صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


بین السطور

پروفیسر رحمت یوسف زئی

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل


اردو ترجمہ...... اصول ومسائل 

    قوموں  کی تہذیبی تاریخ میں  ترجمے  کو اہم مقام حاصل ہے۔ کیونکہ ترجمہ دونوں  زبانوں  کے  درمیان رابطہ کا ایک ذریعہ ہے۔ باہمی میل جول اور آپسی لین دین کے  ذریعے  ہی انسان نے  ترقی کی منزلیں  طے  کی ہیں۔ خصوصاً علمی ترقی کے  لئے  یہ بھی ضروری ہے  کہ دیگر زبانوں  میں  موجود علوم و فنون سے  آگہی حاصل کی جائے  جس کے  لئے  دوسری زبانوں  سے  کماحقہ‘ واقفیت ضروری ہے۔ لیکن ہر ایک کے  لئے  یہ ممکن نہیں  کہ وہ اپنی مادری زبان کے  علاوہ دوسری زبان سے  بھی واقف ہو۔ ایسے  ہی موقعہ سے  ترجمہ مدد دیتا ہے  اور دوسری زبانوں  سے  ناواقف قاری کو اسی زبان میں  موجود علوم و فنون سے  آشنا کرتا ہے۔ ترجمہ زندہ قوم کا عمل ہے۔ تصنیف اور تخلیقی کاموں  کے  ساتھ ساتھ یہ ضروری ہے  کہ دوسری اقوام کی کوششوں  کو بھی مد نظر رکھا جائے  تاکہ وہ غلطیاں  سرزد نہ ہوں  جو دوسروں  سے  ہو چکی ہیں  اور ان تمام باتوں  کی کھوج میں  وقت ضائع نہ کیا جائے  جنہیں  بہت پہلے  ہی معلوم کیا جا چکا ہے  یا ان کا حل پہلے  ہی تلاش کیا جا چکا ہے۔ ترجمے  کے  ذریعے  ساری دنیا میں  ہونے  والی تحقیق سے  آگہی ممکن ہے ......اور اس طرح نئی را ہوں  کی تلاش کا عمل آگے  بڑھ سکتا ہے  اور یوں  ترجمہ انسانی تہذیب کے  لئے  ایک جست کا کام کرتا ہے ......! عربوں  نے  اس نکتے  کو بہت پہلے  جان لیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ عباسی خلفا نے  با ضابطہ طور پر ایک ایسا محکمہ قائم کر دیا تھا جہاں  دنیا کی اہم زبانوں  سے  علوم و فنون عربی میں  منتقل کئے  جاتے  تھے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ عربی کا دامن دنیا کے  تمام علوم و فنون سے  مالا مال ہو گیا........!

    اردو کے  ابتدائی تراجم کو دیکھنے  سے  یہ بات واضح ہوتی ہے  کہ یہاں  ترجموں  کی روایت کا آغاز مذہبی تراجم سے  ہوا.......اسکی بنیادی وجہ یہ تھی کہ عوام عربی اورفارسی سے  ناواقف تھے ، اور اس دور میں  یعنی سترہویں  صدی تک مذہبی نوعیت کی تحریریں  فارسی یا عربی میں  تھیں  جبکہ عوام الناس کی زبان ہندوی یا قدیم اردو تھی۔ چنانچہ اس دور کے  عالموں  اور بالخصوص صوفیائے  کرام نے  یہ محسوس کیا کہ ترجمہ ایک اہم ضرورت ہے  تاکہ عوام کو مذہب کے  اہم نکات سے  واقف کرایا جائے۔ اور اسی لئے  انہوں  نے  ترجموں  کا سلسلہ شروع کیا۔ ترجمے  کے  لئے  کوئی بندھے  ٹکے  اصول نہیں  ہیں  بالکل اسی طرح جس طرح تخلیقی عمل کے  لئے  کوئی ضابطہ نہیں  بنایا جا سکتا .......کیونکہ تخلیقی عمل کی طرح ترجمے  کا تعلق انسانی ذہن اور اس کے  اندر پوشیدہ صلاحیتوں  سے  ہے۔ جس میں  جتنی زیادہ صلاحیت ہو گی اتنا ہی بہتر ترجمہ ہو گا۔ ترجمے  کا اصل مقصد یہ ہے  کہ جس متن کا ترجمہ کیا جا رہا ہے  اس کے  صحیح مفہوم تک قاری کی رسائی ہو سکے۔ اور اگر یہی چیز موجود نہ ہو تو ایسا ترجمہ کار لاحاصل کے  سوا کچھ نہیں۔

    ترجمہ کرنے  والوں  کے  لئے  چند صلاحیتوں  کا حامل ہونا بے  حد ضروری ہوتا ہے  ...... سب سے  پہلی بات تو یہ ہے  کہ جس زبان سے  ترجمہ کیا جا رہا ہے  ان دونوں  زبانوں  پر مترجم کو یکساں  قدرت ہونی چاہئے  تاکہ اصل مفہوم کو اس طرح منتقل کرے  کہ زبان کے  مزاج کے  خلاف بھی نہ ہو اور آسا نی سے  سمجھ میں  آ سکے۔ مترجم کے  لئے  یہ بھی ضروری ہے  کہ وہ اس موضوع سے  واقف ہو جس کا ترجمہ مقصود ہے۔ موضوع سے  واقف ہونے  کی صورت میں  مترجم اس موضوع سے  متعلق روزمرہ استعمال کئے  جانے  والے  الفاظ سے  واقف ہو گا، اور ترجمہ زیادہ بہتر ہو سکے  گا۔ اگر مترادف الفاظ موجود نہ ہوں  مترجم کو اصطلاح سازی کرنی پڑتی ہے  ......یہاں  بھی مترجم کو یہ خیال رکھنا ضروری ہے  کہ نئی اصطلاح اتنی ثقیل نہ ہو کہ عوام کے  لئے  آسانی سے  قابل قبول نہ ہو ..... کبھی کبھی اصل لفظ ہی اس طرح زبان زد خاص و عام ہو جاتا ہے  کہ نئی اصطلاح مقبول نہیں  ہو پاتی ...... ٹیلی فون، ٹی وی جیسے  الفاظ اب زبان کا ایک حصہ بن چکے  ہیں،ان کے  لئے  آلۂ گفتگو اور عکس بین جیسی اصطلاحیں  تراشی جا سکتی ہیں  لیکن انگریزی الفاظ اتنے  عام ہو گئے  ہیں  کہ اب ان کے  لئے  نئی اصطلاحیں  تراشنا بے  سود معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اگر نئی اصطلاحوں  کا بار بار استعمال کیا جائے  تو عوام بھی ان سے  مانوس ہوں  گے  اور اس بات کا امکان ہے  کہ ایسی اصطلاحیں  ہماری زبان میں  داخل ہو جائیں۔

    دوسری زبانوں  سے  ترجمہ کرتے  ہوئے  اس بات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے  کہ اصل مفہوم کے  ساتھ لطف بیان بھی باقی رہے  اور ایسا اسلوب اختیار کیا جائے  جو اجنبی نہ محسوس ہو............

    ترجمے  کی تین قسمیں  ہیں۔ لفظی ترجمہ، با محاورہ ترجمہ اور آزاد ترجمہ....... لفظی ترجمے  میں  ہر لفظ کا ترجمہ اس طرح کیا جاتا ہے  کہ وہ ترجمہ شدہ زبان میں  اجنبی نہ محسوس ہو اور مفہوم میں  پیچیدگی بھی نہ پیدا ہونے  پائے۔ با محاورہ ترجمہ میں  اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے  کہ اپنی زبان میں  موجود مناسب اور مترادف محاروں  کے  ذریعے  اصل متن کے  مفہوم کو واضح کیا جائے  اور زبان کے  روز مرہ کا خیال رکھتے  ہوئے  ایسے  محاورے  استعمال کئے  جائیں  جن سے  لطف پیدا ہو جائے۔ آزاد ترجمے  میں  صرف مفہوم سے  غرض ہوتی ہے۔ یہاں  مرکزی خیال کو پیش نظر رکھتے  ہوئے  اپنی زبان کے  مزاج کے  مطابق موضوع کو ڈھال لیا جاتا ہے  ایسے  ترجموں  میں  کبھی کبھی اشخاص، مقامات اور رسوم و رواج کو بھی اس طرح بدل دیا جاتا ہے  کہ اجنبیت کا احساس مٹ جائے۔

    سچ بات یہ ہے  کہ ترجمے  کی مندرجہ بالا تین اقسام میں  خطِ فاصل کھینچنا ممکن نہیں  ہے۔ لفظی ترجمے  اگرچہ دیانت داری کا تقاضہ ہے  لیکن صحیح مترادف لفظ ملنا بسا اوقات مشکل ہو جاتا ہے  پھر بھی اگر مترجم زبان پر قدرت رکھتا ہو تو اس کے  لئے  یہ کو مشکل بات نہیں۔ اس کے  باوجود اکثر و بیشتر لفظی ترجمہ کرنے  کی بجائے  وہ اس پر مجبور ہو جاتا ہے  کہ ایسا مترادف تلاش کرے  جو مفہوم کو بہتر انداز میں  پیش کر سکتا ہو ......اگر ill fitted dressکا ترجمہ کرتے  ہوئے  illکے  لئے  بیمار کا لفظ استعمال ہو تو ایسا ترجمہ مضحکہ خیز ہو جائے  گا جب کہ اس کا بہتر ترجمہ بھدا لباس ہو سکتا ہے۔ یہاں  لفظی ترجمہ کرنے  کی بجائے  ایسامترادف لفظ رکھا گیا ہے  جو ill fittedمیں  پوشیدہ مفہوم کو واضح کرتا ہے۔

    با محاورہ ترجمہ کرنے  کے  لئے  مترجم کو اور زیادہ محتاط رہنے  کی ضرورت ہے  ورنہ سر سید کی طرح اگر عامیانہ قسم کے  محاورے  استعمال کئے  جائیں  اور محل وقوع کا خیال نہ رکھا جائے  یا شخصیت سے  متعلق آداب کو ملحوظ نہ رکھا جائے  تو کئی مسائل پیدا ہو سکتے  ہیں۔ سر سید کی نیک نیتی پر شبہ نہیں  کیا جا سکتا انہیں  لفظوں  کے  انتخاب نے  رسوا کر دیا۔

    انگریزی کا یہ جملہ دیکھئے۔

                    All were blowing hot but his smile tuned the table.

    اس کا مناسب ترجمہ یہ ہو سکتا ہے  کہ ’’تمام لوگ سخت برہم تھے  مگر اس کی مسکراہٹ نے  نقشہ بدل دیا.......‘‘ اگر انگریزی جملے  کا لفظی ترجمہ کیا جاتا تو مضحکہ خیز ہو جاتا .....خصوصاً Turned the table  کا محاورہ .......لیکن ’’نقشہ بدل دیا‘‘ میں  وہی کیفیت ہے  جو انگریزی محاورے  میں  ہے۔

    آزاد ترجمہ اس اعتبار سے  منفرد ہوتا ہے  کہ اس میں  مترجم کو زبان و بیان کے  معاملے  میں  پوری آزادی ہوتی ہے۔ اصل متن کے  مرکزی خیال یا بنیادی نکتہ کو سامنے  رکھتے  ہوئے  مترجم اپنے  الفاظ میں  مفہوم کو پیش کرتا ہے۔ ایسا ترجمہ آسان بھی ہے  اور وقت بھی بہت کم لگتا ہے۔ اسی لئے  اخبار، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے  لئے  خبروں  کے  ترجمہ کی ضرورت پیش آتی ہے  تو لفظی ترجمہ یا با محاورہ ترجمہ کرنے  کی بجائے  آزاد ترجمہ کیا جاتا ہے۔ کیونکہ یہاں  قاری یا سامع کو اصل متن کے  اسلوب اور اظہار کے  پیرایہ سے  دلچسپی نہیں  ہوتی۔ وہ تو صرف اصل بات جاننے  کا خواہش مند ہوتا ہے۔ آزاد ترجمہ میں  با محاورہ زبان بھی استعمال کی جا سکتی ہے  لیکن صرف اس حد تک کہ صحیح ترسیل ممکن ہو سکے۔ ترجمے  سے  نئی اصطلاحیں  فروغ پاسکتی ہیں  اور زبان کی وسعت میں  اضافہ ہوتا ہے  جیسے  Nationalizeکے  لئے  ’’قومیانا‘‘ کی اصطلاح اب اردو زبان کا حصہ بن چکی ہے۔ انگریزی کی خوبی یہ ہے  کہ اس میں  فعل Verbسے  بھی اسم بنا لیا جاتا ہے  اسی طرح اسم سے  بھی فعل بنانا ممکن ہے  جیسے  Beautyسے  Beautifyاردو میں  بھی اس طرح کی کوششیں  ہوئیں  کچھ کامیاب ہوئیں  اور کچھ ناکام، لیکن بہرحال یہ سلسلہ جاری ہے  اور اسے  جاری رہنا چاہئے۔ 

***

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول