صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
سکوت
نزہت عباسی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
"ہمارے عہد کی سچائیاں بھی جھوٹی ہیں"
خیال و فکر کی دانائیاں بھی جھوٹی ہیں
وجود و ذات کی بحثیں اُٹھا رکھیں اے دل
ابھی تو وقت کی آگاہیاں بھی جھوٹی ہیں
گلوں میں رنگ ، نہ ہے بادِ نو بہار کا رقص
کہ اب چمن کی یہ رعنائیاں بھی جھوٹی ہیں
اکیلے ہوکے بھی ہر دم ہجوم رہتا ہے
تمہاری یاد کی تنہائیاں بھی جھوٹی ہیں
مجھے بھی اپنی نگاہوں پہ کوئی شک سا ہے
تمہارے درد کی پرچھائیاں بھی جھوٹی ہیں
جہاں میں حُسن کی صورت نہیں رہی ویسی
تمہارے عشق کی سچائیاں بھی جھوٹی ہیں
ہے اب خیال کو کچھ اور وسعتوں کی طلب
مرے شعور کی پہنائیاں بھی جھوٹی ہیں
***
اپنی یادوں کی کہیں پر اک کڑی گُم ہو گئی
شہر سب باقی رہا بس وہ گلی گم ہو گئی
جانے کیوں پہچاننے میں ہو گئی تاخیر کچھ
گھر کی جب آرائشوں میں سادگی گم ہو گئی
جانے کتنے سائلوں نے اپنے دامن بھر لیے
میری جانب آتے آتے ہر خوشی گم ہو گئی
میری تنہائی نے میری ذات کو افشا کیا
محفلوں کی رونقوں میں بے خودی گُم ہو گئی
جب تلک تھے بے خبر یہ آرزو تھی جان لیں
آنکھ جب روشن ہوئی تو روشنی گم ہو گئی
موت ہاتھوں میں اُٹھائے رو رہے ہیں لوگ سب
میرے شہروں میں کہاں پر زندگی گُم ہو گئی
زندگی کے پیچ و خُم میں دل اُلجھ کر رہ گیا
یاد بھی تیری نہ جانے کس گھڑی گُم ہو گئی
٭٭٭