صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
ذرا شیوسار جھیل تک
ڈاکٹر محمد اقبال ہماؔ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
تم کو آنا پڑے گا
۔۔۔۔
اور
اب … لگ بھگ چوتھائی صدی قبل دل کے حسرت خانوں میں بسیرا کرنے والی یہ
خواہشات عالمِ تصور کے بجائے عالمِ رنگ و بو میں اپنی دلکشی و رعنائی سے
مسحور کرنے کے لئے بار بار پکارتی تھیں۔ اس پکار پر لبیک کہتے ہوئے میں نے
سکردو اور دیوسائی کا پروگرام بنایا۔ طاہر کمپیوٹر نے … وہ طاہر جو
کمپیوٹر کا کاروبار کرتا ہے … فرمان جاری کیا کہ سکردو بے شک
جاؤ، دیوسائی کا رخ نہ کرو کیونکہ وہ خود اس سال بعض ناگزیر وجوہات
کی بناء پر سکردو جانے سے قاصر ہے:
’’ شیوسار جھیل اگلے سال جاواں گے،تے دوویں بھراجاواں گے … میں کلم کلا دیوسائی تے شیوسار کیویں جاواں گا؟‘‘
میں نے دیوسائی نہ جانے کا وعدہ کر لیا
وعدہ کرتے وقت مجھے اس کی سفاکی کا اندازہ نہیں تھا۔
سکردو
پہنچ کر دیوسائی نہ جانے کا وعدہ نبھانا کتنا اذیت ناک ہے؟ اس کا اندازہ
وہی کر سکتا ہے جو شیوسار جھیل کے جنت نظیر مناظر اور دیوسائی کے لازوال
حسن کی رعنائیوں کے چرچے سن چکا ہو، یہ رعنائیاں صرف تیس کلومیٹر دور ہوں
،اور پیروں میں وعدے کی زنجیر پڑی ہو! … سکردو میں قیام کے دوران شاہ صاحب
اور اُن کے ساتھیوں نے کئی مرتبہ سوال کیا کہ آپ دیوسائی جانے سے کیوں
کترا رہے ہیں ؟میں انھیں طاہر کمپیوٹر سے کئے گئے وعدے کے بارے میں بتانا
چاہتا تھا لیکن اس جواب میں چھپا ہوا سوال مجھے شرمندہ کرتا تھا!
گھونگھٹ
تک رسائی کے بعد پارسائی کا وعدہ نبھانے والے کو کیا کہا جائے گا؟ میں خود
کو ’’وہ‘‘ نہیں کہلوانا چاہتا تھا اس لئے خاموش رہا اور شیوسار ودیوسائی
سے اگلے سال حاضری کا وعدہ کر کے چپ چاپ واپس چلا آیا۔
اور جب شیوسار کے درشن کے … آئے موسم رنگیلے سہانے … تو:
وعدہ کر کے مکر گیا ہائے
کمپیوٹر بے ایمان نکلا
طاہر
کمپیوٹر نے دیوسائی کے راستے میں ناگزیر مجبوریوں کا ہمالیہ کھڑا کر دیا
اور ساتھ چلنے سے معذرت کر لی۔سکردو میں پونم کے جلووں سے لطف اندوز ہونے
کے بعد شیوسار سے وعدہ خلافی ایک گناہ تھا۔ میں جلد از جلد اس گناہ کا
کفارہ ادا کرنا چاہتا تھا اس لئے طاہر دانیوال … وہ طاہر جو دانیوال ٹاؤن
میں رہتا ہے،رانا محمد یونس، شاہد چوہدری اور عمر چوہدری کو رضامند کرنے
کی ’’موبائل توڑ‘‘ کوشش کی لیکن اِن حضرات نے طاہر کمپیوٹر کے بہانوں سے
زیادہ بھاری بھرکم اور عجیب و غریب قسم کے بہانے ایجاد کر لئے :
کسی کی بیوی کے تایا کی بیٹی کے چچا کی بھتیجی کی والدہ کی داڑھ میں سخت درد تھا۔
کسی کی سالی کے شوہر کے ہم زلف کے سسر نے دو سال قبل بائی پاس کروایا تھا اور اسے پانچ کلومیٹر چلنے کے بعد سانس چڑھ جاتا تھا۔
کسی کے سالے کے سالے کے بہنوئی کی بہن کی ساس عمرہ کرنے جا رہی تھیں اور انھیں خدا حافظ کہنے کے لئے کراچی جانا بہت ضروری تھا۔
مجھے
ان حضرات کی مجبوریوں کی فہرست سن کر بے تحاشہ ترس آنے لگا۔ میرے عزیز
دوست اتنی خوفناک مجبوریوں کی زنجیر میں جکڑے ہوئے ہیں اور میں انھیں
شیوسار کی رنگین فضاؤں کے خواب دکھا رہا ہوں ؟ میں نے مجبوراً پروگرام
ملتوی کرنے کا ارادہ کر لیا، مگر شیوسار اور دیوسائی خوابوں میں آ کر
دہائی دیتے تھے:
روکے زمانہ، چاہے روکے خدائی
تم کو آنا پڑے گا
اس مشکل وقت میں مجھے عرفان فیصل آبادی یاد آیا۔
’’ خیر تو ہے؟ اتنے عرصے بعد بھولے بسرے لوگوں کی یاد کیسے آ گئی؟‘‘ فون پر علیک سلیک کے بعد عرفان نے سوال کیا۔
’’ مسئلہ وہی پرانا ہے۔‘‘ میں نے شرمندگی سے کہا۔ ’’ذرا شیوسار جھیل تک جانے کا ارادہ ہے … کوئی ساتھی نہیں مل رہا۔ ‘‘
’’ میں ہوں ناں !آپ فیصل آباد آ جائیں ،حسبِ روایت آپ کو سکردو پہنچا دیا جائے گا۔ آگے آپ جانیں اور آپ کی شیوسار۔‘‘
’’ویری گڈ۔اسکا مطلب ہے کہ آپ براستہ سکردو کہیں جانے کے لئے پر تول رہے ہیں … کہاں کا ارادہ ہے؟‘‘
’’
وہی غونڈو غورو … پچھلے سال واپس آنا پڑا تھا، اس مرتبہ دوبارہ کوشش
کرنے کا ارادہ ہے۔ لیکن آپ کو شیوسار کی کیا سوجھی؟ آپ نے کئی دن سکردو
میں قیام کیا تھا، دیوسائی نہیں گئے؟‘‘
’’نہیں جا سکا تھا۔‘‘ میں نے شرمندگی سے کہا۔
’’ دس دن تک سکردو میں کیا کرتے رہے تھے؟‘‘ وہ حیران ہوا۔
’’جھک مارتا رہا تھا۔‘‘ میں نے اعتراف کیا۔
’’اور
اب پھر جھک مارنے جا رہے ہیں۔ شیوسار جھیل اور سکردو بچوں کے مشغلے
ہیں۔ اس مرتبہ ہمارے ساتھ غونڈو غورو کراس کریں۔ زندگی سنور جائے
گی۔‘‘ عرفان نے مجھے ورغلانے کی کوشش کی۔
’’میں آج تک پچھتا تا
ہوں کہ جوانی میں یہ پنگے کیوں نہیں لئے؟اب میری بزرگی اس قسم کی مہمات کی
اجازت نہیں دیتی۔آپ کے لئے آپ کا غونڈو غورو … میرے لئے
شیوسار جھیل۔‘‘
’’ڈاکٹر صاحب پنگے لئے نہیں جاتے … ہو
جاتے ہیں۔ پچھلے سال شاہراہِ قراقرم پر ہونے والی لینڈسلائیڈنگ کے
علاقے کورات کی تاریکی میں پیدل عبور کرنے والا پنگا آپ نے سوچ سمجھ کر
لیا تھا؟‘‘
عرفان ’’سکردو میں پونم‘‘ سے واپسی پر پیش آنے والے پنگے کا حوالہ دے رہا تھا، میں نے خاموش رہنا مناسب سمجھا۔
’’بہرحال
میرا مشورہ ہے کہ شیوسار جیپ سفاری میں اسکولی جیپ سفاری بھی شامل کر لیں
تاکہ آپ کا سفر باضابطہ ہو جائے۔‘‘ عرفان نے کہا۔
’’صرف شیوسار کے لئے سفر کرنا بے ضابطہ ہو گا؟‘‘
’’اسکولی،
دیوسائی جیپ سفاری کچھ کمپنیوں کے سالانہ ٹور پروگراموں کا حصہ اور
ایک جانا پہچانا شیڈول ہے۔ شیوسار جیپ سفاری لنڈورا سا لگے گا۔‘‘
’’او۔کے
… اسکولی فائنل سمجھیں ، لیکن آپ کی جیپ میں میری گنجائش کیسے نکلے گی؟
میرا مطلب ہے آپ کے ساتھی مائنڈ تو نہیں کریں گے؟‘‘
’’جیپ
میں صرف میں اور آپ ہوں گے۔ہمارے گروپ کی چھٹیوں کا شیڈول ایسا ہے
کہ بقیہ ساتھی تین چار دن پہلے روانہ ہوں گے اور ٹریک کے انتظامات مکمل
کریں گے۔ پئی یو میں ایک دن کا لازمی قیام ہو گا تو میں ان کے ساتھ شامل
ہو جاؤں گا۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے آپ جیپ کا کرایہ شیئر کرنے کے
لئے مجھے اُلٹی پٹی پڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں ،ورنہ دو مختلف سمتوں میں
جیپ سفاری کی کیا تک ہے؟اسکولی سکردو کے شمال اور دیوسائی جنوب میں ہے۔‘‘
’’آپ
کو شیوسار جانے کے لئے ساتھی نہیں مل رہا تومیں اپنی جیپ کا کرایہ شیئر
کرنے کے لئے آپ کو الٹی پٹی پڑھانے کی کوشش کیوں نہ کروں ؟‘‘
عرفان کے لہجے میں معصومیت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔میں بخوشی اس معصومیت کے جال میں گرفتار ہو گیا۔
اسکولی
کا نام میں نے شمالی علاقہ جات پر لکھے گئے تقریباً ہر سفرنامے میں پڑھا
تھا۔ مجھے علم تھا کہ یہ پاکستان کی شمالی سرحد کا آخری گاؤں ہے اور اس سے
آگے برف کے دیوتاؤں کی سلطنت کا آغاز ہوتا ہے۔ میرے ذہن میں اسکولی کا
تصور ایک عارضی کیمپنک سائٹ کا تھا۔میں نے کبھی نہیں سنا تھا کہ کسی نے
اسکولی ٹریک یا اسکولی جیپ سفاری کا پروگرام بنایا ہو۔اب اگر شیوسار اور
عرفان کے ذہن پر چھائے ہوئے ’’غونڈوغورولا‘‘ کے طفیل اسکولی کا دیدار ہو
رہا تھا تو مجھے کیا اعتراض ہو سکتا تھا؟
مگر غونڈو غورو -لا عرفان کے ذہن پر کیوں چھایا ہوا تھا؟
وادیِ
شگر کو وادیِ ہوشے سے ملانے والا غونڈو غورو لا ( بلتی زبان میں درّے کو
’’لا‘‘ کہتے ہیں ) ہر اُس کوہ نورد کے ذہن پر غاصبانہ قبضہ جما لیتا ہے جو
قراقرم کے جغرافیے کے مطالعے کی غلطی کر بیٹھتا ہے۔
یہ میرے ذہن پر بھی قبضہ جمانے کی کوشش کرتا ہے مگر؟
سطح
سمندر سے ساڑھے پانچ ہزار میٹر … یعنی اٹھارہ ہزار فٹ بلندغونڈو
غورو لا اور اس کا راستہ سنو لائن سے زیادہ بلندی پر واقع ہیں اس لئے
دونوں کی برف کبھی نہیں پگھلتی، درجہ حرارت منفی بیس ڈگری سنٹی گریڈ کے لگ
بھگ رہتا ہے اور ہوا میں آکسیجن کا تناسب نہ ہونے کے برابر ہے۔
غونڈو
غورو ٹاپ تک جانے والی چڑھائی تقریباً پینتالیس درجے کا زاویہ بناتی ہے۔یہ
چڑھائی دراصل وِگنے گلیشئر ہے جو سورج کی حرارت سے نرم و ملائم ہوکر
برفانی دلدل میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس دلدل کو دن کے وقت عبور کرنے کا
دوسرا نام ’’ خودکش برف دھماکہ‘‘ ہے۔رات کو وگنے گلیشئر اس حد تک ٹھوس ہو
جاتا ہے کہ برف گھٹنوں تک پہنچتی ہے، سر پر سے نہیں گزرتی۔ اس لئے
غونڈو غورو لا ٹریک کے آخری دن کا سفر رات کے وقت کیا جاتا ہے،اور انتہائی
محتاط انداز میں کیا جاتا ہے کیونکہ وگنے گلیشئر اپنی قاتل دراڑوں کے لئے
مشہور ہے۔
اس تفصیل کو بیان کرنے کا مقصد اس سوال کا جواب تلاش کرنا
ہے کہ نانگا پربت بیس کیمپ ٹریک کے دوران … سطح سمندر سے نو ہزار فٹ بلند
جیل گاؤں سے فیری میڈوز جانے والی شریفانہ چڑھائی پر ایک گھنٹہ چلنے کے
بعد اگر اٹھارہ سالہ بالی عمریا اور ٹیم کا سب سے فٹ ممبر عمر چوہدری ہوش
و حواس کھو بیٹھے … تو سطح سمندر سے اٹھارہ ہزار فٹ بلند غونڈو غورو
لا عبور کرنے کا خواب آنکھوں میں بسانے والے اڑتالیس سال پرانے بابے کو کس
نوعیت کے مسائل پیش آ سکتے ہیں ؟
مزید یہ کہ اُسے اس حرکت پر اُکسانے والے کو کیا سزا ملنا چاہیے؟
سوال نمبر دو یہ ہے کہ اتنے مشکل اور اوٹ پٹانگ سپنے آنکھوں میں بسانے کی ضرورت کیا ہے؟
جواباً
عرض ہے کہ غونڈو غورو ٹاپ سے قدرت کے برفانی عجائب گھر کا جو لازوال منظر
دیکھنے کو ملتا ہے، وہ اس کائنات کا خوبصورت ترین منظر ہے اور کوہ نوردی
کی دنیا کی معراج کہلاتا ہے۔کوہ نورد یہ معراج حاصل کرتا ہے اور
کے۔ٹو،گیشر بروم،براڈ پیک، میشر بروم اور بے شمار دوسری چوٹیوں کے ساتھ
برفانی دنیا کی لیلائے حسن … لیلیٰ پیک کو اپنے سامنے جلوہ افروز دیکھ کر
مجنوں ہو جاتا ہے اور فطرت کی ’’مس یونیورس‘‘ کے حضور عہدِ وفا
استوار کرنا چاہتا ہے:
برفوں میں ترے جینا مرنا
اب دور یہاں سے جانا کیا
گائیڈ جو اس دلکش خواب کی اگلی قسط سے بخوبی آگاہ ہے … اصرار کرتا ہے:
صاحب جی اٹھو، اب کوچ کرو
اس برف میں جی کا لگانا کیا
اس
ٹریک کا اگلا مرحلہ وادیِ ہوشے میں داخل ہونا ہے۔ وادیِ ہوشے تک
جانے والی ’’ اُترائی ‘‘ بھی ایک گلیشئر ہے اورغونڈو غورو گلیشئر کہلاتی
ہے۔یہ گلیشئر وگنے گلیشئر کا بھی باپ ہے اور ایک بے ہنگم، بے ڈول اور
پتھریلی ڈھلوان بناتا ہے جو ساٹھ درجے کا زاویہ بناتے ہوئے نیچے پہنچتی
ہے۔ جیسے جیسے سورج بلند ہو گا، غونڈو غورو کے برفانی سمندر سے
برفانی تودے لڑھکنے شروع ہو جائیں گے۔ اس لئے فوراً نیچے اترنا شروع کر
دینا چاہیے اور مسلسل ورد کرتے رہنا چاہئے:
سورج میں تپش نہ آئے
آئے تو برف نہ پگھلائے
پگھلائے تو ذرا دور پگھلائے
تودے نے نیچے اترنے والے کی طرف لڑھکنا شروع کر دیا تو؟
چھوڑیں
جی، دفع دور کریں اس موضوع کو … میں یا آپ کونسا غونڈو غورو جا رہے
ہیں ؟ ان معلومات کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ عرفان مجھے کس قسم کے الٹے
سیدھے پنگے میں الجھانے کی کوشش کر رہا تھا اور میں نے اس پنگے سے دامن
بچا کر کتنی عقلمندی کا مظاہرہ کیا۔عرفان ایک تربیت یافتہ راک کلائمبر،
باقاعدہ ٹریکر اور کوہ پیما ٹیموں کے لئے سند یافتہ رابطہ آفیسر ہے۔ وہ
پچھلے سال موسم کی خرابی کی وجہ سے غونڈو غورو لا عبور نہیں کر سکا تھا
اور کے۔ٹو بیس کیمپ سے واپس آ گیا تھا۔اس لئے غونڈو غورو لا اُس کے ذہن پر
چھا چکا ہے۔اپنے ذہن کو غونڈو غورو سے آزاد کرانے اور اپنی بے داغ ٹریکنگ
لائف پر لگا ہوا ناکامی کا داغ دھونے کے لئے غونڈو غورو عبور کرنا اس کی
انا کا مسئلہ ہے۔ میں اُن حرکات سے دور رہتا ہوں جو اَنا پر ایسے داغ دھبے
لگا دیں جنہیں دھونے کے لئے غونڈو غورو وغیرہ عبور کرنے کی ضرورت پیش آئے۔
اس لئے :
شیوسار جھیل زندہ باد
غونڈوغورو ’’ہائے … … ہائے‘‘
ہائے میں تھوڑی سی حسرت، خوفزدگی اور ناتوانی کا اضافہ کر لیں … شکریہ
٭٭٭