صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


سلسلۂ روز و شب

ڈاکٹر سلیم خان

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے

 بابری مسجد کے نام نہاد عدالتی فیصلے پر عام مسلمانوں کے رد عمل کی نمائندگی کا حق اسلم بھورے نے ادا کیا۔ یہ وہی اسلم بھورے ہے جس نے ۱۹۹۱ ء میں مسلمانوں کی جانب سے آواز بلند کرتے ہوئے بابری مسجد کی اراضی محکمہ سیاحت کو دیئے جانے کے خلاف عرضداشت داخل کی تھی اور عدالت نے اس کی بات کو تسلیم کرتے ہوئے فیصلے پر روک لگائی تھی۔ اس نے ۲۰۰۲ ء میں وی ایچ پی کی جانب سے رام مندر کی تعمیر کا آغاز رکوانے کے لئے سپریم کورٹ میں گہار لگائی تھی اور اس کو عدالت کی جانب سے مثبت جواب ملا تھا یہ اور بات ہے کہ سنگھ پریوار وقتاً فوقتاً بد عہدی کرتے ہوئے قانون کو پامال کرتا رہا نیز کانگریس پارٹی خاموش تماشائی بنی رہی۔ اسلم بھورے کا سیاسی جماعتوں پر سے اعتماد تو برسوں قبل ختم ہو گیا تھا لیکن عدلیہ پر ہنوز باقی تھا۔ اپنے جرأت مندانہ اقدامات وہ کسی اور کے کہنے پر یا کسی مفاد کے حصول کی خاطر نہیں بلکہ اپنے ضمیر کی آواز پر کرتا تھا۔ اتفاق سے اسلم نہ تو کوئی عالم دین تھا اور نہ دانشور۔ وہ نہ ہی سیاسی سربراہ تھا اور نہ ہی سماجی رہنما۔ وہ ایک عام مسلمان تھا جسے اپنے دین اور شعائرِ دین سے محبت تھی۔ وہ ان کی حفاظت کے لئے عملی جد و جہد کا قائل تھا چونکہ اسے ملک کے عدالتی نظام پر مکمل اعتماد تھا۔ اس اسلم بھورے نے بابری مسجد کے فیصلے سے پہلے یا بعد کوئی بیان جاری نہیں کیا لیکن فیصلے کے بعد عام مسلمانوں کی طرح وہ بھی غمگین ہو گیا۔ صدمہ اس قدر شدید تھا کہ اس کی زبان گنگ ہو گئی لیکن آنکھوں کی نیند اڑ گئی۔ دو دنوں تک وہ سب سے کٹ کر جاگتا رہا۔ خلاؤں میں جھانکتا رہا اور جب دور تک اسے روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آئی تو مایوسی کی کالی چادر تان کر ابدی نیند سو گیا۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اسلم بھورے کی قبر کو اپنے نور سے منور کر دے۔ اس کی مغفرت فرمائے۔ اس کے درجات کو بلند فرمائے۔ قوم کا عام آدمی بجا طور پراسلم بھورے کے جذبات و احساسات کی قدر کرتا ہے اوراس کے اقدامات و خدمات کو سلام کرتا ہے لیکن خاص لوگوں کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ قوم کے کئی دانشور صلح صفائی پر آمادہ ہیں اور ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر آگے کی جانب دیکھنے کی بات کرتے ہیں۔ یہ لوگ اس بات کو نہیں جانتے کہ جو اقوام اپنے اوپر ہونے والے مظالم کو بھلا دیتی ہیں تو وہ گویا پھر ایک بار اپنے آپ کو ظلم کا شکار بنانے کے لئے پیش کر دیتی ہیں۔ ظالم کا حوصلہ بڑھاتی ہیں اور انہیں زبانِ حال سے یہ کہتی ہیں کہ ہم تمہارے لئے تر نوالہ ہیں جب موڈ بنے ہم پر ہاتھ صاف کر لو ہم زبان سے اُف نہ کہیں گے بلکہ بے غیرتی کے ساتھ ہنستے مسکراتے ہوئے سر جھکا کر شکریہ ادا کرنے میں اپنے لئے عافیت جانیں گے اور ماضی کی تلخیوں کو بھلا دیں گے اور عفو درگذر کا معاملہ کریں گے۔

کسی زیادتی کے جواب میں ایک انتہا پسندی یہ ہے کہ تلخی کا اظہار کیا جائے اوردوسرے اس سے بدتر انتہا یہ ہے کہ ظلم کویکسر بھلا دیا جائے۔ اہل ایمان ان دونوں رویوں کو ترک کر کے درمیان کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ مسلمان مکی دور میں مظالم کو برداشت کرتے رہے لیکن انہیں بھولے نہیں۔ وہ مناسب موقع کا نہ صرف انتظار کرتے رہے بلکہ اس کی تیاری میں بھی لگے رہے۔ انہوں نے نہ جلد بازی دکھلائی اور نہ تساہلی کا مظاہرہ کیا۔ جب بدر کے میدان میں حق و باطل کا معرکہ بپا ہوا تو دو نو جوانوں نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے پوچھا چچا جان ابوجہل کون ہے ذرا ہمیں بتا دیجئے۔ انہوں نے پوچھا تم اس کو پہچان کر کیا کرو گے ؟ جواب ملا ہم نے سنا ہے کہ وہ نبیٔ کریم ؐ کو گالیاں دیتا ہے۔ خدا کی قسم اگر وہ نظر آ جائے میں اس سے جدا نہیں ہوؤں گا یہاں تک کہ اس کو موت آ جائے یا ہماری جان چلی جائے۔ ان دونوں نوجوانوں کا نام اتفاق سے معاذؓ  تھا۔ یہ مکہ کے مظالم کا شکار نہیں ہوئے تھے انہوں نے ظلم سہا نہ تھا بلکہ سنا تھا وہ ابوجہل کو پہچانتے تک نہ تھے لیکن اس کی حرکات کو جانتے تھے۔ اگر ان کے والدین اپنے ماضی کو بھلا دیتے اور ابوجہل کے مظالم سے اپنی اولاد کو واقف نہیں کرواتے تو اس فرعونِ وقت کو کیفرِ کردار تک پہونچانے کی سعادت ان نوجوانوں کو حاصل نہیں ہوتی اور وہ فرقانِ عظیم ظاہر نہیں ہوتی جس نے انسانی تاریخ کا دھارا موڈ دیا۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول