صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


ستارا زمین پر

جمال احسانی

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

غزلیں

کسی بھی دشت، کسی بھی نگر چلا جاتا

میں اپنے ساتھ ہی رہتا جدھر چلا جاتا


وہ جس منڈیر پہ چھوڑ آیا اپنی آنکھیں میں

چراغ ہوتا تو لو بھول کر چلا جاتا


اگر میں کھڑکیاں، دروازے بند کر لیتا

تو گھر کا بھید سرِ رہ گزر چلا جاتا


مرا مکاں مری غفلت سے بچ گیا ورنہ

کوئی چرا کے مرے بام و در چلا جاتا


تھکن بہت تھی مگر سایۂ شجر میں جمال

میں بیٹھتا تو مرا ہم سفر چلا جاتا

٭٭٭




ہونے کی گواہی کے لئے خاک بہت ہے

یا کچھ بھی نہیں ہونے کا ادراک بہت ہے


اک بھولی ہوئی بات ہے اک ٹوٹا ہوا خواب

ہم اہل محبت کو یہ املاک بہت ہے


کچھ دربدری راس بہت آئی ہے مجھ کو

کچھ خانہ خرابوں میں مری دھاک بہت ہے


پرواز کو پر کھول نہیں پاتا ہوں اپنے

اور دیکھنے میں وسعت افلاک بہت ہے


کیا اس سے ملاقات کا امکاں‌ بھی نہیں اب

کیوں ان دنوں میلی تری پوشاک بہت ہے


آنکھوں میں ہیں محفوظ ترے عشق کے لمحات

دریا کو خیال خس و خاشاک بہت ہے


نادم ہے بہت تو بھی جمال اپنے کئے پر

اور دیکھ لے وہ آنکھ بھی نمناک بہت ہے

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول