و بے خود ہو جانا بے سود ہے۔ سب سے رسم و راہ رکھنے میں ہی بھلائی ہے۔ شجر سایہ دار کو کاٹنے سے کیا حاصل۔ اس عمل سے تو انسانیت کو نقصان پہنچتا ہے۔ دولت کی ہوس برائیوں کا سرچشمہ ہوتی ہے۔ یہ انساں کو یادِ خدا سے غافل کرتی ہے۔ جو مجبور و بیکس کو سہارا دیتا ہے وہی جنت کا حقدار ہے۔ ایمان کامل کے بغیر زندگی گزارنا امر محال ہے اور انسان عظمت و شہرت کی کتنی ہی بلندی پر پہنچ جائے اسے اپنا سر جھکا لینا چاہئے۔ اس لیے کہ غرور  کا انجام تباہی ہے۔ ساحر نے اپنے ان دوہوں میں انھی مضامین کو خوبصورتی سے سمویا ہے۔ وہ انھی کی بدولت دوہا نگاری کی تاریخ میں جی جائیں گے۔ میں اس کتاب کی اشاعت پر انھیں مبارک باد دیتا ہوں۔

٭٭٭٭٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                              ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول