صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


سید کام کرتا ہے

اجمل کمال

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                ٹیکسٹ فائل

                                    اقتباس  

    سید صاحب کے  مضامین کی جو خصوصیات سب سے  پہلے  اپنی طرف متوجہ کرتی ہے  وہ ان کی نثر کا مخصوص لہجہ ہے ۔ جن لوگوں  کو میری طرح ان کی گفتگو سننے  کا اتفاق ہوا ہے  وہ اس بات کی تصدیق کر سکیں  گے  کہ یہ لہجہ سید صاحب کی گفتگو کے  لہجے  سے  قریبی مماثلت رکھتا ہے ۔ عمیق مطالعے  اور گہرے  غور و خوض کے  عادی اور ادبی بحث کے  بعض مخصوص موضوعات سے  شدید شغف رکھنے  والے  بردبار شخص کی سنجیدگی کے  ساتھ ساتھ گفتگو اور تحریر کے  اس لہجے  میں  جا بجا لوڈ ڈ فقرے، معنی خیز اسائیڈز، یک طرفہ مزاح کے  نمونے  اور وضعِ احتیاط کی سخت پاسداری کے  اشارے  بھی ملتے  ہیں ۔ ان فقروں، اسائیڈز اور احتیاط (یا ذہنی تحفظات) کے  اشاروں  کا پورا مفہوم پانے  کے  لیے  سننے  یا پڑھنے  والے  کا ادبی بحث مباحثے  کی ان اصولی اور فروعی تفصیلوں  سے  واقف ہونا ضروری ہے  جن پر اردو تنقید کا پچھلی نصف صدی کا بیشتر سرمایہ مشتمل ہے ۔ مجھے  اعتراف ہے  کہ میرے  لیے، اور غالباً میری نسل سے  تعلق رکھنے  والے  بعض اور لوگوں  کے  لیے، یہ کام قدرے  دشوار ہے  کیونکہ اس بحث کے  بعض اجزا وقت سے  اتنے  پیچھے  رہ گئے  ہیں  کہ زمانۂ حال میں  ان کی اہمیت اور معنویت کے  بارے  میں  سوال اٹھانا ممکن ہے ۔

    اس طرح کا ایک سوال ترقی پسند نقادوں  کے  بارے  میں  اٹھایا جاسکتا ہے ۔ میرا خیال ہے  کہ تنقید نگاری 1936میں  شروع ہونے  والی اس تحریک کا سب سے  قابلِ فخر نتیجہ نہیں  تھی۔ اس تحریک کے  زیر اثر لکھنے  والوں  نے، جن میں  ہر معیار کے  ادیب اور شاعر شامل تھے، اپنے  اردگرد کی زندگی اوراس کے  مسائل سے  دلچسپی لینی شروع کی اور اپنے  زمانے  کے  اہم موضوعات کو اپنی اپنی تخلیقی استطاعت کے  مطابق برتا، اور اپنی اپنی توفیق کے  مطابق کامیابی حاصل کی۔ جن لوگوں  کی شناسائی میری طرح ادب سے  دلچسپی لینے  کے  آغاز ہی میں  محمد حسن عسکری اور سلیم احمد وغیرہ کی چٹ پٹی تحریروں  سے  ہو گئی تھی انھیں  وقت ضائع کیے  بغیر معلوم ہو گیا ہو گا کہ ان کے  نزدیک ترقی پسند نقاد دراصل گھامڑوں  کا ایک ٹولہ ہیں  جو ادب برائ ے  زندگی جیسے  فقروں  کی گردان کرتے  رہنے  کے  باوجود نہ ادب کا شعور رکھتے  ہیں  اور نہ زندگی کا۔ پڑھنے  والوں  کو نقادوں  کی زندگی اور عاقبت سے  یوں  بھی کوئی خاص غرض نہیں  ہوتی، ان کی دلچسپی کا محور تو تخلیقی ادب ہوتا ہے  جو نقاد نہیں  بلکہ ادیب اور شاعر لکھتے  ہیں ۔

    میرے  خیال میں  قصہ وہیں  ختم ہو جانا چاہیے  تھا، لیکن یہ دیکھ کر حیرت سی ہونے  لگی ہے  کہ اتنے  طویل عرصے  سے  جس کے  دوران ادبی نقادوں  کی کئی نسلیں  بوڑھی اور کئی جوان ہو چکی ہیں، بہت سے  غیر ترقی پسند نقادوں  کا بیشتر وقت، اور تقریباً تمام تر زور، اُنھی بد نصیبوں  کے  گھامڑ ہونے  کے  میعادی بلیٹن جاری کرنے  کے  مشغلے  کی نذر ہو رہا ہے ۔ سید صاحب کا بھی یہ مرغوب موضوع ہے ۔ اپنے  پسندیدہ موضوعات منتخب کرنا اور اپنے  وقت اور صلاحیت کا کم یا زیادہ حصہ ان کے  لیے  وقف کرنا ظاہر ہے  کہ نقاد کی آزادی میں  شامل ہے، اور اس پر اعتراض کرنے  کا کسی کو کیا حق ہے ۔ البتہ جو بات عجیب معلوم ہوتی ہے  وہ یہ ہے  کہ سید صاحب کے  متعدد ذہنی تحفظات اور رد عمل کے  طور طریقے  ترقی پسند نقادوں  سے  متواتر الجھتے  رہنے  کے  باعث مخصوص انداز میں  متعین، یا بلکہ متحجر، ہو کر رہ گئے  ہیں ۔

    غیر ترقی نقادوں  کو گھامڑوں  کے  مذکورہ قبیلے  سے  جو شکایات ہیں  ان کا لب لباب یہ ہے  کہ وہ رشد و ہدایت کے  لیے  کھیت واڑی کی طرف دیکھتے  تھے  (یعنی بمبئی کے  اس علاقے  کی طرف جہاں  کمیونسٹ پارٹی کا ہیڈ کوارٹر واقع تھا)اور اُدھر کا اشارہ پاتے  ہی بعض مخصوص موضوعات، مثلاً بھوک، مفلسی، غلامی، فرقہ وارانہ فسادات، کا ذکر آ جانے  کو کسی ادبی تحریر کی خوبی قرار دینے  لگتے  تھے ۔ اور کم صلاحیت رکھنے  والے  بعض ادیب اور شاعر محض اس نسخے  کو کامیابی کی کلید سمجھ کر ان موضوعات کی گردان کرنے  لگتے  تھے، جنھیں  ’’علم کی زکوٰۃ نکالنے  والے ‘‘ مضامین میں  بانس پر چڑھایا جاتا تھا۔ ظاہر ہے، اس میں  آپ کا یا میرا کچھ نقصان نہیں  ہوا، جو ادیب اور شاعر نقادوں  کو رہنما بنانے  کی اہلیت رکھتے  ہوں  ان سے  یوں  بھی کیا توقعات رکھی جاسکتی ہیں ۔ مگر اس غیر ادبی عمل کی ضمنی پیداوار ایک اور قسم کے  نقادوں  کا قبیلہ بھی تھا۔ ان حضرات (اور خواتین) کی نگاہیں  بھی کھیت واڑی کی جانب لگی رہتی تھیں  اور یہ اُدھر کا اشارہ پاتے  ہی اول الذکر قبیلے  کے  پسندیدہ موضوعات کو زندگی بھر کے  لیے  اپنے  ناپسندیدہ موضوعات میں  شامل کر لیتے  تھے ۔ اس قبیلے  کے  نقادوں  کے  ہاں  ایسے  جملے  اکثر ملتے  ہیں  کہ ’’فسادات تو ادب کا موضوع بن ہی نہیں  سکتے ‘‘، ’’بنگال کے  قحط پر افسانہ لکھنا ایسا ہی ہے  جیسے  قحط کے  دنوں  میں  ذخیرہ اندوزی کر کے  منافع کمانا‘‘ وغیرہ۔

    مثال کے  طور پر ترقی پسندوں  کا ایک پسندیدہ لفظ ’’ارتقا‘‘ ہے  جسے  سید صاحب نے  تقریباً اپنی چڑ بنا لیا ہے ۔ جہاں  کہیں  ارتقا کا لفظ آ جائے (بجز اس کے  کہ وہ ممتاز شیریں  کی تحریر میں  استعمال ہوا ہو) سید صاحب اسے  ’’ڈاروِن کی روح کو ثواب پہنچانے ‘‘کا مترادف قرار دیتے  ہیں ۔ اس سے  قطع نظر کہ اسے  مولانا روم کے  مزار پر منت ماننے  کے  مساوی بھی سمجھا جاسکتا ہے، سنا گیا ہے  کہ ڈارون شاید معاشرتی علوم کی کسی شاخ سے  (جس کا کوئی بھلا سا نام بھی ہے ) وابستہ تھا اور تحقیق و تلاش کے  کسی عمل سے  گزر کر اپنے  مخصوص علم کی حد تک چند نتائج پر پہنچا تھا۔ البتہ ہم اچھے  مسلمانوں  کی طرح افواہوں  پر توجہ نہیں  دیتے ۔ ہمارے  ہاں  نظر یۂ ارتقا کی تصویر کچھ یوں  بنتی ہے  کہ مسمی ڈارون ’’اوباش و الواط‘‘ کے  ساتھ چنڈو خانے  میں  اوندھے  منھ پڑا تھا کہ اسے  اشرف المخلوقات کی شان میں  ایک مزے  دار پھبتی سوجھی اور اس نے  منھ اٹھا کر زور سے  ’’بوزنہ!‘‘ کا نعرہ بلند کیا۔ ادھر لسان العصر خان بہادر اکبر حسین صاحب اکبر الٰہ آبادی، جج عدالتِ خفیفہ، سرکارِ (استعمارِ؟) انگلیشیہ، اپنی کوٹھی پر واپس جاتے  ہوے  چنڈو خانے  کے  سامنے  سے  لاٹھی ٹیکتے  گزر رہے  تھے۔ وہ یہ سمجھے  کہ خاص ان کے  دادا جانی جنت مکانی پر طنز کیا جا رہا ہے ۔ بس، وہ دن اور آج کا دن، آگے  آگے  ڈارون بوزنہ ہے  اور پیچھے  پیچھے  لاٹھی گھماتے  لسان العصر، اور ان کے  پیچھے  اشراف کے  شرارتی لونڈوں  کا تالی پیٹتا ہجوم۔

    یہ نہیں  کہ سید صاحب کو ارتقا کے  تصور کا سہارا لینے  کی کبھی ضرورت ہی نہیں  پڑتی۔ مثال کے  طور پر اقبال کے  بعض ناقدین جب ان کے  ابتدائی کلام کو بعد کے  کلام پر کسی اعتبار سے  فوقیت دیتے  ہیں  تو اپنے  اقبال کے  دفاع میں  ایسے  کسی تصور کو کام میں  لانا ناگزیر ہو جاتا ہے ۔ البتہ ایسے  موقعوں  پر سید صاحب وضعِ احتیاط پر قائم رہتے  ہوے  ’’پختگی‘‘ کا لفظ استعمال کرتے  ہیں ۔ اسی طرح جب، مثلاً، سائنسی اور معاشرتی علوم کی تازہ دریافتوں  سے  ترقی پسند نقادوں  کی بے  خبری کا ذکر مقصود ہو تو اسے  ان علوم کا ارتقا نہیں  بلکہ ’’پیش رفت‘‘ کہتے  ہیں ۔

    اول الذکر قبیلے  کا ایک پسندیدہ لفظ ’’جدلیات‘‘ بھی ہے ۔ اس کے  سلسلے  میں  سید صاحب نے  بڑا دلچسپ طریقہ اختیار کیا۔ اس بات کو خاطر میں  نہ لاتے  ہوے  کہ اس اصطلاح کو گھامڑوں  کے  سوا کچھ اور لو گ بھی ایک مخصوص معنی میں  استعمال کر چکے  ہیں، سید صاحب نے  اسے  اپنے  ذاتی استعمال میں  لا کر اسے  پچھلے  معنی سے  تہی کر دیا اور لطف یہ کہ کوئی نئی تعریف متعین کرنے  کی ضرورت نہ سمجھی۔ نتیجہ یہ کہ یہ بد قسمت لفظ اب سید صاحب اور صفدر میر(عرف زینو) کے  درمیان گلی کے  نکڑ پر ہونے  والے  تو تکار کے  مقابلے (یعنی جنگ و جدلیات) کے  مفہوم میں  بھی تکلف برتا جاتا ہے ۔ وتعزمن تشاوتذل من تشا۔

    ترقی پسند نقادوں  کا ایک مخصوص سیاسی اور معاشرتی نقطۂ نظر تک محدود ہو کر رہ جانا بھی سید صاحب کے  نزدیک نہایت مذموم ہے ۔ اگر چہ ان کا ایک ممدوح بودلیر بھی کچھ اسی قسم کی تلقین کرتا نظر آتا ہے  لیکن سید صاحب کا فیصلہ ہے  کہ ’’درحقیقت، بودلیر نے  جس کشادہ گرفتاری کو مقصودِ نظر بنایا ہے  وہ ہماری پارٹی بازی اور گروہ بندی اور ایک ہی آقا کی غلامی سے  مختلف قسم کی چیز ہے ۔ ‘‘ کیونکر؟ وہ اس کی تفصیل میں  نہیں  جاتے ۔ ترقی پسند نقادوں  کی اس مذموم ’’وابستگی‘‘ کے  مقابلے  میں  خود سید صاحب نے  اپنے  ذاتی استعمال کے  لیے  اسی قسم کی ایک اور گرفتاری کا بندوبست کر رکھا ہے ۔ کہتے  ہیں :

***

ڈاؤن لوڈ کریں 

 ورڈ فائل                                                                ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول