صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
سراجاًمنیرا
محمد ابراہیم میرؒ سیالکوٹی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
تمہیدات
تمہید نمبر ۱
حق
تعالیٰ نے جہاں ذات اقدسْ حضور اکرمﷺ کو سارے عالم اور عالمیاں کے لیے
رحمت بنایا ہے۔ وہاں آپﷺ کوسراجاً منیرا (آفتاب عالمتاب) بھی فرمایا ہے کہ
دنیا جہان کے لوگ آپﷺ سے نور قلبی حاصل کریں۔ رحمۃ للعلمین ہونے کی شان
دنیا و عاقبت ہر دو جہاں کے ہے اور سراجاً منیرا کی صفت امور عاقبت کے لیے
ہے کہ جو آپﷺ سے عقیدت و محبت رکھتا ہے۔ وہ عاقبت میں درجات عالیہ پاتا ہے
اور دنیا میں بھی جو فیض و برکت حاصل ہوتی ہے۔ اس کا انجام بھی ثواب آخرت
ہے۔ لیکن آپﷺ کا رحمۃ للعلمین ہونا سو سب جہان کے لئے موجب امن و امان ہے۔
مومنوں کے لئے بھی اور کافروں کے لئے بھی مطیعون فرمانبرداروں کے لئے بھی
اور عاصی گنہگاروں کے لئے بھی اور دیگر جانداروں اور غیر ذی روح اشیاء کے
لئے بھی آپ بالواسطہ رحمت ہیں کیونکہ عالمین کے لفظ میں اللہ تعالیٰ کے
سوائے سب موجودات آ جاتی ہیں۔ اور سراجاً منیرا صرف مومنین متبعین سنت کے
لئے ہے۔
قرآن شریف میں سراج کا لفظ صرف دو ہستیوں کے لئے وارد ہوا ہے۔ آفتاب عالمتاب کے لئے جیسے کہ فرمایا
ترجمہ۔ "یعنی اللہ تعالیٰ نے آسمانوں میں چاند کو نور اور سورج کو چراغ بنایا۔ " (نوح ۲۹)
نیز فرمایا :۔ " (فرقان ۱۹ پ) یعنی بہت بلند شان والا ہے، اللہ جس نے بنائے آسمان میں ستارے اور بنایا اس میں چراغ (سورج) اور (بنایا) چاند روشنی والا۔ "
اسی طرح سورت نباء میں فرماتا ہے :۔
" یعنی اور (بنایا) ہم نے چراغ (سورج) چمکتا۔ "
توضیح:۔ عربی زبان میں منیرا لازم ہے اور متعدی بھی، لازم کا مفاد یہ ہے کہ وہ روشن ہے اور متعدی کا حاصل یہ ہے کہ دوسرے کو روشنی دینے والا اور آفتاب کی بھی یہی شان ہے کہ وہ اپنے آپ میں بھی روشن ہے اور دوسروں کو روشنی دیتا ہے۔ یعنی ستاروں کو چاند کو اور زمین کو۔
اسی طرح حق تعالیٰ نے ذات اقدس آنحضورﷺ کی نسبت بھی فرمایا :۔
"یعنی اے بزرگ شان والے نبی! ہم نے آپ کو (اپنی توحید کا) شاہد کر کے اور (جنت کی) خوشخبری دینے والا کر کے اور (دوزخ سے) ڈرانے والا کر کے اور اللہ تعالیٰ کی طرف اس کے اذن سے بلانے والا کر کے اور روشنی دینے والا آفتاب کر کے بھیجا ہے" (احزاب)
تفسیر معالم میں اس آیات کے ذیل میں کہا ہے :۔
"حق تعالیٰ نے آپ کا نام سراج فرمایا ہے کیونکہ آپﷺ سے ہدایت حاصل ہوتی ہے۔ مانند چراغ کے کہ اس سے اندھیرے میں روشنی حاصل ہوتی ہے۔ "
اسی طرح تفسیر کشاف وغیرہ میں کہا ہے :۔
اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کی ذات سے شرک کے اندھیروں کو آشکار کر دیا اور ہدایت پائی آپﷺ سے گمراہوں نے جس طرح کہ رات کے اندھیرے آشکار ہوتے ہیں روشن چراغ سے اور راہ دکھائی دیتا ہے اس سے۔
"یا یہ کہ امداد دی اللہ نے آپﷺ کے نور نبوت سے باطنی بصیرتوں کی روشنی کو، جس طرح کہ چراغ کی روشنی سے ظاہر ی آنکھوں کو امداد پہنچتی ہے۔ "
الغرض حق تعالیٰ نے آپﷺ کے نور نبوت اور فیض و برکت کو روشن چراغ سے یا آفتاب عالمتاب سے تشبیہ دی ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح جسمانیات و مادیات پر روشن چراغ یا آفتاب کی روشنی پڑتی ہے اور ان پر سے ظلمت کے پردے چاک ہو جاتے ہیں اور چیزوں کی اصلیت و حقیقت بغیر کسی قسم کے اشتباہ کے نمایاں ہو جاتی ہیں اور دماغ انسانی وحشت و تردد کی حیرانی وسرگردانی سے آرام پاتا ہے اسی طرح آنحضرتﷺ کے نور نبوت سے شرک و کفر، بدعت و ضلالت، رسوم جاہلیت و توہمات اور نفسانی خواہشات کی کدورتیں اور ظلمتیں دور ہو گئیں اور حق و باطل کی حقیقت غیر مشتبہ طور پر نمایاں ہو گئی اور ہدایت و ضلالت میں واضح طور پر امتیاز ہو گیا۔ جیسا کہ فرمایا :۔
"یعنی دین میں جبر کرنے (کی ضرورت) نہیں کیونکہ ہدایت (بھلائی) گمراہی (و بد راہی) سے بلا شبہ متمیز ہو چکی ہے۔ " (البقرہ ۳ پ)
چونکہ آنحضرتﷺ حاتم النبیین ہیں اور اللہ اس کے فرشتوں کی طرف سے آپﷺ کے خدا یاد امتیوں پر صلوات و برکات نازل ہوتے رہنے کی خبرiہے جس سے واضح ہے کہ آپؐ کے امتیوں میں اصحاب صلاحیت اور ارباب یمن و برکت ہمیشہ قائم رہیں گے۔ جو آنحضرتﷺ کے انوارقدسیہ سے حسب استعداد بہر اندوز ہوتے رہیں گے، پس آپؐ کا فیض مثل چشمہ جاری کے تا قیامت جاری رہے گا اور ا س پر انقطاع و بندش وارد نہیں ہو گی اور چونکہ انبیائے سابقین کی امتوں میں بوجہ ان کے کفر و شرک اور بدعت و ضلالت اور رسوم جاہلیت و توہمات کی ظلمتوں میں پھنس جانے کے ان انبیاء کے انوار حاصل کرنے کی صلاحیت و قابلیت نہیں رہی نیز ان کی شریعتیں ایک حد تک تو منسوخ اور ایک حد تک محرف و مبدل اور ایک حد تک مختلط و مشتبہ ہو کر اصلی حالت پر قائم نہیں رہیں اور ان کی حالت مثل چشمہ غیر صافی و مکدر کے ہو گئی ہے اور وہ لوگ اپنے طریق زندگی میں سنن انبیاء سے منحرف ہو کر مثل ان لو گوں کے ہو گئے ہیں جن کے پاس کوئی کتاب الٰہی یا شریعت نہیں ہے۔ اس لئے ان پر ان انبیاء کے انوار منعکس نہیں ہو سکتے۔ اسی امر کے ایک پہلو میں آنحضرتﷺ نے حضرت عمرؓ کے سامنے توراۃ کا مطالعہ کرنے پر فرمایا تھا۔
"قسم ہے اس ذات کی جس کے دست (قدرت) میں محمدﷺ کی جان ہے اگر تمہارے سامنے موسی ؑ ظاہر ہو جائیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کے پیچھے ہو جاؤ۔ تو تم (اللہ کی) سیدھی راہ سے بہک جاؤ گے اور وہ زندہ ہوں اور میری نبوت پالیں۔ تو ضرور ضرور میرے پیچھے چلیں۔ "
حاصل کلام یہ کہ آنحضرتﷺ کا فیض تو جاری ہے لیکن اس بہرہ اندوز ہونے کے لئے استعداد قابلیت شرط ہے۔ یا یوں سمجھوکہ سبب تو موجود ہے لیکن اس کی تاثیر کیلئے جن اسباب ووسائل کی ضرورت ہے۔ ان کو حاصل کرنا چاہیے اور جو امر اس کے مانع و مزاحم ہیں، ان سے بچنا چاہیے۔ واللہ الموفق)