صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


سکندر کا مقدر

سلیم خان

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

اقتباس

’’میری موت تو یقینی ہے اور وہ کسی بھی وقت آ سکتی ہے بلکہ آ چکی ہوتی اگر تم سے یہ گفتگو مقدر نہ ہوتی۔‘‘ خضر حیات اپنی آخری سانسیں گنتا ہوا کہہ رہا تھا۔ ’’دیکھو ثریا۔۔۔ اب نہ دُعائیں میرے کسی کام آئیں گی، نہ یہ تسلی کوئی فائدہ پہنچائے گی۔ تم ایسا کرو کہ سمیہ اور سکندر کے لئے دُعا کرو اور اگر ممکن ہو تو مجھ سے ایک وعدہ کرو۔‘‘

’’وعدہ؟ کیسا وعدہ؟‘‘ دُوسری مرتبہ خضر کے روبرو ثریا کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا تھا۔ ثریا نے بڑی مشکل سے اپنے آنسوؤں کو ضبط کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکی۔ اس کی آنکھیں بہنے لگیں۔ وہ رو رہی تھی۔

خضر بولا۔ ’’روؤ نہیں ثریا۔۔۔ اپنے آپ کو سنبھالو۔ میں تو جا رہا ہوں لیکن تمہیں بہت کچھ کرنا ہے۔‘‘

یہ عجیب و غریب منظر تھا کہ ثریا جو دلاسہ دینے کے لئے آئی تھی، اسے خضر حوصلہ دے رہا تھا جو خود زندگی سے مایوس ہو چکا تھا۔

ثریا بولی۔ ’’تم رُک کیوں گئے خضر۔۔۔ بولو، میں کیا کر سکتی ہوں ؟ مجھے کیا کرنا ہے؟ میں وعدہ کرتی ہوں کہ جو تم کہو گے میں اُسے ہر صورت کر گزروں گی۔۔۔ انشا اللہ باذن اللہ!‘‘

’’ثریا! تم نے بغیر جانے وعدہ کر لیا ؟ تم کیسی لڑکی ہو؟‘‘

’’میں جیسی بھی ہوں۔۔۔ مجھے بتاؤ کہ کرنا کیا ہے؟‘‘

’’ثریا۔۔۔ میں نہیں جانتا کہ سمیہ کس حال میں ہے۔ مجھے اُمید ہے اور میں دُعا کرتا ہوں کہ وہ اچھی ہو جائے۔ اسی طرح میں سکندر کے بارے میں بھی کچھ نہیں جانتا؟ میں تم سے یہ وعدہ لینا چاہتا ہوں کہ میرے بعد تم سکندر کا خیال رکھو گی۔ اُسے کبھی بھی اپنے یتیم ہونے کا احساس نہیں ہونے دو گی؟‘‘

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

 ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول