صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


شہرِ حقیقت میں کہانی لکھنا

سید اسد علی

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

نجات

    ’’تو قابیل کی طرح اپنے بھائی کو قتل کرے گا اور پھر عمر بھر اس گناہ کی صلیب اٹھائے پھرے گا۔ ‘‘

    سبز چوغے والے ملنگ نے بڑی ترنگ میں کہا۔ اسے دیکھ کر یوں نہیں لگتا تھا جیسے وہ کسی بڑے راز کا انکشاف کر رہا ہو۔ اس کے چہرے پر تو وہی بے پروائی، وہی معصومیت رقصاں تھی جیسے ہمیشہ ہوتی تھی۔

    میں بچپن سے اس ملنگ کو ایسے ہی سڑکوں پر دیکھتا چلا آیا تھا۔ ہمارے شہر میں ایک مزار تھا۔ دن کے زیادہ تر حصے میں وہ وہیں خاموش سا بیٹھا نظر آتا۔ ایسے میں وہ ساری دنیا سے لاتعلق نظر آتا۔ لیکن دن میں کم ازکم دو مرتبہ وہ بازاروں اور گلیوں کا چکر لگاتا۔ جیسے شہر کا افسرِ اعلی دورے پر نکلتا ہو۔ ایسے میں لوگ اس کے قریب آ جاتے۔ کچھ اس کے ہاتھوں کو تھام لیتے ، کئی ضعیف الاعتقاد لوگ تو اس کے پیروں پر بھی گر جاتے مگر باقی سب بس اسے بڑی عقیدت سے گزرتا دیکھتے رہتے۔ ایسے میں لوگ اسے کوئی کھانے کی چیز یا پیسے بھی تھما دیتے۔ اس کے جی میں آتی تو چیز کھا لیتا ورنہ رستے میں نظر آنے والے کسی جانور کے سامنے ڈال دیتا۔ ایسے ہی کبھی تو وہ پیسے اپنی گدڑی میں چھپا لیتا اور کبھی بس کسی راہ چلتے شخص کو تھما دیتا۔ لوگ بہرحال انہیں متبرک سمجھ کر رکھ لیتے۔ ایک دفعہ ایک ٹھیکیدار ایسی ہی بات پر بھڑک اٹھا تھا اور اس نے پیسے ملنگ کے منہ پر دے مارے۔ جس نے سنا اس نے کانوں کو ہاتھ لگائے۔ لوگوں کو لگا کہ اب بہت جلد ٹھیکیدار پر کوئی مصیبت آنے والی ہے۔ کئی دوستوں نے اسے سمجھایا بھی کہ

    ’’میاں جاؤ اور معافی مانگ لو۔ ۔ ۔ ۔ اللہ والوں سے خوامخواہ کی لڑائی مناسب نہیں ‘‘۔ میں نہیں جانتا کہ وہ اندر سے خوفزدہ تھا یا نہیں پر بظاہر وہ اکڑے ہی پھرتا۔

    ’’لو میں کیوں مانگوں معافی؟ اپنی محنت سے حلال کا کماتا ہوں۔ شرمندہ تو اسے ہونا چاہیے جو ہمارے ٹکڑوں پر پلتا ہے۔ ‘‘

    کچھ ایسا ہی سوال بھاردواج برہمن نے گوتم بدھ کے سامنے بھی اٹھایا تھا۔ وہ ایک امیر زمیندار تھا۔ جب ایک دن گوتم بدھ کو بھیک مانگتے دیکھا تو غصے سے بھر گیا اور کہنے لگا

    ’’دیکھو بھکشو! میں زمین جوت کر بیج بوتا ہوں تو اناج پیدا ہوتا ہے۔ سب کچھ محنت طلب ہے۔ اور تم ہو کہ دوسروں پر بوجھ بنے بیٹھے ہو۔ ‘‘

    گوتم بدھ مسکرائے اور بولے ’’میں بھی زمین کاشت کرتا ہوں اور پھر اسی کا اناج کھاتا ہوں ‘‘۔

    ’’وہ کیونکر؟‘‘بھاردواج نے حیران ہو کر پوچھا۔

    ’’انسان کا دل میرا کھیت ہے اور ایمان وہ بیج ہے جو میں کاشت کرتا ہوں۔ نیک اعمال کا پاکیزہ پانی باطنی کھیتوں کو سیراب کرتا ہے۔ جب زمین شاداب و زرخیز ہو جائے تو علم کا ہل چلاتا ہوں۔ انکساری اور فروتنی اس ہل کا پھالہ ہیں۔ میرے من کا کسان محنت اور ریاضت کے بیلوں کی نکیل ہر وقت تھامے رکھتا ہے۔ یہ نکیل اصل میں عمدہ قواعدِ حیات ہیں۔ علم کے ہل کی ہتھی ہر وقت میرے ہاتھ میں رہتی ہے۔ یہ ہل دل کی اراضی سے دنیاوی پیار اور جاہو جلال کی جڑی بوٹیاں اکھاڑ پھینکتا ہے۔ ایمان کے بیج جب بے خودی کے موسم میں پھوٹ نکلتے ہیں تو فصل پکنا شروع ہو جاتی ہے۔ اس قسم کی زراعت کی حتمی پیداوار نجات کا پھل ہے جو تمام دکھوں کو

نابود کر دیتا ہے۔ ‘‘

    ایسے جواب پر اگر بھاردواج کے دل کی دنیا بدل گئی تو ہمیں تعجب نہیں کرنا چاہیے۔ مگر ہر ایک کو اپنے احمقانہ سوالات کے سامنے کوئی بدھا نہیں ملتا۔ ہمارے سامنے تو خاموش، الجھے ہوئے اور شرمناک حد تک معمولی لوگ ہوتے ہیں۔ جو ایسے سوالوں پر اور بھی الجھ جاتے ہیں۔ زمین میں گڑے جاتے ہیں۔ انہیں اپنے آپ سے ، اپنی بھوک سے نفرت ہو جاتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ بھوک جس سے بیتاب ہو کر انہیں پھر سے مانگنا پڑے گا اور پھر سے دھتکارے ہوئے چند سکے ان کی طرف پھینک دیے جائیں گے۔

    ہر جان کا رزق مقرر ہے تو پھر ہم کیسے کہ سکتے ہیں کہ کوئی کسی کا حصہ کھاتا ہے ؟بس ہم کوتاہ نظر ہر محنت کرنے والے کا ہل دیکھ نہیں پاتے۔

    ’’اور ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے بیکار نہ بنائے۔ یہ تو کافروں کا گمان ہے۔ ۔ ۔  تو کافروں کی خرابی ہے آگ سے ‘‘

    کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اگر ہمیں یہ لوگ بے مقصد اور بے حیثیت دکھتے ہیں۔ ۔ ۔ ہم میں سے ہر ایک اپنا پسینہ گراتا ہے۔ پر ضروری تو نہیں کہ اسے دوسروں کو دکھایا بھی جا سکے۔ اور پھر یہ سوال کوئی جدی پشتی نوابوں سے کیوں نہیں کرتا جن کی عمر محض عیاشی کرنے اور اس کے نئے طریقے سوچنے میں گزر جاتی ہے۔ ۔ ۔ پر سچ تو یہ ہے کہ یہ سوال ان سے بھی کیا جانا نہیں بنتا۔ وہ سب بھی تو اپنے آبا کے لگائے ہوئے درختوں کا پھل کھاتے ہیں۔

     And God said to him, I am God, the Ruler of all: be fertile, and have increase; a nation, truly a group of nations, will come from you, and kings will be your offspring.              

                                                                                                             (Genesis - 35:11)

    تو انصاف ہر جگہ ہے بس ہم اسے پہچان نہیں پاتے اور ناراض ہو جاتے ہیں۔ یہ بھیک مانگنے والے مجبور افراد، یہ ٹپ کے انتظار میں کھڑے ویٹر، یہ تارک الدنیا فقیر۔ ۔ ۔ یہ سب لوگ ہمیں لٹیرے نظر آتے ہیں کہ ہمارے رزق پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ پر رزق تو مقرر ہو چکا۔ نہ ایک دانہ کم نہ ایک دانہ زیادہ۔ اور یہاں تک فرمایا گیا ہے کہ جو شخص کھیتی لگاتا ہے تو ہر اس دانے کے عوض جو کوئی پرندہ چگ لیتا ہے ، یا کوئی راہگیر مسل دیتا ہے اسے جزا ملتی ہے۔ تو بس ہم نہیں جانتے اور ناراض ہو جاتے ہیں۔

    اور وہ ٹھیکیدار بھی ناراض ہو گیا تھا۔ وہ ناراض تھا کیونکہ فقیر کے پھینکے چند سکوں نے اس کی اوقات یاد دلا دی تھی۔ انہی چند سکوں کے لئے تو وہ سارا دن محنت کرتا تھا اور جب انہیں یوں ہاتھ میں پا کر اس نے خود کو حقیر محسوس کیا تو وہ بوکھلا گیا اور اسی بوکھلاہٹ میں وہ سب کچھ ہو گیا۔

    اب آہستہ آہستہ ٹھیکیدار کا کام کم ہونے لگا۔ پتہ نہیں اصل وجہ کیا تھی پر لوگ اسے ملنگ کی کرامت ہی سمجھتے تھے۔ منطقی قسم کے لوگ اس کی وجہ یہ بتاتے تھے کہ ایک کاروباری شخص کے لئے اس کی ساکھ ہی سب سے اہم ہوتی ہے۔ اور یہاں لوگوں کو خدشہ لگا تھا کہ اسے یقیناً کوئی بہت بڑا نقصان پہنچنے والا ہے۔ تو کون لین دین کرتا اس سے ؟نتیجہ وہی۔ ۔ ۔ اچھی خاصی ٹھیکیداری سے چھوٹے موٹے کاموں کی طرف آنا پڑا۔ کام جن کا نہ اسے کوئی تجربہ تھا اور نہ ہی حوصلہ۔ وہ اب پریشان رہنے لگا تھا۔ اسی حالت میں اسے دل کا دورہ پڑا اور وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔

    اس واقعے نے ملنگ کے سحر کو مکمل کر دیا۔ وہ جہاں سے گذرتا اس کے لئے راستہ چھوڑ دیا جاتا۔ وہ بہت کم کسی سے کچھ کہتا مگر مشہور تھا کہ اس کا کہا کبھی غلط نہ ہوتا تھا۔

    یہ گرمیوں کی ایک دوپہر تھی۔ میں اس دن کالج سے واپس آ رہا تھا۔ جسم پسینے سے شرابور ہو رہا تھا۔ میں تیز تیز پیڈل مار رہا تھا کہ جلدی گھر پہنچ سکوں۔ ایسے میں وہی ملنگ سامنے سے آتا دکھائی دیا۔ اس نے دور ہی سے مجھے رکنے کا اشارہ کیا۔ میں اس کے قریب جا کر سائیکل سے اتر گیا۔ اس نے اپنی سرخ سرخ آنکھوں سے مجھے دیکھا اور بڑی لاپروائی سے وہ بھیانک الفاظ میرے کانوں میں انڈیل دیے۔

    ’’تو قابیل کی طرح اپنے بھائی کو قتل کرے گا اور پھر عمر بھر اس گناہ کی صلیب اٹھائے پھرے گا۔ ‘‘

    مجھے لگا جیسے ساری دنیا ایکدم رک گئی ہو۔ اور پھر اس ٹھہری ہوئی دنیا میں وہ ملنگ چلنے لگا اور آہستہ آہستہ مجھ سے دور ہونے لگا۔ وہ ایسا بے نیاز تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو اور میں جس کی زندگی پر ہر سمت سے اندھیرے ٹوٹ پڑے تھے۔ میں تقریباً بھاگتا ہوا اس کے پیچھے چلا۔

    ’’بابا میں کیسے بچ سکتا ہوں۔ ۔ ۔ راستہ بھی تو بتاؤ نہ۔ ‘‘

    اس نے استہزائیہ نظروں سے مجھے دیکھا اور پکارا

    ’’جف القلم بما انت لاق ‘‘

    ’’کیا؟‘‘میں کچھ  نہیں سمجھا تھا۔ مگر وہ بار بار یہی جملہ دہراتا دور چلا گیا۔ میں بہت گھبرایا۔ عربی سے میری واقفیت بڑی واجبی سی تھی سو مطلب تو نہ سمجھ سکا پر عبارت جیسے ذہن پر نقش ہو کر رہ گئی۔ میں جلدی جلدی اسے ذیرِ لب دہرا رہا تھا کہ بھول نہ جاؤں۔ پر شاید مجھے ایسا کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ کچھ چیزوں کا یاد کرا دینا اللہ کے ذمے ہوتا ہے۔ ہم جتنا چاہیں انہیں بھولنے کی کوشش کریں بس بھول نہیں پاتے۔ کسی بھیانک خواب کی طرح آپ جس کے بعد سو نہ سکو۔ اب آپ لاکھ اپنے ذہن کو بھٹکانے کی کوشش کرو، ہزار خوبصورت چہرے آنکھوں کے سامنے لے آؤ، گھنٹوں MTVپر گانے سنتے رہو مگر جیسے ہی دوبارہ سونے کی کوشش کرو گے وہ بھیانک خواب پھر سے سامنے آ کھڑا ہو گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں آپ ایسی چیزوں سے بھاگ نہیں سکتے۔ لیکن ہم بھاگنا چاہتے ہی کیوں ہیں؟ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ ہمیں ایک رات جاگنا ہو، اپنے صحن میں بے چینی سے ٹہلنا ہو اور ایسے میں ہم ہمسائے کے گھر سے نکلتا سایہ دیکھ لیں، دور دراز ستاروں کے اسرار جان لیں یا پھر محض صبح دیر سے اٹھنے کی وجہ سے وہ بس نہ پکڑ پائیں جس کا ایکسیڈنٹ ہو جانا تھا۔ ۔ ۔ یہ دنیا اتنی پیچیدہ ہے کہ ہم اسے نہیں سمجھ سکتے۔ ہم جان نہیں سکتے کہ کسی چیز کا ردِ عمل کیا ہو گا مگر پھر بھی پریشان ہو جاتے ہیں۔ کیا ایک بیکار سے الزام میں چار سال سائیبیریاکی سختیاں جھیلے بنا دہستوفسکی دنیا کا عظیم ترین ناول نگار بن سکتا تھا؟اگر van Gogh کو بقول اس کے ’’چرچ سے کتے کی طرح دھتکار نہ دیا جاتا‘‘ تو کیا وہ اتنا بڑا فنکار بن سکتا تھا؟ہم ایسی باتوں کو نہیں سمجھ سکتے۔ ہم تو بڑے عجیب لوگ ہیں۔ ۔ ۔ اسے محفوظ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جسے کوئی محفوظ نہیں کر سکتا۔ اسے یاد کرنے میں عمریں ضائع کر دیتے ہیں جسے بھولنا ممکن ہی نہیں۔

    وہاں سے نیاز صاحب کا گھر زیادہ دور نہیں تھا۔ نیاز صاحب مجھے سکول میں عربی پڑھایا کرتے تھے۔ میں سیدھا انکے گھر کی طرف گیا اور دستک دی۔ دروازہ فوراً کھل گیا۔ نیاز صاحب غالباً  ابھی سکول سے آئے تھے تبھی تو ان کی پیشانی پر پسینے کے قطرے جگمگا رہے تھے۔

    ’’ہاں برخوردار کیسے آنا ہوا؟‘‘

    ’’سر ایک چھوٹی سی مدد چاہیے۔ ‘‘بولتے ہوئے میری آواز بیٹھ رہی تھی۔

    ’’ہاں ہاں۔ ۔ ۔ بولو۔ ‘‘

    ’’سر اس کا کیا مطلب ہے۔ ۔ ۔ جف القلم بما انت لاق ‘‘‘

    ’’بھئی یہ بخاری شریف کی حدیث ہے کہ قلم خشک ہو گیا ہے ساتھ اس چیز کے جس کو تو ملنے والا ہے۔ یہ مسئلہ تقدیر سے متعلق ہے۔ مطلب یہ کہ اللہ پاک کے پاس ہر وقوع پذیر ہونے والی شئے کا مکمل احوال موجود ہے۔ جیسے مسلم میں بھی اس مضمون کی ایک حدیث ہے کہ عمل اسی کے مطابق ہیں جسے قلم لکھ کر خشک ہو گئے۔ تقدیرِ الہی جاری ہو چکی۔ ‘‘اپنی طبیعت کے مطابق نیاز صاحب نے بڑی تفصیل سے وضاحت کی۔

    میری پیشانی پر پریشانی کی لکیریں دیکھ کر انہوں نے پوچھا

    ’’بیٹے بات کیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ تم بہت گھبرائے ہوئے نظر آ رہے ہو؟‘‘

    ’’جی۔ ۔ ۔ کوئی خاص بات نہیں۔ ۔ ۔ بہت شکریہ۔ ۔ ۔ خدا حافظ‘‘۔

    میں تیزی سے چل دیا۔ جانتا تھا کہ وہ سوچ رہے ہوں گے کہ میں ایسا بد تہذیب کب سے ہو گیا ہوں۔ پر اس وقت مجھے کسی چیز کی پروا نہیں تھی۔ میرے دلو دماغ میں آندھیاں سی چل رہی تھیں۔ گھر جانے کی بجائے میں ایک قریبی مسجد میں چلا گیا۔ ظہر کی نماز ہو چکی تھی اس لئے کوئی نمازی نظر نہیں آ رہا تھا۔ میں خاموشی سے ایک کونے میں جا بیٹھا۔

    میں بہت پریشان تھا۔ ۔ ۔ اس لئے کہ مجھے اپنے بھائی سے بہت محبت تھی، اس لئے کہ قتل جیسے بھیانک اقدام کا تصور بھی مجھے لرزائے دیتا تھا اور شاید اس لئے بھی کہ مجھ جیسا کمزور قوتِ ارادی کا شخص بھلا کیسے گذر پاتا ایسے امتحان سے ؟ تو پھر کیا کروں؟ بہت دیر تک سوچتا رہا۔ ایسے میں مجھے اونگھ آ گئی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک سفید ریش بزرگ کہ نور جن کے چہرے پر بکھرا تھا میرے سامنے کھڑے ہیں۔ ان کے چہرے پر شفقت دیکھ کر میں ان کا دامن پکڑ لیتا ہوں اور رونے لگ جاتا ہوں۔ اتنا روتا ہوں کہ میری ہچکیاں بندھ جاتی ہیں۔ وہ بڑی محبت سے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہیں اور پھر جیسے انہوں نے میرے دل کی بات جان لی۔ انہوں نے مٹھاس سے بھرپور مہربان آواز میں کہا۔

    ’’اللہ کی زمین بہت بڑی ہے۔ نکل جاؤ اور اس کا فضل تلاش کرو اور بہت زیادہ استغفار پڑھا کرو۔ ‘‘

    ان الفاظ کا کانوں میں پڑنا تھا کہ میری آنکھ کھل گئی۔ دل پر اب اطمینان کی حکمرانی تھی مگر کونے کھدروں میں کہیں اب بھی بڑی مشتاق بے چینی دبکی تھی۔ جیسے بلی کبوتر کے انتظار میں بیٹھی ہو۔ بہت خاموش کہ جیسے وہ کوئی بے جان شئے ہو اور بس ایک ساعت کے نوٹس پر جھپٹنے کے لئے تیار بھی۔ ان کی بات گو دل کو لگی تھی پر میں جاتا کہاں؟ ایک طرف اتنے محبت کرنے والوں سے جدا ہونے کا دکھ تھا پر اس سے بڑھ کر پریشانی یہ تھی کہ مجھ سے معمولی تعلیم یافتہ لڑکے کو جسے اس شہر سے باہر کوئی جانتا بھی نہ تھا بھلا کہاں ٹھکانہ مل پائے گا۔

نا مکمل

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول