صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


صنفِ نعت انسانی تخئیل کے تناظر میں 

حسن محمود جعفری

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

اقتباس

مہاتما بدھ نے پیڑ تلے بیٹھے بیٹھے جھڑتے پتّوں سے مٹھی بھری اور آنند کی اور دیکھا:

’’اے آنند! کیا سارے پتّے میری مٹھی میں آ گئے ہیں؟‘‘

آنند جھجکا۔ پھر بولا، ’’تتھاگت! یہ رُت پت جھڑ کی ہے۔ جنگل میں اتنے پتّے جھڑتے ہیں کہ اُن کی گنتی نہیں ہو سکتی۔ ‘‘

مہاتما بدھ بولے، ’’اے آنند! تُو نے سچ کہا ہے پت جھڑ کے اَن گنت پتّوں میں سے مَیں بس مٹھی بھر ہی سمیٹ سکا ہوں۔ یہی گت سچائیوں کی ہے۔ جتنی سچائیاں میری گرفت میں آئیں، مَیں نے اُن کا پرچار کیا، پر سچائیاں تو اَن گنت ہیں۔ پت جھڑ کے پتوں کے سمان۔

سب سچائیاں بھلا کس کو ملتی ہیں؟ یہ مٹھی بھر سچائیاں ہی تو اِس جیون کا سبھاؤ ہیں۔ ‘‘

مٹھی بھر سچائیاں۔ کُل کا کُل موجود۔ مگر آشکارا، بس تھوڑا تھوڑا سا ہی۔ سب کچھ عیاں ہے مگر جو نظر میں آ جائے۔ عقل میں سما جائے، وہ سب کچھ کہاں ہے؟ ہمیں ملنے والا یہ ادھورا سچ ہی دراصل زندگی کا سب سے بڑا بھید ہے۔ سب سے بڑا تلاطم ہے۔ یہ ساری رنگا رنگی۔ یہ کثرت میں وحدت۔ یہ وحدت میں کثرت۔ یہ بوقلمونی۔ یہ تنوع۔ یہ سب کچھ اسی بنا پر تو ہے کہ ہمیں ’’کل‘‘ کی خبر نہیں۔ یہ خوشیاں۔ یہ مسرتیں۔ یہ راحتیں۔ یہ میلے ٹھیلے۔ یہ گہماگہمی۔ یہ دھوم دھام۔ یہ رونق۔ یہ ہنگامہ۔ یہ اُداسیاں۔ یہ آلام۔ یہ مصائب۔ یہ غم۔ یہ رنج و الم۔ یہ مسکراہٹوں کے جھرنے۔ یہ آنسوؤں کی جھڑیاں۔ یہ دُکھوں کا میٹھا میٹھا درد۔ یہ زمین کے موسموں کے ساتھ ساتھ من کے موسموں کا اُلٹ پھیر۔ یہ سب مٹھی بھر ہاتھ آنے والی سچائیوں کی ہی تو کرشمہ سازی ہے۔ مجھے، آپ کو اور اِس کُل جہاں کو پیدا کرنے والے نے یہ کارخانہ بھی خوب بنایا ہے۔ اور پھر اس کارخانۂ  جہاں میں ہمارا وجود۔ کل کو کہیں چھپا دیا۔ ہمیں علم ادھورا دیا۔ اس حکم کے ساتھ کہ غور و فکر کرو۔ زیادہ علم کی دعا مانگو۔ معرفت حاصل کرو۔ مہلت کم رکھی اور کارِ جہاں دراز کر دیا۔

مٹھی بھر سچائیوں کے ساتھ تخئیل کی صلاحیت عطا کر دی۔ بیان کا علم دے دیا۔ بولنا سکھا دیا اور لحن بھی دے دیا۔ حرف اور لفظ عطا کر دیے۔ حسِ جمال دے دی اور خطاطی کا فن سکھا دیا۔ سکھا کیا دیا۔ سیکھنے کا تجسّس دے دیا۔

راجا نے وزیر سے کہا: مجھے خطاطی سکھا دے۔ وزیر نے کہا: جہاں پناہ! خطاطی سیکھنے کے لیے رقاص بننا ضروری ہے۔ تو پھر چل، پہلے نرت سکھا دے۔ راجا نے کہا۔ وزیر نے کہا: مگر عالم پناہ! رقص جاننے کے لیے مصور ہونا ضروری ہے۔ تو کوئی بات نہیں۔ مصوری ہی سیکھتے ہیں۔ راجا بولا۔ مگر وزیر نے کہا: لیکن ظلِ الٰہی! مصور تو وہی ہو سکتا ہے، جو اچھا معمار ہو۔ راجا کو بڑا غصہ آیا۔ یہ کیا بکواس ہے۔ اچھا یوں ہی سہی۔ آج سے معماری سیکھنا شروع کرتا ہوں۔ وزیر تھوڑی دیر چپ رہا، پھر بولا: ملجا و ماویٰ! عالی جاہ! لیکن معمار تو وہی ہو سکتا ہے جو مہندس ہو۔ ٹھیک ہے۔ کہیں سے تو بات شروع ہو گی۔ راجا نے ہنس کر کہا۔ مَیں مہندس بننے کو تیار ہوں۔

اُستاد نے تجسّس پیدا کرنے والی خاموشی اختیار کی۔ پھر رُک رُک کر بولے۔ وزیر نے جواب دیا۔ ظلِ سبحانی! مہندس بننے کے لیے نرتک ہونا ضروری ہے۔ اور نر تک وہی ہو سکتا ہے جو خطاط ہو۔

استاد نے زیرِ لب لہجے میں کہا: پھر جیسے ایک دو دم تک سانس روکے رہے تھے۔ لمبی سانس لے کر بولے۔ انسان کا وجود غیر منقسم ہے۔ کیا تم کہہ سکتے ہو کہ جسم کہاں ختم ہوتا ہے اور روح کہاں شروع ہوتی ہے؟ کیا تم جانتے ہو کہ جو سُن نہیں سکتا، وہ زیادہ اچھا دیکھ سکتا ہے؟ لیکن جو سُن نہیں سکتا، وہ بول نہیں سکتا اور جو بول نہیں سکتا، وہ گا نہیں سکتا۔ لیکن وہ ناچ سکتا ہے۔

سات سُروں کے درمیان کوئی دیوار نہیں۔ ساتوں سُر آپس میں حل ہوکر ایک بھی ہو سکتے ہیں اور الگ الگ بھی سنائی دے سکتے ہیں۔ یہ سب فن انسانی وجود ہیں۔ اور انسانی وجود کی تمثیل سات سُر۔ ستّر رنگ۔ اور سات سو زاویے ہیں۔ 

بات بظاہر تو بس اتنی سی ہے کہ خطّاط ہونے کے لیے آدمی کا خطّاط ہونا ایک بنیادی شرط ہے۔ بات تو ’’ہونے‘‘ کی ہے۔ لیکن اس ایک ’’ہونے‘‘ کے لیے آدمی کو کیا کیا ہونا پڑتا ہے۔ یہ اپنی جگہ ایک الف لیلہ ہے۔ ایک طلسمِ ہوش رُبا ہے۔

آدمی خطّاط ہو یا رقّاص۔ مصوّر ہو یا معمار۔ مہندس ہو یا نرتک۔ خونِ جگر کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں۔ نہاں کو عیاں ہونے کے لیے خونِ جگر سے ہی نمود کرنی ہوتی ہے۔ آدم کو مٹی کے پُتلے سے سری لنکا کے پہاڑ کی چوٹی پر قدم رکھنے تک کن کن مرحلوں سے گزرنا پڑا۔ یہ تو بس آدم ہی جانتے ہیں۔ نوح کو نو سو سال تک اپنی قوم کی کیا کیا باتیں نہ سہنی پڑی ہوں گی۔ لکڑی کے تختوں کو جوڑتے ہوئے۔ کشتی میں تمام جانوروں کے جوڑوں کو اکٹھا کرتے ہوئے۔ سیلابِ عظیم کی بے رحم لہروں میں کھیلتے ہوئے اور آخرکار ارارات کی چوٹی جودی پر پاؤں دھرتے ہوئے، خونِ جگر کی کتنی بوندیں بہانی پڑی ہوں گی۔ یہ تو صرف نوح ہی بتا سکتے ہیں۔ ابراہیم کو اُبھرتے، ڈوبتے چاند سورج کے مشاہدے سے لے کر آتشِ نمرود میں بے خطر کودنے تک قلب و نظر کی کن کن کیفیتوں کو جھیلنا پڑا۔ خونِ جگر کے کتنے تلخ و شیریں گھونٹ پینے پڑے۔ یہ بھلا ہم جیسے عاصی کیا سمجھیں؟ یوسف کو کنویں کی تنہائیوں، گہرائیوں اور قید خانے کی تاریکیوں سے گزر کر عزیزِ مصر کے خزانوں تک آنے تک خونِ جگر کے کون کون سے رنگ دیکھنے کا تجربہ ہوا یہ تو صرف یوسف کی آنکھوں کی دھنک ہی بیان کر سکتی ہے۔ غرض کس کس کا ذکر کریں؟ کہاں کہاں کا کھوج لگائیں؟ کیسا کیسا بھید کھولیں؟ بات لوٹ پھیر کے ایک ہی جگہ آ تھمتی ہے۔

رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت

معجزۂ  فن کی ہے خونِ جگر سے نمود

معجزۂ  فن کی خونِ جگر سے نمود ہونا کیوں مشروط ہے؟ معجزۂ  فن کا خونِ جگر سے کیا رشتہ؟ کیا تعلق؟ کیا بندھن ہے؟ نقش ہیں سب ناتمام۔ خونِ جگر کے بغیر۔ آخر کیوں؟ نغمہ ہے سودائے خام۔ خونِ جگر کے بغیر۔ اس کی کیا معنویت ہے؟ کیا علّت ہے؟ اگر میری غزل میں ہے آتشِ رفتہ کا سراغ، تو اس کی کوئی تو وجہ ہو گی۔ کوئی نہ کوئی تو بھید ہو گا ہی کہ جس کی بنا پر ہے۔ میری تمام سرگزشت۔ کھوئے ہوؤں کی جستجو۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول