صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
شکست خوردہ تحریر
اور دوسرے افسانے
سرور غزالی
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
مجبوری
نذرل اسلام انتہائی شستہ بنگالی میں اس فوجی سے مخاطب تھا۔
’’ تم ہمارے دیس میں کیا لینے آئے ہو۔ جاؤ ہماری جان چھوڑو ‘‘۔
وہ اور بھی جا نے کیا کچھ بو لتا رہا۔
فوجی کے پلے کچھ نہیں پڑا۔ فوجی نے انگریزی زبان میں صرف اتنا ہی کہا ’’ تمہارا دفاع ‘‘
’’ ہوں ! ‘‘ نذرل نے تھوک نگلتے ہوئے کہا۔
اس لمبے چوڑے گورے چٹے فوجی کے سامنے موہنا سا نذرل۔۔ اس کی شخصیت کافی دبی دبی لگ رہی تھی۔ مگر وہ فو جی سے ذرا بھی مرعوب نظر نہ آتا تھا۔
طوفانی رات تھی۔ بجلی کی گرج چمک میں یکدم موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔ نذر ل نہ صرف اچھا تیراک تھا بلکہ اسے اپنے آبائی علاقے کی بھی خوب پہچان تھی۔ وہ جلدی جلدی ایک طرف کو نکل گیا۔
فوجی پریشان حال ادھر ادھر ٹامک ٹوئیاں مارتا رہا اور آخر کار مٹی کے ایک تودے کے سرکنے سے گڑ پڑا۔ اس کے سر پر چوٹ لگی اور وہ بے ہوش ہو گیا۔ پانی کے بہاؤ سے بہتا بہتا قریب کے سمندر تک جا پہنچا۔۔
جہاں مچھیروں نے اسے بچا لیا۔ اور پھر اسے پڑوسی ملک کی بحری سمندر کی محافظ پولیس لے گئی۔ پڑوسی ملک میں علاج معالجہ ہو تا رہا وار پھر وہاں سے اس کے ملک واپس بھیج دیا گیا۔
اپنے ملک میں بھی اس کا کچھ عرصے تک علا ج ہو تا رہا اور ایک دن وہ پھر سے جی کڑاکے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کا زخم بھر چکا تھا اور توانائی واپس آ چکی تھی۔
پھر اس کی پوسٹنگ سبی ہو گئی۔
سبی کے قریب ہی پہاڑوں پر اس کا دستہ بر سر پیکار تھا۔ رات کے اندھیرے میں آنکھ مچولی ہوتی۔ دو قدم آگے اور دو قدم پیچھے۔۔ بس ہر روز یہی ہو تا۔ نہ فتح ہو تی نہ شکست۔
ایک دن وہ بازار میں دوسرے فوجیوں کے ساتھ پہرا دے رہا تھا۔ ادھر ادھر ٹہلتے وہ ذرا آگے نکل آیا۔اچانک ایک لحیم شحیم، بڑی بڑی گھیرے والی شلوار پہنے ایک شخص نے اس کے بالکل قریب آ کر اپنی مادری زبان میں اس سے کچھ کہنا شروع کر دیا۔
فو جی کے کچھ پلے نہ پڑا۔ ڈر کے مارے جواباً اس نے انگریزی میں چیخ کر کہا ’’ بھاگ جاؤ۔ مجھے گو لی چلا نے پر مجبور نہ کرو ! ‘‘
شو ر سن کر اس کے فو جی ساتھی اور بہت سارے دوسرے لوگ جمع ہو گئے۔
انہی میں سے ایک نے ترجمانی کر کے فو جی کو بتا یا کہ وہ بلوچی زبان میں کہہ رہا تھا کہ
’’ تم یہاں کیا لینے آئے ہو۔ہمیں فو جی ٹرک اور اسلحے کی بجائے نوکریاں اور گھر چاہئے۔‘‘
ایک دن فو جی یہیں ایک دفاعی آپریشن کے دوران زخمی ہو گیا۔
جب وہ دو بارہ رو بصحت ہوا تو اس کی پو سٹنگ سوات ہو گئی۔
سوات شہر کے قریب ہی اس کا اپنا آبائی گاؤں تھا۔
مگر اسے اپنے گھر والوں سے ملنے جا نے کی اجازت نہ تھی۔ اس کا علاقہ’’ مخدوش علاقے ‘‘ کے زمرے میں آتا تھا۔
فو جی آپریشن کے دوران وہ ساری باتیں سمجھ جاتا۔
لوگ اسی کی زبان میں احتجاج کر تے۔
اس کا بھی خون کھولتا۔
مگر وہ چاہتے ہوئے بھی فوج سے استعفیٰ دینے سے قا صر تھا۔
٭٭٭