صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
سلگتا ہوا افغانستان
(پاکستان اور اقوامِ متحدہ کے کردار کے تناظر میں )
سجاد محمد خان یوسف زئی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
افغانستان کی سیاسی تاریخ
افغانستان خشکی میں محصور ملک ہے جو وسطی ایشیاء کو جنوبی ایشیاء سے اور کسی حد تک مغربی ایشیاء اور مشرقی وسطیٰ کو باہم ملاتا ہے۔ افغانستان اگر چہ معاشی لحاظ سے ایک پسماندہ ملک ہے تاہم یہ وسطی ایشیا، خلیج فارس اور برصغیر کے نقطہ ملاپ پر جنگی لحاظ سے ایک اہم خطہ ہے۔ جنوب مغرب کی جانب اس کی سرحدیں ایران سے ملی ہوئی ہیں جبکہ مشرقی سرحدیں ڈیورنڈ کی پٹی پر پاکستان سے ملی ہوئی ہیں۔ کوہ ہندوکش کے ساتھ ساتھ شمال مشرق کی طرف افغانستان کی ایک باریک سرحد چین سے بھی ملی ہوئی ہے۔
زمانہ قدیم سے اس اہم جغرافیائی ’’چوراہے‘‘ پر کئی نسلی گروہ جو آج مجموعی طور پر افغان کے نام سے جانے جاتے ہیں ، آباد ہیں۔ یہاں پر 30کی لگ بھگ مختلف زبانیں اور بولیاں بولی جاتی ہیں لیکن جو عام رابطے کی زبانیں ہیں وہ پشتو اور دری ہیں۔ جیسا کے بتایا گیا کہ افغانستان میں کئی نسلی گروہ آباد ہیں مگر ان میں پشتون اور تاجک ملک کی کل آبادی کے اکثریتی گروہ ہیں۔ تاہم پشتون دیگر نسلی گروہوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہیں۔ پشتون قوم نے صدیوں سے یہاں کی سیاست میں ایک نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ پشتون قوم میں سیاسی اعتبار سے سب سے اہم قبیلہ درانی قبیلہ ہے جس کے ذیلی قبیلے سردوزئی نے افغانستان پر اٹھارویں صدی کے دوران حکومت کی جبکہ تب سے حالیہ دور تک محمد زئی ذیلی قبیلہ تخت نشین رہا۔ در اصل افغانستان کی تاریخ قبیلوں ، گروہوں ، حکومت، حکومت مخالفین، اُمراء، بادشاہوں ان کے مخالفین اور دیگر مخالف عناصر کے مابین ایک نا رُکنے والی اندرونی لڑائیوں اور جنگوں کی طویل داستان ہے۔
جس طرح پہلے ذکر کیا جاچکا ہے کہ زارِ روس کے دور سے روس آمو دریا کے دونوں کناروں پر آباد ملک افغانستان سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کا خواہاں رہا ہے۔ افغانستان اپنے جغرافیائی، قومی اور لسانی تنوع اور اپنے سماجی اور ثقافتی تشکیل کی بناء پر ہمیشہ سے ایک منفرد حیثیت کا حامل ملک رہا ہے۔ بعض ماہر عمرانیات نے افغانستان کو قوموں کا آمیزہ کہا ہے تو بعض نے اسے قوموں کا عجائب گھر قرار دیا ہے لیکن افغانستان کا جو اہم ترین پہلو ہے وہ ہے اس ملک کے باشندوں کا آزادی سے محبت اور جذبۂ حریت پسندی۔ ہم افغان قوم کی آزادی سے محبت کا عملی مظاہرہ برطانوی راج کے دور میں انگریزوں کے ہندوستانی فوج کے خلاف جنگ میں دیکھ سکتے ہیں۔
افغانستان اور اس سے ملحقہ ہمسایہ ملک کے باشندوں کا تعلق ایک ہی نسل سے ہے۔ یہ لوگ تب ایک دوسرے سے علیحدہ ہوئے جب انیسویں صدی کے آخری نصف میں افغانستان اور موجودہ پاکستان کے پشتون اکثریتی علاقوں کے درمیان با ضابطہ حد بندی کی لکیر کھینچی گئی۔ افغانستان اور پاکستان کے درمیان برائے نام ڈیورنڈ لائن نے افغانستان کو اپنے ہی پشتون آبادی سے علیحدہ کر دیا۔ اٹھارویں صدی میں افغانستان کی تخلیق میں پشتونوں نے ایک کلیدی کردار ادا کیا۔ لیکن پشتون قوم نے اس حد کو قبول نہیں کیا یہی وجہ تھی کہ جب 1947ء میں انگریز ہندوستان چھوڑ کر چلے گئے تو افغانستان کے پشتونوں نے ڈیورنڈ لائن کے اس پار موجود اپنے پشتون بھائیوں کو پاکستان سے آزاد ریاست پختونستان بنانے کا اعلان کرنے کے لیے اُبھارا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تب سے آزاد ریاست کا تصور افغانستان اور پاکستان کے مابین سیاسی اور سفارتی تعلقات پر گہرے اثرات مرتب کر رہا ہے۔
جیسا کہ پچھلے صفحات میں ذکر کیا گیاہے کہ اپنی پسماندگی کے باوجود افغانستان گزشتہ کئی دہائیوں سے دنیا کی بڑی طاقتوں کی دلچسپی اور مفادات کا مرکز رہا ہے۔ افغانستان اپنی آزادی سے بہت پہلے، روسی اور برطانوی عداوت، کپلنگ (Kipling)کے الفاظ میں ’’گریٹ گیم‘‘ کا میدان جنگ بنا رہا ہے۔ انیسویں صدی کے دوران دونوں ممالک افغانستان کے وسیع علاقوں پر قابض ہو گئے جو سکڑتے سکڑتے حالیہ حجم تک پہنچ گیا۔ برطانیہ نے افغانستان کے خلاف پہلی جنگ 1838ء دوسری 1878ء اور تیسری جنگ 1919ء میں لڑی اور بالآخر افغانستان کو Buffer Zoneریاست تصور کیا جانے لگا۔
٭٭٭