صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
ستارا آنکھ میں
غزلیں
عارف فرہاد
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
یہاں کہیں بھی نہ خیمہ کوئی لگاؤ مرا
سفر میں موت ہے میرے لئے پڑاؤ مرا
سمندروں کی طلب میں رواں دواں ہوں مگر
مجھے ہی غرق نہ کر دے کہیں بہاؤ مرا
میں جس میں اپنی حقیقت کے رنگ دیکھ سکوں
کبھی وہ آئینہ لا کر مجھے دکھاؤ مرا
میں اُس کی یاد میں شاید بکھر چکا ہوں بہت
ہوائے شہرِ وفا کو پتہ بتاؤ مرا
کسی چراغ کی لَو کب اُجال پائی اِسے
تم آؤ اپنی نظر سے دیا جلاؤ مرا
خبر نہیں کہ مجھے کس طرف کو جانا ہے
یہ آب و خاک ہیں میرے نہ یہ بہاؤ مرا
ابھی تو رکھنے ہیں مرہم کئی زمانوں پر
مری نظر کو دکھاؤ نہ کوئی گھاؤ مرا
یہ تُو ہے یا ہے کوئی اور اے خدائے جمال
تری طرف ہی زیادہ ہے کیوں جھکاؤ مرا
میں جس کا ہوں مجھے پہچانتا ہے وہ فرہاد
نہ میری ذات پہ کتبہ کوئی سجاؤ مرا
٭٭٭
ہر آن میری آنکھ میں بس یہ ہی شک بھرا
تیری شبیہ سے ہے یہ قصرِ فلک بھرا
دشتِ تحیّرات میں یہ سوچتے رہے
حیرت بھری نگاہ میں کس نے نمک بھرا
ہو جاتا کھل کے اِس پہ اگر تیرا انعکاس
رہتا نہ آئینہ مرا اِس طور شک بھرا
اِک عمر آنسوؤں سے یہ آنکھیں بھری رہیں
تب جا کے کچھ ستاروں سے میرا فلک بھرا
فرہاد تشنگی مری بیدار تب ہوئی
دریا جب اُس کے حُسن کا آنکھوں تلک بھرا
٭٭٭