صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
سرخ لبوں کی آگ
ماجد صدیقی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
اپنے پیاروں کو جی سے بُھلانے لگے تم نے اچّھاکیا
غیر سارے تمہیں یاد آنے لگے تم نے اچّھا کیا
تم نے ان سب کو بھی اپنا دامن جھٹک کر پرے کر دیا
جن کو تم تک پہنچتے زمانے لگے تم نے اچّھا کیا
تم نے دیکھا نہ اہلِریا کون، اہلِ صفا کون ہیں
یہ حقائق بھی تم کو فسانے لگے تم نے اچّھاکیا
تم نے سمجھا نہ یہ حرص والے ہی کیونکر سرافراز ہیں
اور کیوں اہلِ دل ہیں ٹھکانے لگے تم نے اچّھا کیا
تم کہ بادِ صبا تھے تم ہی بادِ صرصر میں ڈھلنے لگے
جتنی آنکھیں بھی نم تھیں جلانے لگے تم نے اچّھا کیا
***
دیکھتے گر ذرا ہنس کے اے مہرباں کچھ بگڑنا نہ تھا
چاند چہرے کا ہوتا اگر ضَونشاں کچھ بگڑنا نہ تھا
دو قدم ہم چلے تھے اگر دو قدم تم بھی چلتے ادھر
اس سے ہونا نہیں تھا کسی کا زیاں،کچھ بگڑنا نہ تھا
حسن کی کھنکھناتی ندی جانے کیوں ہم سے کھنچتی رہی
گھونٹ دو گھونٹ پینا تھا آبِ رواں، کچھ بگڑنا نہ تھا
بندھنوں سے بغاوت، قیامت کا باعث نہ ٹھہری کبھی
جس طرح کا ہے، رہتا وہی آسماں کچھ بگڑنا نہ تھا
تھوکنے سے بھلا رُوئے مہتاب پر فرق پڑنا تھا کیا
کُھل گئی اِس طرح نیّتِ حاسداں کچھ بگڑنا نہ تھا
***
مری آرزو کا مآل ہے تجھے دیکھنا
مگر اک کٹھن سا سوال ہے تجھے دیکھنا
کبھی ابر میں ،کبھی چاند میں، کبھی پُھول میں
سرِگردش مہ و سال ہے تجھے دیکھنا
رگ و پے میں گرچہ ہے چاشنی ترے قرب کی
تو مہک ہے کارِ محال ہے تجھے دیکھنا
کوئی عید بھی ہو سعید ہے ، تری دید کی
پئے چشم، کسبِکمال ہے تجھے دیکھنا
تجھے کیوں نہ میں یہ کہوں صنم کہ سرِ نظر
کسی اور رُت کا جمال ہے تجھے دیکھنا
***