صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


شکنیں
اور
دوسرے افسانے

انور ظہیر رہبر

ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

اب تک تھی کہاں…..

میں ساحل سمندر کے کنارے بیٹھا سمندر کی گیلی اور دلدلی مٹی سے کھیل رہا تھا – سمندر کی پر شور اور بےتاب لہریں کسی الھڑ دوشیزہ کی مانند اچھل اچھل کر اٹھکھلیاں کرتے ہوئے مجھ سے ٹکرا رہی تھیں اور میں اپنی پر ہیجان کیفیت میں پانی کے لمس کو ایسی ہی کسی دوشیزہ کے ہونٹوں کا لمس محسوس کر رہا تھا— مجھے ہمبرگ سے آئے ہوئے پندرہ دن ہوئے تھے اور یہاں تقریباً آٹھ دن سے میں ہٹ میں مقیم تھا۔ میں جاتا بھی کہاں، پورا کراچی شہر شور شرابے میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے۔ اور مجھے تنہائ و سکون کی تلاش پیراڈائیز پوائینٹ کی اس ہٹ تک کھینچ لائ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ویسے بھی کراچی شہر کی روشنیاں میرے لئے اجنبی نہ تھیں- میں ساحل پر بیٹھا وقت گزار رہا تھا اور شاید اس کے غیر ارادی انتظار میں --- جو میرے ہٹ سے چوتھے ہٹ میں مقیم تھی۔ میں اسے کئ دنوں سے دیکھ رہا تھا – وہ تنہا تھی اور میں بھی۔ میں اور وہ اکثر شام کے وقت ساحل کے اسی کنارے آتے اور وہ مجھ سے کچھ فاصلے پر بیٹھی بھیگتی رہتی۔ سمندر کی لہروں سے کھیلتے ہوئے میں بھی کبھی اس کے قریب پہنچ جاتا ، وہ مسکرا کر دیکھتی اور پھر سمندر کی لہریں مجھے گھسیٹ لے جاتیں----- آج بھی میری آنکھیں اس کی متلاشی تھیں----- سورج اپنی کرنوں کو سمیٹ کر چھپ گیا تھا اور چاند اپنے حسن کے ساتھ جلوہ گر ہو رہا تھا، لیکن میں آج اپنے غمناک آنکھیں لیکر وہاں سے اٹھ گیا---- آج دوسرے دن بھی وہ نہ آئ تو میں یہ سمجھنے پر مجبور ہو گیا کہ رہ شہر واپس جاچکی ہے ----- ہوں------ میں نے ٹھنڈی سانس لیتے سوچا، میں بھی کتنا احمق ہوں، چند شام سمندر پر ملاقات ہو گئ تو میں اس کا منتظر ہو گیا- ------- میں تو نہ جانے کس کے انتظار میں ہمبرگ میں وقت گزارتا رہا اور پھر اسی کی تلاش میں پاکستان چلا آیا، نہ جانے مجھے کس کی تلاش ہے – میں نے خود سے سوال کیا- تیسری شام اچانک وہ مجھے نظر آئ، مگر ساحل سمندر پر نہیں بلکہ اپنے ہٹ کے برآمدے میں ایزی چئیر پر بیٹھی جھول رہی تھی- ڈوبتے ہوئے سورج کی ترچھی کرنیں اس کے چہرے پر پڑتی ہوئ عجیب منظر پیش کر رہی تھیں۔ سورج کی گستاخ کرنوں پر وہ بھنویں سکیڑ کر یوں بیٹھی تھی جیسے کرنوں کی گستاخی اسے گراں گزر رہی ہو۔ اگرچہ چہرے پر زلفیں بکھری ہوئیں تھیں لیکن ناکافی چلمن سے اس کا چہرہ جھانک رہا تھا- میرے قدم غیر ارادی طور پر اس کے ہٹ کے جانب اٹھ گئے، میں جب تک قریب پہنچا وہ سورج کی کرنوں کی وجہ سے اپنا چہرہ کتاب سے ڈھانپ چکی تھی اور اسی لئے شاید اس نے مجھے آتے ہوئے نہیں دیکھا- میں نے ذرا زور سے آداب کہا تو وہ اچانک ہڑ بڑا اٹھی۔ میرے چہرے پر اک نظر ڈالی لیکن خاموش رہی۔ میں نے ہمت سے کام لیتے ہوئے کہا، آپ کے آرام میں مخل ہوا معافی چاہتا ہوں، میں تو بس صرف یہی پوچھنے آیا تھا کہ آپ تین چار دن سے ساحل پر نظر نہیں آ رہی ہیں خیریت تو ہے---- - میں اک ہی سانس میں سب کچھ کہہ گیا- آپ بیٹھیں تو مسٹر------ نہال میں نے لقمہ دیا- جی شکریہ کہہ کر میں سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر خاموشی رہی پھر اس نے اپنے لب کو حرکت دی، ذرا مجھے حرارت ہو گئ تھی، سمندر کے پانی میں بھیگنے سے، اس لئے میں اپنے ہٹ میں آرام کر رہی ہوں۔ اب کیسی طبعیت ہے، میں نے پوچھا— ہاں اب تو بہتر ہوں۔۔ اک مختصر سا جواب آیا۔ اور پھر خاموشی کا اک طویل سلسلہ چل نکلا، شاید ہم دونوں ہی اپنے اپنے خیالات کے محتاط اظہار کے لئے لفظوں کے جوڑ توڑ میں مصروف تھے۔ مجھ سے زیادہ دیر خاموشی برداشت نہ ہو سکی اور میں سے اس سلسلے کو توڑا، معاف کیجے گا محترمہ ------ میں نے بولنے کے لئے لب کھولا ہی تھا کہ اب کی بار اس نے لقمہ دیا۔ جی میرا نام نوشی ہے!! " بہت پیارا نام ہے آپ کا" میرے منہ سے بے اختیار نکلا- جی شکریہ، اس نے اپنے نام کے سراہنے جانے کا قطعی برا نہ منایا- غالباً اس نے جذبے کی اس لطافت کو محسوس کر لیا تھا جو میرے دل میں اس کے قیمتی وجود کیلئے جنم لے چکا تھا- کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ اس ہٹ میں اتنے دن سے تنہا کیوں مقیم ہیں- ابھی میرا سوال مکمل ہوا بھی نہیں تھا کہ نوشی بول پڑی ، اگر یہی سوال میں آپ سے کروں تو۔۔۔۔۔۔ مجھ سے یہ سوال نہ ہی کریں تو۔۔۔۔۔ اچھا جی میں آپ سے کچھ نہ پوچھوں اور آپ مجھ سے سب کچھ دریافت کر لیں۔ اس نے اپنے شوخ انداز میں کہا کہ میں مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔ نہیں ایسی کوئ بات نہیں میں نے زیر لب کہا، میں دراصل لا ابالی اور تنہائ پسند انسان ہوں، یہ سب کچھ دراصل اس وجہ سے ہے کہ میری زندگی میں اک خلاء ہے جسے پر کرنے والا مجھے کوئ نظر نہیں آتا۔۔۔۔ او۔۔۔۔ میرے خاموش ہونے پر وہ بولی، میں دراصل رنگینیوں اور شور سے پیچھا چھڑانے کے لئے یہاں مقیم ہوں، میں امریکہ سے یہاں آئ ہوں اور پرسوں واپس جا رہی ہوں- نوشی نے بات مکمل کی۔ دیکھیں یہ بھی کتنی مشترک بات ہے میں بھی جرمنی سے آیا ہوں اور جلد ہی واپس چلا جاؤں گا۔ پھر تو ہماری منزل بھی جدا جدا ہے، نوشی نے جواباً کہا- بات بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی سو میں نے بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہا---- وہ تو ہماری وقتی منزل ہے، اصل منزل تو ہماری یہ سرزمین ہے، جس سرزمین کی کوکھ سے ہم نے جنم لیا ہے- کیا آپ پاکستان میں گھر بسانا نہیں چاہتیں؟ میں تو اسی مقصد سے آیا تھا لیکن ------ میں نے اک منٹ کے توقف کے بعد پھر سے بولنا شروع کیا، میں ہمبرگ میں 5 سال سے ہوں لیکن ایسی کوئ بات نہیں ہوئ، کیونکہ میں جانتا تھا کہ میری سرزمین جس نے مجھے جنم دیا ہے وہیں میرے قسمت کا فیصلہ بھی ہو گا اور شاید مجھے وہ مل گیا جس کی مجھے تلاش تھی ایسی ہی سکون اور تنہا پسند۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں میں بھی کسی ایسے ہی حادثے کی امید میں پاکستان آئ تھی۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔

اس نے سر جھکا کر آہستہ سے کہا۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول