صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
شام کے دروازے تک
شہریار
جمع و ترتیب:اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
دشمن دوست سبھی کہتے ہیں، بدلہ نہیں ہوں میں
تجھ سے بچھڑ کے کیوں لگتا ہے، تنہا نہیں ہوں میں
عمرسفر میں کب سوچا تھا، موڑ یہ آئے گا
دریا پار کھڑا ہوں گرچہ پیاسا نہیں ہوں میں
پہلے بہت نادم تھا لیکن آج بہت خوش ہوں
دنیا رائے تھی اب تک جیسی ویسا نہیں ہوں میں
تیرا لاثانی ہونا تسلیم کیا جائے
جس کو دیکھو یہ کہتا ہے تجھ سا نہیں ہوں میں
خواب تہی کچھ لوگ یہاں پہلے بھی آئے تھے
نیند سرائے تیرا مسافر پہلا نہیں ہوں میں
٭٭٭
اب تجھے بھی بھولنا ہوگا مجھے معلوم ہے
بعد اس کے اور کیا ہوگا مجھے معلوم ہے
نیند آئے گی، نہ خواب آئیں گے ہجراں رات میں
جاگنا، بس جاگنا ہوگا مجھے معلوم ہے
اک مکاں ہوگا، مکیں ہوگا نہ کوئی منتظر
صرف دروازہ کھلا ہوگا مجھے معلوم ہے
آگے جانا، اور بھی کچھ آگے جانا ہے مگر
پیچھے مڑ کر دیکھنا ہوگا مجھے معلوم ہے
زندگی کے اس تماشے میں کسی اک موڑ پر
کوئی شامل دوسرا ہوگا مجھے معلوم ہے
٭٭٭