صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
شیشہ گھر
جمشید مسرور
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
ایک شب اپنے دریچے میں کھڑے تھے۔ جاناں
ایک شب اپنے دریچے میں کھڑے تھے۔ جاناں
اور باہر کے اندھیرے سے کوئی دیکھے تو
اپنے چہرے تھے جو کھڑکی میں جڑے تھے جاناں
مجھ کو تو معلوم ہے خوں اپنا بس اک دائرہ ہے
درد کا کھیل فقط لمحہ موجود کا ہے
پچھلی تاریخ سے آغاز نہیں ہو سکتا
بھول جاؤں تو کوئی انداز نہیں ہو سکتا
بھول جاؤں تو کوئی یاد نئی آئے گی
یہ کوئی حل کوئی انداز نہیں ہو سکتا
اب بھی آئی ہے بہار آ کے چلی جائے گی
مجھ کو معلوم ہے خوں اپنا بس اک دائرہ ہے
اتفاقاً کبھی میں پیدا ہوا تھا جیسے
جب مری موت بھی آئے گی یونہی آئے گی
شیشہ گھر رات میں چمکتا ہے
شیشہ گھر رات میں چمکتا ہے
شہر بھر میں یہی ہے اک ہوٹل
اپنے کمرے کی ایک کھڑکی ہے
کوئی پرندہ ہٹا کے تکتا ہے
ہاں اترنا ہے اس جگہ مجھ کو
دیکھتے ہو اسے جو دیکھ سکو
میری آنکھوں سے غم جھلکتا ہے
سن رہے ہو اسے جو سن پاؤ
میرے ہنسنے کی ہے صدا ایسی
جیسے آنسو کوئی چھلکتا ہے
تم چلے جانا اپنی راہوں پر
میں مجسم ہوں درد کی تصویر
رہگزر، رات اور گھڑی میری
رک گئی ہے کہاں پہ یہ آ کر
ایک نا ممکن العمل ساعت
مجھ کو اس میں دکھائی دیتی ہے
رات ہر سو سنائی دیتی ہے
اور اٹیچی مرا۔ مرا ساتھی
ساتھ جس کو اٹھائے پھرتا ہوں
تھک گیا ہوں کہیں پہ کھو جاؤں
لگ کے پٹڑی کے ساتھ سو جاؤں
تیری سوچیں مجھے سنائیں گی
تیرے دل کے پلٹ کے آنے کی
پٹڑیوں سے صدائیں آئیں گی
٭٭٭٭٭٭٭٭