صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
ستمبر کا شہر
طویل نظم مع ایک اور نظم
آفتاب اقبال شمیم
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
ہواؤ! آؤ
کھڑے ہیں اُفتادہ پا مسافر
جھکی جھکی ٹہنیوں میں
دامان و آستیں کا ہجوم الجھا ہوا ہے کب سے
فضا کی بے سمت آنکھ میں
سوختہ دنوں کا غبار
بھیگی ہوئی عبارت کے آبدیدہ حروف
بے جان و جسم بکھرے ہوئے پڑے ہیں
خمیدہ پیڑوں پہ ٹمٹماتی حنائی شمعیں
صدائے صرصر کی منتظر ہیں
ہواؤ! آؤ!
انہیں بجھاؤ
شکستہ دل، دست و پا بریدہ
سپاہِ دارا
ستم کے تاریک راستے پر
چلی ہے شہرِ فنا کی جانب
جہاں پہ کتنے ہی زرد سورج
شبِ مسلسل کی سرد مٹی میں دب چکے ہیں
ہواؤ! آؤ!
نہ جانے اب کون سا پڑاؤ ہے جس میں ہم
بے درا پڑے ہیں
ابھی تو جانا ہے اور آگے
قدیم راہیں
ابھی پسارے ہوئے ہیں اپنے برہنہ بازو
کہ کوئی شعلہ
بھڑک کے اس نو دمیدہ سبزے کو راکھ کر دے
تو راکھ میں دب کے سو بھی جائیں
نڈھال بانہیں مگر ابھی تو
ابھی تو جانا ہے اور آگے
(کہیں پہ ان سست ساعتوں کا اداس لشکر ٹھہر نہ جائے)
کوئی چھلاوا
بلند چپلیوں
سفید، یخ بستہ چوٹیوں پر
کھڑا ہے سرما کی دھوپ کا تاج سر پہ پہنے
وہی تو ہے وہ مقام اوّل
جہاں سے بانگِ رحیل کی اوّلیں صدا
بے خروش لمحوں کو لے اُڑی تھی
بہارِ بے برگ و گل کی جانب
عروسِ نو
نا چشیدہ لذت سے نا شناسا
کھڑی ہوئی نیم سوختہ شام کے کنارے
شفق کے پھولوں سے آنے والی
وصال کی نرم نرم خوشبو
حنائی کرنوں کی آنچ سے شعلہ بن گئی تھی
٭٭٭