صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں



سوچ کا روپ

فضہ پروین

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

رضیہ بٹ :شہر میں جو ہے سوگوار ہے آج 

          عالمی شہرت کی حامل مایہ ناز پاکستانی ادیبہ رضیہ بٹ  داغ مفارقت دے گئیں۔ اردو زبان و ادب کا وہ  مہتاب  جہاں تاب جس نے19۔ مئی1924کو راول پنڈی کے افق سے روشنی کے سفر کا آغاز کیا پوری دنیا کو اپنی تخلیقی کامرانیوں اور علمی و ادبی ضیا پاشیوں سے بقعۂ نور کرنے کے بعد 4۔ اکتوبر 2012کی شام لاہور میں  عدم کی بے کراں وادیوں میں اوجھل ہو گیا۔ اردو زبان و ادب کو اپنے خون دل سے نکھار عطا کرنے والی اس نابغہ ء روزگار تخلیق کار نے مسلسل آٹھ عشروں تک ادبی کہکشاں کو اپنی چکا چوند سے منور رکھا۔ اردو فکشن کی اس عظیم ادیبہ نے اردو ادب کی ثروت میں جو اضافہ کیا وہ تاریخ ادب میں آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ اردو زبان میں اکاون شہکار ناول اور تین سو پچاس سے زائد افسانے لکھ کر رضیہ بٹ نے شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلند مقام حاصل کیا۔ ان کے افسانے قلب اور روح کی ا تھاہ گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں اور یہ افسانے  اپنے واحد تاثر سے قاری کو کہانی، کردار اور موضوع کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ جبر کے  کریہہ چہرے سے نقاب ہٹا کر انھوں نے الم نصیبوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ فروغ گلشن و صوت ہزار کا موسم ضرور آئے گا۔ ظلم کے سامنے سپر انداز ہونا ان کے نزدیک ایک اہانت آمیز فعل ہے۔ ان کا اسلوب ان کی ذات تھا۔ انھوں نے اردو فکشن میں تانیثیت کے حوالے سے جو قابل قدر کام کیا وہ انھیں ایک منفرد اور ممتاز مقام عطا کرتا ہے۔ انھوں نے بلاشبہ افلاک کی وسعت کو چھو لیا اور ستاروں پر کمند ڈال کر اپنی فقید المثال کامرانیوں سے پوری دنیا میں اپنے منفرد اسلوب کی دھاک بٹھا دی۔ ایک رجحان ساز ادیبہ کی حیثیت سے انھوں نے ہمیشہ حریت ضمیر سے جینے کی راہ اپنائی اور حریت فکر و عمل کو علم بلند رکھا۔ وہ تمام عمر ستائش و صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے پرورش لوح و قلم میں مصروف رہیں پاکستان میں خواتین کے مسائل پر انھوں نے نہایت خلوص اور دردمندی سے لکھا۔ جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے انھوں نے بنیادی انسانی حقوق اور انسانیت کے وقار اور سربلندی کا ہمیشہ اپنا مطمح نظر قرار دیا۔ ان کی وفات سے اردو فکشن کا ایک درخشاں عہد اپنے اختتام کو پہنچا۔ ان کی الم ناک وفات کی خبر سن کر روح زخم زخم اور دل کرچی کرچی ہو گیا۔ ایسی بے مثال تخلیق کار اب دنیا میں پھر کبھی پیدا نہیں ہو سکتی۔ ایسی ہفت اختر، زیرک، با کمال ، مستعد  اور جامع صفات شخصیت کا دائمی مفارقت دے جانا ایک بہت بڑ ا قومی سانحہ ہے۔ ان کی وفات سے علمی اور ادبی سطح پر جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پر نہیں ہو سکتا۔ ان کی یاد میں بزم ادب مدت تک سوگوار رہے گی۔

                 غم سے بھرتا نہیں دل ناشاد                     کس سے خالی ہوا جہاں آباد

         رضیہ بٹ کا تعلق ایک کشمیری خاندان سے تھا۔ ان کے خاندان کی شاعر مشرق علامہ اقبال کے خاندان کے ساتھ رشتہ داری تھی۔ اس طرح دو عظیم علمی و ادبی خاندانوں  کے قریبی تعلقات مسلسل پروان چڑھتے رہے۔ رضیہ بٹ کو اپنے گھر میں جو علمی و ادبی ماحول میسر آیا اس نے ان کی تخلیقی فعالیت کو مہمیز کیا اور ادبی صلاحیت کو صیقل کیا۔ وسیع النظری اور روشن خیالی ان کے گھر کے علمی و ادبی ماحول کی مرہون منت ہے۔ رضیہ بٹ کے والدین نے اپنی اولاد کی سیرت اور کردار کی تعمیر پر بھر پور توجہ دی۔ جب انھوں نے ہوش سنبھالا تو انھیں قابل رشک علمی و ادبی ماحول میسر آیا۔ ان کے گھر میں اس عہد کے متعدد رجحان ساز ادبی مجلات با قاعدگی سے آتے تھے۔ ان میں سے نیرنگ خیال، ساقی، عالم گیر اور بیسویں صدی قابل ذکر ہیں۔ رضیہ بٹ کے دس بہن بھائی تھے۔ ان کی والدہ اور والد نے اپنی اولاد کی شخصیت کی تعمیر پر خصوصی توجہ دی۔ عالمی کلاسیک سے انھیں جو دلچسپی تھی وہ والدین کے ذوق سلیم کا ثمر ہے۔ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو سونے سے قبل کہانیاں سنانا رضیہ بٹ کا معمول تھا۔ وہ اکثر کہا کرتی تھیں کہانی سننا اور کہانی سنانا ان کی فطرت ثانیہ ہے۔ رضیہ بٹ کو اللہ کریم نے حافظے کی غیر معمولی صلاحیت سے نوازا تھا۔ انھوں نے اپنے بزرگوں سے جو کہانیاں سنی تھیں وہ جب اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو سناتیں تو سب ہمہ تن گوش ہو کر سنتے۔ رفتہ رفتہ وہ اپنی طبع زاد کہانیاں بھی سنانے لگیں۔ اس طرح بچپن ہی سے وہ کہانی کے تخلیقی عمل کی جانب مائل ہو گئیں۔ ان کی پہلی  کہانی ’’لرزش ‘‘ خواتین کے ادبی مجلے’’ حور ‘‘میں 1940کے وسط میں شائع ہوئی۔ لاہور سے شائع ہونے والا یہ ادبی مجلہ اس زمانے میں قارئین ادب  میں بے حد مقبول تھا۔ یہ کہانی جو کہ سوتیلی ماں اور اس کے سوتیلے بیٹے کے گرد گھومتی ہے اسے  قارئین نے بہت سراہا۔ عمرانی حوالے سے اس کہانی میں سوتیلی ماں کے اپنے سوتیلے بیٹے کے ساتھ مادرانہ شفقت کے جذبات سے خالی رویے پر گرفت کی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ نوجوان نسل کے خواتین کے ساتھ اہانت آمیز سلوک پر بھی تنقید کی گئی ہے۔ معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی ایسی بے اعتدالیاں، رویوں میں پایا جانے والا تضاد اور شقاوت آمیز نا انصافیاں  حد درجہ تکلیف دہ ہیں۔ رضیہ بٹ نے ان تمام مسائل کو اپنے افسانوں کو موضوع بنایا۔ ان کے افسانوں میں حقیقت نگاری اور صداقت نگاری کا جو ارفع معیار نظر آتا ہے وہ ان کے منفرد اسلوب کا امتیازی وصف ہے۔  (اقتباس)

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول