صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
شہر دو قصہ
انتخاب از ’آبِ گم‘
مشتاق احمد یوسفی
لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
کبوتر خانے کا چربہ
یونانی کورس (Greek Chorus) بہت فلسفہ چھانٹ چکا۔ اب اس کہانی کو خود اس کے ہیرو بشارت کی زبانی سنیے کہ اس کا مزہ ہی کچھ اور ہے :
یہ افسانہ اگرچہ سرسری ہے
ولے اس وقت کی لذت بھری ہے
صاحب، میں تو اپنا مکان دیکھ کے بھونچکا رہ گیا کہ واللہ، ہم اس میں رہتے
تھے، اور اس سے زیادہ حیرانی اس پر کہ بہت خوش رہتے تھے، مڈل کلاس غریبی
کی سب سے قابل رحم اور لا علاج قسم وہ ہے جس میں آدمی کے پاس کچھ نہ ہو
لیکن اسے کسی چیز کی کمی محسوس نہ ہو۔ ماشاء اللہ سے ہم تلے اوپر کے نو
بھائی تھے اور چار بہنیں۔ اور تلے اوپر تو میں نے محاورے کی مجبوری کے سبب
کہہ دیا، ورنہ کھیل کود، کھانے اور لیٹنے بیٹھنے کے وقت اوپر تلے کہنا
زیادہ صحیح ہو گا۔ سب کے نام ت پر ختم ہوتے تھے۔ عشرت، عترت، راحت، فرحت،
عصمت، عفت وغیرہ۔ مکان خود والد نے مجھ سے بڑے بھائی کی سلیٹ پر ڈیزائن
کیا تھا۔ سو سوا سو کبوتر بھی پال رکھے تھے۔ ہر ایک کی نسل اور ذات جدا۔
کسی کبوتر کو دوسری ذات کی کبوتری سے مختلط نہیں ہونے دیتے تھے۔ لکڑی کی
دکان تھی۔ ہر کبوتر کا خانہ اس کی جسامت، عاداتِ قبیحہ اور دُم کی لمبائی
کو ملحوظ رکھتے ہوئے خود بناتے تھے۔ صاحب، اب جو جا کے دیکھا تو مکان کے
آرکی ٹیکچر میں سراسر ان کے اس شوق فضول کا عکس اور عمل دخل نظر آیا۔ بلکہ
یوں کہنا چاہیے کہ سارا مکان دراصل ان کے کبوتر خانے کا بھونڈا سا چربہ
تھا۔
والد بہت دور اندیش اور پریکٹیکل تھے۔ اس اندیشے سے کہ ان کی آنکھ بند
ہوتے ہی اولاد جائداد کے تقاسمہ پر جھگڑا کرئے گی، وہ ہر بیٹے کے پیدا
ہوتے ہی اس کا علیحدہ کمرا بنوا دیتے تھے۔ کمروں کی تعمیر میں خرابی کی
ایک سے زیادہ صورتیں مضمر تھیں یعنی یہ حفظِ مراتب بھی تھا کہ ہر چھوٹے
بھائی کا کمرہ اپنے بڑے بھائی کے کمرے سے لمبائی چوڑائی میں ایک ایک گز
چھوٹا ہو۔ مجھ تک پہنچتے پہنچتے کمرے کے حدود اربعہ تقریباً اکڑوں بیٹھ
گئے تھے۔ پورے سات سال لگے مکان مکمل ہونے میں۔ اس عرصے میں تین بھائی اور
پیدا ہو گئے۔ آٹھویں بھائی کے کمرے کی دیواریں اٹھائی گئیں تو کوئی نہیں
کہہ سکتا تھا کہ قدمچوں کی نیو رکھی جا رہی ہے یا کمرے کی۔ ہر
نومولود کی آمد پر سلیٹ پر سابقہ نقشے میں ضروری ترمیم اور ایک کمرے کا
اضافہ کرتے۔ رفتہ رفتہ سارا آنگن ختم ہو گیا۔ وہاں ہمیں ورثے میں ملنے
والی کوٹھریاں بن گئیں۔
٭٭٭