صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
سر سید کی کہانی۔۔ سر سید کی زبانی
راوی: الطاف حسین حالیؔ۔ ضیاء الدین لاہوری
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
بابِ سوّم : بزرگوں کا تذکرہ
دادا کا فارسی دیوان:
سر سید کہتے تھے کہ:
" سید ہادی فارسی شعر کہتے تھے اور ان کا پورا دیوان ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا میرے پاس موجود تھا جو غدر کے زمانہ میں تلف ہو گیا ۔"
نانا کے بھائی فقیری راہ پر:
خواجہ نجیب الدین ، جو نواحِ دہلی میں شاہ فدا حسین کے نام سے مشہور ہیں، سہروردی خاندان میں ایک نیا فرقہ رسول شاہ کے پیروؤں کا پیدا ہو گیا تھا ۔ شاہ فدا حسین اس فرقہ میں ابتدائی عمر سے داخل ہو گئے تھے اور رسول شاہ کے جانشین مولوی محمد حنیف کے چیلے بن گئے تھے ۔ ۔ ۔ سر سید کہتے تھے کہ :
" وہ نہایت خوش بیان اور خوش تقریر تھے جب میرے والد کا انتقال ہوا تو میری والدہ کو جو ان کی بھتیجی تھیں ، اپنے پاس بلا کر ایسی عمدہ تقریر کی کہ اب تک اس کا لطف میرے دل سے نہیں بھولا۔"
والد کا مغلیہ دربار میں رسوخ:
سر سید کے والد میر متقی ایک آزاد طبیعت کے آدمی تھے ۔ اگرچہ شاہ عالم کے زمانہ میں اور ان کے بعد اکبر بادشاہ کے زمانہ میں جو درجہ دربارِعام اور دربارِ خاص میں ان کے والد کا تھا وہی درجہ میر متقی کا
بھی رہا ۔ ۔ ۔ مگر چونکہ ان کو اکبر شاہ کے ساتھ شاہزادگی کے زمانہ سے نہایت خلوص اور خصوصیت تھے اس لئے شاہ عالم کے انتقال کے بعد ان کا رسوخ دربار میں پہلے سے بھی زیادہ ہو گیا تھا۔ مثمن برج سے پیوستہ جو مکان خواب گاہ کے نام سے مشہور تھا اور جہاں خاص خاص لوگوں کے سوا کوئی نہ جا سکتا تھا ، میر متقی برابر وہاں جاتے تھے۔ سر سید کہتے تھے کہ:
" میں بارہا اپنے والد کے ساتھ اور نیز تنہا بھی اس خاص دربار میں گیا ہوں۔"
والدہ کی نصیحت کا اثر:
سر سید نے ایک شخص کا ہم سے ذکر کیا کہ :
" جب میں صدر امین تھا تو اس کے ساتھ میں نے کچھ سلوک کیا تھا اور اس کو ایک سخت مواخذہ سے بچایا تھا ، مگر ایک مدت کے بعد اس نے میرے ساتھ درپردہ برائی کرنی شروع کی اور ایک مدت تک میری شکایت کی گمنام عرضیاں صدر میں بھیجتا رہا ۔ آخر تمام وجہ ثبوت ، جس سے اس کو کافی سزا مل سکتی تھی ، میرے ہاتھ آ گئی اور اتفاق سے اس وقت مجسٹریٹ بھی وہ شخص تھا جو اس کے پھانسنے کی فکر میں تھا ۔ میرے نفس نے مجھ کو انتقام لینے پر آمادہ کیا ۔ میری والدہ کو جب میرا یہ ارادہ معلوم ہوا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ سب سے بہتر تو یہ ہے کہ در گزر کرو اور اگر بدلہ ہی لینا چاہتے ہو تو اس زبردست حاکم کے انصاف پر چھوڑ دو جو ہر بدی کی پوری سزا دینے والا ہے ۔ اپنے دشمنوں کو دنیا کے کمزور حاکموں سے بدلہ دلوانا بڑی نادانی کی بات ہے۔ " ان کے اس کہنے کا مجھ پر ایسا اثر ہوا کہ اس دن سے آج تک مجھ کو کبھی کسی اپنے دشمن یا بدخواہ سے انتقام لینے کا خیال نہیں آیا اور امید ہے کہ کبھی نہ آئے گا ، بلکہ ان ہی کی نصیحت کی بدولت میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ آخرت میں خدا اس سے میرا بدلہ لے۔ "
والدہ کا نظامِ مصارف:
جب کہ وہ دلی میں منصف تھے ان کو عمارات شہر اور نواحِ شہر کی تحقیقات کا خیال ہوا۔ وہ کہتے تھے کہ :
" میں اپنی کُل تنخواہ والدہ کو دے دیتا تھا ۔ وہ اس میں صرف پانچ روپے مہینہ اوپر کے خرچ کے لئے مجھ کو دے دیتی تھیں ، باقی میرے تمام اخراجات ان کے ذمہ تھے ۔ جو کپڑا وہ بنا دیتی تھیں پہن لیتا تھا اور جیسا کھانا وہ پکا دیتی تھیں ، کھا لیتا تھا۔ "
اس کا سبب یہ تھا کہ ان کی آمدنی گھر کے اخراجات کو مشکل سے مکتفی ہوتی تھی ۔ ان کے بڑے بھائی کا انتقال ہو چکا تھا جس سے سو روپیہ ماہوار کی آمدنی کم ہو گئی تھی ، قلعہ کی تنخواہیں تقریباً بند ہو گئیں تھیں ، باپ کی ملک بھی بسبب حین حیات ہونے کے ضبط ہو گئی تھی ، کرایہ کی آمدنی بہت قلیل تھی ، صرف سر سید کی تنخواہ کے سو روپے ماہوار تھے اور سارے کنبے کا خرچ تھا۔
والدہ سے دلبستگی:
اپنی والدہ کے ساتھ جیسی ان کو دل بستگی تھی ایسی بہت ہی کم سنی گئی ہے ۔ اور جیسی کہ وہ جوانی میں ماں کی اطاعت کرتے تھے اور ان کے غصہ اور خفگی کی برداشت کرتے تھے اس طرح بچے بھی اپنے ماں باپ کا کہنا نہیں مانتے۔ وہ کہتے تھے کہ:
" مجھ کو ماں کے مرنے کا اتنا رنج نہیں ہوا جتنا کہ بھائی کے مرنے کا ہوا تھا ، کیونکہ غدر کے مصائب کا زمانہ تھا اور ہر وقت یہ خیال رہتا تھا کہ ایسا نہ ہو میں پہلے مر جاؤں اور میرے بعد والدہ کی زندگی سختی اور تلخی میں گزرے ۔"
انہوں نے مرنے سے چند سال پہلے میرٹھ میں جہاں ان کی والدہ مدفون ہیں ، ایک پبلک اسپیچ میں اپنی ماں کا ذکر کیا، معاً ان کا دل بھر آیا اور اس بڑھاپے میں ان کو ماں کے ذکر پر روتا دیکھ کر لوگ متعجب ہو گئے۔
***