صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
شہر پسِ چراغ
ضیا ء المصطفیٰ تُرکؔ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
مُوقلم جب کبھی غمّاز کیا ہے ہم نے
بیشتر رنگ سے اعراض کیا ہے ہم نے
شہرِ موجود میں پڑتا تھا دَرِ نا موجود
اور دانستہ۔ یہ دَر باز کیا ہے ہم نے
پہلے بے ربط لکیروں کو کیا لفظ اور پھر
بے صدا لفظ کو آواز کیا ہے ہم نے
صرف پیڑوں سے نہیں کی یہ زمستاں کی حدیث
کچھ پرندوں کو بھی ہمراز کیا ہے ہم نے
دید وادید کو نادیدہ کیا، کیا بتلائیں
تجھے کیونکر نظر انداز کیا ہے ہم نے
تیرے ہوتے ہوئے پھر توڑ لیا پھول کوئی
بے سبب شاخ کو ناراض کیا ہے ہم نے
پاؤں رکھتے ہیں کہیں، اور کہیں پڑتا ہے
کس گھڑی میں سفر آغاز کیا ہے ہم نے
٭٭
چراغِ کُشتہ سے قندیل کر رہا ہے مجھے
وہ دستِ غیب جو تبدیل کر رہا ہے مجھے
یہ میرے مِٹتے ہُوئے لفظ جو دَمک اُٹّھے ہیں
ضرور وہ کہیں ترتیل کر رہا ہے مجھے
مَیں جاگتے میں کہیں بَن رہا ہوں اَز سرِنو
وہ اپنے خواب میں تشکیل کر رہا ہے مجھے
حریمِ ناز اور اِک عُمر بعد مَیں لیکن
یہ اِختصار جو تفصیل کر رہا ہے مجھے
بدن پہ تازہ نشاں بَن رہے ہیں جیسے کوئی
مِرے غیاب میں تحویل کر رہا ہے مجھے
بدل رہے ہیں مِرے خدّ و خال تُرکؔ اَبھی
مُسلسل آئینہ تاویل کر رہا ہے مجھے
٭٭٭