صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
شفیق فاطمہ شعریٰ
انٹر ویو اور انتخاب
مصحف اقبال توصیفی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
باز گشت
نغمہ زارِ درد کی جانب چلے ہم
ایک بھی ذرہ نہ کچلا جائے اس رفتار سے
نغمہ زارِ درد کی جانب چلے ہم
کنج میں پیڑوں کے سورج جھانکتا تھا
کوہساروں سبزہ زاروں میں جھمکتی روشنی کا جشن تھا
جشن جاری ہی رہے گا تا ابد
جاری رہے
نغمہ زار درد کی جانب چلے ہم
لعل و مرمر سے گندھا قالب
اور اس کے ماوراء اس کے قریب
بجلیوں جیسا مصفی اک وجود
چار سو بکھرے ہوئے خاموش سونے آسماں
ہم کہاں ہیں ہم کہاں۔نغمہ زار درد ہے یہ(ہم کہاں)
اتنا بے آواز جیسے
آتما اپنی شعاعیں
ریشے ریشے سے بدن کے کھینچ لے
آہستگی سے بے گزند
اور دوری بے فغاں ہو جسم کی اور روح کی
کیا سبک رفتار کر دیتی ہے ہم کو بے دلی بے حاصلی
جیسے اک بادل کا ٹکڑا
اپنی چھاگل پھینک دے اونچی فضاء میں
پیاسے ذروں کی طرف
پھر ہلکے پھلکے پنکھ پھیلائے،اڑے
ہلکورے لے
اک مٹتی بنتی رنگ کی تحریر سی
سیراب ذرے اس کو دیکھیں
اور پکار اُٹھیں
وہ کافوری سا شعلہ،عظمتِ نارس!
دوام درد ہے وہ سرخ نرمل روشنی
(لو سانس کے سرچشمے سوکھے ہر شکایت مٹ گئی)
کیا شکایت سانس کے سرچشمہ سے ان کو رہی
جو سانس لیتے ہیں یہاں؟
موج بے ہنگام خندہ
کیسے پھوٹی میرے لب سے
کوئی شکتی ہم میں ہے؟
جو یوں ہمیں پامال کر کے ہنس سکے!
یہ ہمیں آغاز ہی سے ختم کرنے پر تلی تھی
چاہے پھر خود ہی مجاور بن سکے انجام کار
احتجاج اس کا جو اک شکتی ہے مجھ میں
کس قدر پر شور ہے
کس قدر پر زور ہے
نغمہ زارِ درد سے آگے لئے جاتا مجھ کو
ان فضاؤں میں جہاں
بازگشت اک گیت بن جاتی ہے اس کی
جیسے سب ٹیلے چٹانیں اور کہستان
سانس کے چشمے میں شامل ہیں
دھڑکتے ذی نفس اور ہم نوا
٭٭٭