صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


مرزا شوق، حیات و کارنامے
 اور
 مثنوی زہر عشق کا جائزہ

مجاور حسین رضوی

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

نامۂ عشق

پڑھ کے میں نے لکھا یہ ان کو جواب ۔ ۔ ۔ کیا لکھوں تم کو اپنا حال خراب
پہنچا جس وقت سے ترا مکتوب ۔ ۔ ۔ زندگی کا بندھا ہے کچھ اسلوب
دل پہ آفت عجیب آئی ہے ۔ ۔ ۔ جان بچ جائے تو خدائی ہے
اب جو پہنچی یہ آپ کی تحریر ۔ ۔ ۔ ہے یہ لازم کہ وہ کرو تدبیر
سختیاں ہجر کی بدل جائیں ۔ ۔ ۔ دل کی سب حسرتیں نکل جائلیں
دے کے خط میں نے یہ کہا اس سے ۔ ۔ ۔ ’’جلد اس کا جواب لا اس سے‘
پہنچا جب ان تلک مرا مکتوب ۔ ۔ ۔ ہنس کے بولی کہ ’’واہ وا کیا خوب

جواب نامۂ عشق


پھر کیا یہ جواب میں تحریر ۔ ۔ ۔ کچھ قضا تو نہیں ہے دامن گیر
ایسی باتیں تھیں کب یہاں منظور ۔ ۔ ۔ تھا فقط تیرا امتحاں منظور
یہ تو لکھے تھے سب ہنسی کے کلام۔ ۔ ۔ ورنہ ان باتوں سے مجھے کیا کام
تم پہ میں مرتی! کیا قیامت تھی۔ ۔ ۔ کیا مرے دشمنوں کی شامت تھی
کالا دانہ ذرا اتر والو۔ ۔ ۔ رائی لون اس سمجھ پہ کر ڈالو
تجھ پر مرتے بھی گر مرے بدخواہ۔ ۔ ۔ یوں نے لکھتی کبھی معاذ اللہ
جان پاپوش سے نکل جاتی۔ ۔ ۔ پر طبیعت نہ یوں بدل جاتی
جی میں ٹھانی ہے کیا بتاؤ تو۔ ۔ ۔ خانگی، کسبی کوئی سمجھے ہو
دیکھ تحریر فیل لائے آپ۔ ۔ ۔ خوب جلدی مزے میں آئے آپ
طالب وصل جو ہوئے ہم سے۔ ۔ ۔ ہیگا سادہ مزاج جم جم سے
رہی کچھ روز تو یہی تحریر۔ ۔ ۔ پھر موافق ہوئی مری تقدیر
ہوئے اس گل سے وصل کے اقرار۔ ۔ ۔ اٹھ گئلے درمیاں سے سب تکرار
جو کہا تھا ادا کیا اس نے۔ ۔ ۔ وعدہ اک دن وفا کیا اس نے
رات بھر میرے گھر میں رہ کے گئی۔ ۔ ۔ صبح کے وقت پھر یہ کہہ کے گئی
لو مری جان! جاتی ہوں اب تو۔ ۔ ۔ یاد رکھیے گا میری صحبت کو
پیار کرتی تھی جو وہ غیرت حور۔ ۔ ۔ رکھا ملنے کا اس نے یہ دستور
پنج شنبے کو جاتی تھی درگاہ۔ ۔ ۔ واں سے آتی تھی میرے گھر وہ ماہ
عیش ہونے لگے مرے ان کے۔ ۔ ۔ غیر جلنے لگے یہ سن سن کے
اتفاق ایسا پھر ہوا ناگاہ۔ ۔ ۔ دو مہینے تک نہ آئی وہ ماہ
قطع سب ہوگئے پیام و سلام۔ ۔ ۔ نہ رہی شکل راحت و آرام
دل کو تشویش تھی یہ حد سے زیاد۔ ۔ ۔ دفعتہ پڑگئی یہ کیا افتاد
نہیں معلوم کیا پڑی افتاد۔ ۔ ۔ جو فراموش کی ہماری یاد
دو مہینے کے بعد معشوقہ کا پھر آنا
آئی نو چندی اتنے میں ناگاہ۔ ۔ ۔ اس بہانے سے آئی وہ درگاہ
بسکہ مرتی تھی نام پر میرے۔ ۔ ۔ چھپ کے آئی وہاں سے گھر میرے
تھی جو فرصت نہ اشک باری سے۔ ۔ ۔ اتری روتی ہوئی سواری سے
پھر لپٹ کر مرے گلے اک بار۔ ۔ ۔ حال کرنے لگی وہ یوں اظہار
اقربا میرے ہوگئے آگاہ۔ ۔ ۔ تم سے ملنے کی اب نہیں کوئی راہ
مشورے ہورہے ہیں آپس میں ۔ ۔ ۔ بھیجتے ہیں مجھے بنارس میں
جائے عبرت سرائے فانی ہے۔ ۔ ۔ مورد مرگ نوجوانی ہے
دنیا کی بے ثباتی اور آخری وصیت
اونچے اونچے مکان تھے جن کے۔ ۔ ۔ آج وہ تنگ گور میں ہیں پڑے
کل جہاں پر شگوفہ و گل تھے۔ ۔ ۔ آج دیکھا تو خار بالکل تھے
جس چم میں تھا بلبلوں کا ہجوم۔ ۔ ۔ آج اس جاہے آشیانہ بوم
بات کل کی ہے نوجواں تھے جو۔ ۔ ۔ صاحب نوبت و نشاں تھے جو
آج خود ہیں ، نہ ہے مکاں باقی۔ ۔ ۔ نام کو بھی نہیں نشاں باقی
غیرت حور مہ جبیں نہ رہے۔ ۔ ۔ ہیں مکاں گر تو وہ مکیں نہ رہے
جو کہ تھے بادشاہ ہفت اقلیم۔ ۔ ۔ ہوئے جا جا کے زیر خاک مقیم
کوئی لیتا بھی اب نہیں ہے نام۔ ۔ ۔ کون سی گور میں گیا بہرام
اب نہ رسم، نہ سام باقی ہے۔ ۔ ۔ اک فقط نام ہی نام باقی ہے
تھے جو خود سر جہان میں مشہور۔ ۔ ۔ خاک میں مل گیا سب ان کا غرور
عطر مٹی کا جو نہ ملتے تھے۔ ۔ ۔ نہ کبھی دھوپ میں نکلتے تھے
رشک یوسف جو تھے جہاں میں حسیں ۔ ۔ ۔ کھا گئے ان کو آسمان و زمیں
ہر گھڑی منقلب زمانہ ہے۔ ۔ ۔ یہی دنیا کا کارخانہ ہے
ہے نہ شیریں نہ کوہ کن کا پتا۔ ۔ ۔ نہ کسی جاہے نل دامن کا پتا
بوئے الفت تمام پھیلی ہے۔ ۔ ۔ باقی اب قیس ہے نہ لیلیٰ ہے
صبح کو طائران خوش الحان۔ ۔ ۔ پڑھتے ہیں کل من علیہا فان
موت سے کس کو رستگاری ہے۔ ۔ ۔ آج وہ کل ہماری باری ہے
ہم بھی گرجان دے دیں کھا کر سم۔ ۔ ۔ تم نہ رونا ہمارے سر کی قسم
دل کو ہم جولیوں میں بہلانا۔ ۔ ۔ یا مرے قبر پر چلے آنا
جاکے رہنا نہ اس مکان سے دور۔ ۔ ۔ ہم جو مرجائیں تیری جان سے دور
روح بھٹکے گی گر نہ پائے گی۔ ۔ ۔ ڈھونڈھنے کس طرف کو جائے گی
میرے مرنے کی جب خبر پانا۔ ۔ ۔ یوں نہ دوڑے ہوئے چلے آنا
جمع ہولیں سب اقربا جس دم۔ ۔ ۔ رکھنا اس وقت تم وہاں پہ قدم
کہے دیتی ہوں جی نہ کھونا تم۔ ۔ ۔ ساتھ تابوت کے نہ رونا تم
ہوگئے، تم اگرچہ سودائی۔ ۔ ۔ دور پہونچے گی میری رسوائی
لاکھ تم کچھ کہو نہ مانیں گے۔ ۔ ۔ لوگ عاشق ہمارا جانیں گے
طعنہ زون ہوں گے سب غریب و امیر۔ ۔ ۔ قبر پر بیٹھنا نہ ہو کے فقیر
سامنا ہو ہزار آفت کا۔ ۔ ۔ پاس رکھنا ہماری عزت کا
جب جنازہ مرا عزیز اٹھائیں ۔ ۔ ۔ آپ پلٹیں وہاں نہ اشک بہائیں
میری منت پہ دھیان رکھئے گا۔ ۔ ۔ بند اپنی زبان رکھئے گا
تذکرہ کچھ نہ کیجیے گا مرا۔ ۔ ۔ نام منہ سے نہ لیجیے گا میرا
اشک آنکھوں سے مت بہائیے گا۔ ۔ ۔ ساتھ غیروں کی طرح جائیے گا
آپ کاندھا نہ دیجئے گا مجھے۔ ۔ ۔ سب میں رسوا نہ کیجئے گا مجھے
رنگ دل کے بدل نہ جائیں کہیں ۔ ۔ ۔ منہ سے نالے نکل نہ جائیں کہیں
ساتھ چلنا نہ سر کے بال کھلے۔ ۔ ۔ تا کسی شخص پر نہ حال کھلے
ہوتے آفت کے ہیں یہ پرکالے۔ ۔ ۔ تاڑ جاتے ہیں تاڑنے والے
ہو بیاں گر کسی جگہ مرا حال۔ ۔ ۔ تم نہ کرنا کچھ اس طرف کو خیال
رنج فرقت مرا اٹھا لینا۔ ۔ ۔ جی کسی اور جا لگا لینا

***

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول