صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
شریکِ غم سمندر ہے
صدف مرزا
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
استعارے/تنہائی
رکا تو نہیں ، مگر اس نے
میری آنکھوں پہ انگلیاں رکھ دیں
میرے ہاتھوں پہ آج ظالم نے
انتظار اور دعا کی بن مانگے
کیسی خوش رنگ یہ تتلیاں رکھ دیں
اپنی چاہت عیاں نہ کی لیکن
صبح دم پھر میرے دریچے میں
بند گلابوں کی کلیاں رکھ دیں
نام لاتا نہیں ہے ہونٹوں پر
لیکن کمرے میں جا بجا اس نے
بھر کے نازک سے آبگینوں میں
رنگ برنگی یہ سیپیاں رکھ دیں
تنہائی
یہ وہ اک آتشِ نادیدہ ہے جس کے شعلے
جسم سے بڑھ کے کہیں روح جلا دیتے ہیں
ذہن کی دھرتی کا بھونچال کہ جس کے جھٹکے
دل کی دھڑکن کا بم و تال ہلا دیتے ہیں
صرف وہ جانتا ہے جس کے بدن نے سینکی
بزم کے بیچ بھی یخ بستہ سی تنہائی کبھی
وہی کر سکتا ہے محسوس کہ جس نے ناپی
دل کی لہروں میں چھپی درد کی گہرائی کبھی
کرب دیکھا ہے کبھی ایسی ملاقاتوں کا
جب سرِ راہ کبھی نظر ملے ، ہاتھ ملے
بات کر کے بھی رہیں حرف ہمارے گونگے
چل کے ہمراہ رفاقت نہ کبھی ساتھ ملے
ایسے چہروں کے سمندر میں رہے دل تنہا
جیسے تاروں کی بھری بستی میں مہتاب کوئی
جیسے چپ چاپ سا مینارہ کوئی لہروں میں
سنگ و خارا میں رُلے گوہرِ کمیاب کوئی
ایسی تنہائیوں میں رہ رہ کے خیال آتا ہے
مضطرب دل ہے یہ کیوں انجمن آرائی میں
ہونٹوں پہ ایک تبسم ہے دکھاوے کا مگر
درد کی لہر سی اک اٹھتی ہے گہرائی میں
ہم نے تنہائی کے ہونٹوں پہ قفل ڈالے ہیں
یہ صدا دیتی نہیں مونس و غم خوار کو اب
ہم نے شکوے کے بھی قدموں کو ہے زنجیر کیا
سہہ نہ پائیں گے مایوسی کے اس آزار کو اب
آؤ ! اقرار کریں ، ذہنوں کے سناٹے پر
گونجتی پھرتی ہے تنہائی صداؤں کی طرح
آؤ تنہائی کی بانہوں میں سمٹ کر بکھریں
سر پٹختی، کسی گنبد میں ہواؤں کی طرح
آؤ تسلیم کریں تنہا ہی آیا ہے بشر
آؤ ! اب مان ہی لیں تنہا ہی جاتا ہے سدا
خود کو یوں دھوکے میں رکھ کر ہے بھلا کیا حاصل
خلوت و بزم میں تنہائی کا پہرہ ہے سدا
٭٭٭