صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


شرارتی
اور
دوسرے افسانے

خورشید عالم آرا

ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پچھتاوا

اانڈیا سے اُسکی بیٹی کا فون تھا ،وہ رو رہی تھی ، اُس کی ہچکیاں اسے بولنے نہیں دے رہی تھیں۔وہ حیران تھا اور پچھتا بھی رہا تھا۔اُسکی بیٹی کو طلاق ہو گئی تھی۔وہ رو رہی تھی وہ کہہ رہی تھی ’’آپ نے ایسے وعدے کیوں کئے تھے بابا جو آپ پورے نہیں کر سکتے تھے۔’’آپ نے کیوں سنہرے سپنے دکھائے تھے ،جن کی تعبیر آپ کے اختیار میں نہیں تھی ،آپ کیوں جھوٹ بولتے رہے با با ‘‘  وہ بلک بلک کر رو رہی تھی۔

’’بابا انہوں نے بچے بھی رکھ لئے ‘‘ اور اُس کی ہچکیاں بے قابو ہو گئیں۔وہ خاموش فون سے کان لگائے آنسو بہا رہا تھا۔کہ اس حادثے پر وہ خود کو کبھی معاف نہیں کر سکتا تھا۔

اُسکی بیٹی انڈیا میں تھی۔اور وہ خود اپنی دوسری بیوی اور بچوں کے ساتھ امریکہ میں یہ اُس کی پہلی بیوی سے بیٹی تھی ،جس کی شادی اس نے انڈیا ہی میں کر دی تھی۔اُس نے شادی کے وقت اپنے داماد سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اُسے امریکہ بلا لے گا۔۔اس شادی کو اب تین سال ہو گئے تھے اس کی بیٹی مان بھی بن گئی تھی ،اب اس دباؤ تھا کہ وہ داماد کو امریکہ بلا لے۔جب اس کی بیٹی روتی تو وہ اسے تسلی دیتا کہ کہ وہ کوشش کر رہا ہے اور جلد اُن لوگوں کو بلا لے گا۔اس کے کہنے سے معاملہ ٹھنڈا پڑ جاتا۔لیکن کچھ دنوں بعد پھر بیٹی روتی کہ آپ انہیں بلا لیں ،آپ نے وعدہ کیا تھا وہ پھر حسبِ عادت اُسے تسلی دیتا کہ وہ کوشش کر رہا ہے۔اب حالات مشکل ہو رہے تھے۔اور وہ اپنے داماد کو بلانے میں کچھ دلچسپی بھی نہیں لے رہا تھا۔وہ سوچ رہا تھا کہ بیٹی کے آنے سے اس کی ذمے داری بڑھ جائے گی اور اس کی زندگی میں مشکلات بڑھ جائیں گی۔گو وہ خود اچھا کما بھی رہا تھا اور اچھی طرح رہ بھی رہا تھا ،مگر اپنی بیوی اور بچوں پر بھروسہ نہیں کر رہا تھا۔اور خود پر مزید بوجھ ڈالنے کو تیار نہ تھا۔اور شاید اپنی بیوی سے بھی ڈرتا تھا کہ وہ اپنی سوتیلی بیٹی داماد کے ساتھ کیا رویہ رکھے گی۔

اس دفعہ اُسکی بیٹی نے جب اپنے دیور کی شادی کے بارے میں بتایا اور یہ بھی کہا کہ وہ اپنے سسر کے پاس آسٹریلیا چلا جائے گا تو اُسے تھوڑا سا خوف محسوس ہوا تھا کہ کہیں اس کا داماد اپنے بھائی کے جانے کی وجہ سے دوبارہ امریکہ آنے پر زور نہ دینے لگے۔اور وہ ہی ہوا۔اب اس کی بیٹی کے رونے اور اس خواہش کے اسرار میں اضافہ ہو گیا تھا ،کہ اس کا شوہر اب بہت بے صبرہ ہو رہا ہے اور چاہتا ہے کہ اُسے جلد از جلد امریکہ بلا لیا جائے۔جیسا کہ اس سے شادی کے وقت وعدہ کیا گیا تھا ،اس کے ساس سسر بھی اب طعنوں تشنوں پر اتر آئے تھے۔

اُس نے سوچا کہ میں داماد کو کچھ پیسے بھیج دوں تاکہ یہ معاملہ کچھ وقت کے لئے ٹھنڈا ہو جائے ،اور ایسا ہی ہوا بھی کہ کچھ دن کے لئے سکون ہو گیا۔لیکن یہ اس حقیقت سے بے خبر رہا یا جان بوجھ کر پہلو تہی کرتا رہا کہ اندر اندر جو لاوا پک رہا ہے وہ کب اُبل پڑے گا پتہ نہیں۔اور ہوا یوں کہ اس کی بیٹی کی زندگی کو ایک دوسرے باپ نے باہر کا ٹکٹ دے کر اپنی بیٹی کے لئے خرید لیا اور اُس کا داماد باہر جانے کی چاہت میں بِک گیا کہ وہ باہر جانے کا بہت شوقین تھا اُس پر بھوت سوار تھا باہر جانے کا جسے وہ ہر قیمت پر پورا کرنا چاہتا تھا۔لہٰذا اُس نے پانچ سال کے تعلق کو ایک جھٹکے سے توڑ پھینکا اور اُس کی بیٹی کو طلاق دے دی اور بچے بھی یہ کہہ کر رکھ لئے کہ وہ وعدہ خلاف اور جھوٹے لوگوں میں اپنی اولاد کو نہیں چھوڑے گا۔یہ بات بھی اُس کے لئے حیرت کا باعث تھی اور اس کی بیٹی کی لئے انتہائی دکھ اور تکلیف کا باعث۔

وہ رو رہی تھی ’’ با با میں زندہ نہیں رہ پاؤں گی ،با با میرے بچے ، با با میرے بچے۔ با با آپ نے اپنے جھوٹے وعدوں اور تسلیوں سے میری زندگی ختم کر دی مجھے دکھ کی آگ میں جھونک دیا ،با با آپ نے ایسا کیوں کیا ؟آپ نے وہ وعدے کیوں کئے جو آپ پورے نہیں کر سکتے تھے۔با با آپ نے میری زندگی میں زہر گھول دیا ،اب میں کس کے سہارے زندہ رہوں با با ،آپ نے مجھے ایک بار پھر جہنم میں جھونک دیا ،بابا پہلے میری ماں کو چھوڑ کر اور اب مجھے میرے بچوں سے چھڑا کر ، میں کیا کروں با با۔‘‘

اُس نے اپنی بیٹی کو تسلی دی ’’میں تمہیں جلدی یہاں بلا لوں گا ‘‘  دوسری طرف سے انتہائی ہسٹریائی انداز میں چیخنے کی آواز آئی نہیں با با نہیں میں اس ملک میں کبھی نہیں آؤں گی جس کی خاطر میرا شوہر میرے بچے چھن گئے نہیں با با میں وہاں ہر گز نہیں آؤں گی ،بس خدا را اب آپ کسی سے جھوٹے وعدے نہ کیجئے گا ،کسی کا سودا نہ کیجئے گا خدا کے لئے۔اور ہاں با با ایک بات اور ‘‘  انتہائی پتھریلے اور سخت لہجے میں کہا گیا

’’با با اب نہ میں آپ کو فون کروں گی نہ آپ یہ جاننے کی کوشش کیجئے گا کہ میں کہاں ہوں۔جس طرح میں اپنے بچوں کو ترسوں گی اب آپ بھی مجھے ترسئے گا ‘‘  اور اس کا جواب سنے بغیر فون بند ہو گیا۔

وہ سخت شرمندہ تھا اور اپنے کہے پر پچھتا بھی رہا تھا ،وہ سوچ رہا تھا کہ کاش میں اپنے داماد سے غلط بیانی نہ کرتا کاش میں اس کی خواہش کو پورا کرتا یا کاش میں اس سے کہہ سکتا کہ اس کا بلانا میرے بس میں نہیں ہے۔اے کاش کہ کوئی بھی بیٹی کا باپ مصلحتاًََ غلط بیانی سے بیٹیوں کی زندگی خراب نہ کرے۔نہ جھوٹے وعدے کرے اور نہ ہی جھوٹی تسلیاں دے۔کہ یہ رشتے جتنے مضبوط ہیں اتنے ہی نازک بھی ،اور پچھتاوا تو زندگی بھر ساتھ نہیں چھوڑتا۔اللہ ایسے پچھتاووں سے سب کو بچاتا رکھے۔اس نے دل سے دعا کی۔

وہ بیوی کی آواز پر کھانے کی ٹیبل پر جا بیٹھا ،جہاں اس کے بچے کھانے پر اس کے منتظر تھے۔اور شاید کسی کو بھی اس حادثے پر زیادہ دیر دکھ کرنے کا حوصلہ نہ تھا یا شاید یہ اس ملک کی روایات کا اثر تھا کہ ایسی باتوں پر کوئی زیادہ دیر دکھی نہیں رہتا۔’’اسے اپنے لئے کوئی دوسرا ساتھی ڈھونڈھ لینا چاہئے۔‘‘  اس کے بیٹے نے لا پرواہی سے کہا۔ وہ خاموش رہا۔

وہ سب اپنے آپ میں مست تھے۔ اُن کے لئے یہ کوئی بڑی بات نہ تھی۔

پچھتاوا صرف اس کے لئے تھا۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول