صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
شام کی اک منڈیر پر
جاوید انور
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
ہم کہ ہیرو نہیں
ہم خزاں کی حدود سے چل کر
خود بہاروں کی کوکھ تک آئے
ہم کو فٹ پاتھ پر حیات ملی
ہم پتنگوں پہ لیٹ کر روئے
سورجوں نے ہمارے ہونٹوں پر
اپنے ہونٹوں کا شہد ٹپکایا
اور ہماری شکم تسلی کو
جون کی چھاتیوں میں دودھ آیا
برف بستر بنی ہمارے لئے
اور دوزخ کے سرخ ریشم سے
ہم نے اپنے لئے لحاف بنے
زرد شریان کو دھوئیں سے بھرا
پھیپھڑوں پر سیہ راکھ ملی
ناگا ساکی میں پھول کاشت کئے
نظم بیروت میں مکمل کی
لورکا کو کلائی پر باندھا
ہوچی منہ کو نیلام میں رکھا
ساڑ ھے لینن بجے سکول گئے
صبحِ عیسیٰ کو شام میں رکھا
ارمغانِ حجاز میں سوئے
ہولی ووڈ کی اذان پر جاگے
ڈائری میں سدھارتھا لکھا
درد کو فلسفے کی لوری دی
زخم پر شاعری کا پھاہا رکھا
تن مشینوں کی تھاپ پر تھرکے
دل کتابوں کی تال پر ناچا
ہم نے فرعون کا قصیدہ لکھا
ہم نے کوفے میں مرثیے بیچے
ہم نے بوسوں کا کاروبار کیا
ہم نے اندھوں میں آئنے بیچے
زندگی کی لگن نہیں ہم کو
زندگی کی ہمیں تھکن بھی نہیں
ہم کہ ہیرو نہیں ولن بھی نہیں
٭٭٭